عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وَ فِی رِوَایَۃٍ فُتَحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَ غُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَ فِی رِوَایَۃٍ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ۔ [متفق علیہ]
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ماہِ رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، (ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، شیاطین (اپنے طائفے کے ساتھ) جکڑ دیئے جاتے ہیں(دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں)۔ [متفق علیہ]
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول ﷺپہلے سے ہی اس کی تیاری میں لگ جاتے اور صحابہ کرام سے دریافت بھی فرماتے کہ تیاری کیسی چل رہی ہے؟ اس کی آمد پر خطبات دیتے، اوائل شعبان ہی سے روزے کثرت سے رکھتے، شعبان کو اپنا اور رمضان کو اللہ کا مہینہ کہتے، کیوں نہ ہو رمضان المبارک تو نیکیوں کا موسمِ بہار ہے،اس میں’’ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے‘‘۔ جس طرح برسات کے بعدموسم بہار (ربیع) میں ہر چیز پھلنے پھولنے لگتی ہے، درختوں پر ہریالی پورے آب و تاب سے آتی ہے، زمین کا سینہ چیر کر سنہرے پیڑ پودے نمو دار ہوتے ہیں، ہر چیز انسانی فطرت کے بہ شمول سدابہار ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح رمضان المبارک میں بھی انسانی طبیعت خود بخود نیکیوں کی جانب مائل ہوتی ہے، روزوں کا اجتماعی نظم اور روحانیت کا ہمہ گیر ماحول انسانی فطرت کو نیکیوں پر ابھارتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اس ماہ میں انسان عباداتِ الٰہی سے شرابور ہو جاتا ہے اور رب العالمین کے خصوصی کرم سے گھر جاتا ہے، رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور سکینت و طمانینت آدمی پر اپنی چادر تان دیتی ہے، دینی و مذہبی انقلاب کا جذبہ سرایت کر جاتا ہے،پھر ہر شخص جنت کے حصول کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہے۔ الغرض! اللہ سے لو لگانے، اپنی اصلاح کی فکر کرنے، منہیات سے رکنے کی کوشش اور معروفات کے فروغ کے لیے تگ و دو کرنے اور جلدی جلدی نیکیوں کی کمائی کا یہ الٰہی آوازہ/اعلان ہے،؛ کیوں کہ یہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔
عجب لطف یہ ہے کہ اس مبارک ماہ میں ’’شیاطین اپنے باطل طائفوں کے ساتھ زنجیر میں جکڑ دیئے جاتے ہیں‘‘، حسنات کے مواقع خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں، برکتیں اترتی ہیں، ثواب کما نے کے وسائل و ذرائع میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قرضِ حسنہ کا ترازو باوزن ہوتا چلا جاتاہے۔ ضرورت ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے، اپنی شخصیت کا احتساب ہو، مال و دولت کے مصارف کا جائزہ لیا جائے، مزاج میں گرمی و سردی اور اخلاقیات میں ترقی و انحطاط پر سنجیدگی سے غور کیا جائے مزید یہ کہ اچھائیوں اور برائیوں کی میزان لگا ئی جائے، گناہوں اور نیکیوں کے پلڑوں پر نظر رکھی جائے۔ اگر گناہوں کا پلڑا بھاری محسوس ہوتو اس ماہ میں خوب نیکیاں کمائیں، توبہ و استغفار کریں اور استحضارِ الہی کی قسم کھائیں، نادم ہو کر آنسو گرائیں اور توبہ نصوح کریں، نومیدی چھوڑ کرجنت کے آرزومند ہو جائیں۔ اگر نیکیوں کا وزن دار محسوس ہو تو خود کو شکر گزار بندوں میں شامل کرانے کی فکر میں لگ جائیں، نوافل اور اعمال صالحہ کو پورے اہتمام سے اختیار کریں، دوسرے پلڑے میں موجود برائیوں کو دھونے کی کوشش کریں۔ اللہ کے رسولﷺنے کئی مواقع پر فرمایا ہے کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں! اس لیے شکر گزار لوگوں میں شامل ہونے کی فکر بھی ہمہ وقت ہونی چاہیے۔
چوں کہ یہ موسم بہار ہے، نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے تو ہمیں چاہیے روزے مکمل رکھیں ذرا سی سستی، کاہلی اور غیر معقول بہانوں سے حتی الامکان اجتناب کریں،’’جو شخص ایمان اور اخلاص سے رمضان المبارک (کے مہینہ) کے روزے رکھے، اُس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جو رمضان المبارک (کے مہینہ) میں اِیمان اور اِخلاص سے راتوں کو عبادت کرے تو اُس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جو شب ِقدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اُس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘ تراویح کا اہتمام کریں،’’جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید سے قیام کرتا ہےتو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں‘‘۔’’یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ماہ رمضان میں مؤمن کے لیے دو طرح کے جہاد بالنفس اکٹھے ہو جاتے ہیں: دن میں روزے کے ذریعے جہاد بالنفس اور رات کو قیام کے ذریعے جہاد بالنفس، تو جو شخص ان دونوں کو جمع کر لے تو اسے بے حساب اجر دیا جائے گا۔‘‘عام دنوں کے مقابلے میں نمازوں کی اس قدرکثرت کی جائے کہ آئندہ (بقیہ گیارہ ماہ )نمازکے عادی بن جائیں، تسبیحات وتلاوت کلام اللہ کو اپنا مشغلہ بنا لیں؛ کیوں کہ اس ماہ کوقرآن مجید سے خاص نسبت حاصل ہے، ’’رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں پر مشتمل ہے‘‘۔گناہوں سے آخری حد تک دور رہیں، مال پر سال گزر گیا ہو تو زکوٰۃ دیں، اور ساتھ ہی اضافی صدقات کا بھی اہتمام کرتے ہوئے غرباء و مساکین کی مدد کریں، اسی طرح دینی اداروں، اکیڈمیوں، مدرسوںاور انسٹی ٹیوٹ وغیرہ پر بھی توجہ دیں،کیونکہ ان کا امت مسلمہ کے عروج میں بڑا اہم کردارہے، اور یہی حلقے خدمتِ دین وبیداری امت کے کام کو سنبھالےہوئے ہیں؛ یہی تو ’’نیکیوں کا موسم بہار‘‘کے معنیٰ ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ ’’آسمان (یا جنت، یا رحمت) کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں‘‘۔ یعنی رمضان المبارک کے آنے کے بعد جس راستے سے چاہیں اور جس قدر چاہیں نیکیاں کر سکتے ہیں، جنت کے سارے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے گئے ہیں۔پھر فرمایا گیا ’’جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں‘‘، بتلانا مقصود یہ ہےکہ انسان عام دنوں میں جو گناہ کر لیتا ہے اس کے امکانات کم ہو جاتے ہیں؛ کیوں کہ انسان ہر جانب عبادات میں مشغول لوگوں کو دیکھتا ہے، بالقصد اگر برائی کا ارادہ بھی کرے تو کیسے؟ جس کے ساتھ برا کرنا چاہے تو وہ بھی ایک طرح سے عبادت میں لگا ہوتا ہے۔
الغرض! رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، ہمیں چاہیے کہ ماہِ مبارک کی ساعتوں کی قدر کرتے ہوئےان سے کماحقہ استفادہ کریں اور یہ کوشش کریں کہ یہ ماہ زندگی کے مختلف گوشوں میں خوشگوار تبدیلیوں کا باعث ہو،ساتھ ہی یہ عہد کریں کہ ہم دیگر گیارہ مہینوں میں بھی اپنی زندگی کو رمضان ہی کی طرح بنانے کی کوشش کریں گے؛ تاکہ ماہِ رمضان کی یہ انقلابی تبدیلی جنت میں لے جانے کا سبب بنے۔آمین!
محمد طارق بدایونی
معاون مدیر: ندائے اعتدال، علی گڑھ