اللہ تبارک و تعالی کی تخلیق کردہ یہ کائنات جب سے وجود میں آئی ہے اپنے اصولوں پر قائم ودائم ہے۔ سورج، چاند، زمین سب اپنے اپنے محور پر گردش کر رہے ہیں۔ کائنات کے کروڑہا کروڑ سیاروں میں سے اگر ایک سیارہ بھی اپنی حرکت بند کر دے یا اپنے محور سے سے ہٹ کر حرکت کرنا شروع کر دے تو پوری کائنات عدم متوازن (Dis-Balanced) کی شکار ہوجائے گی اور اسے فنا ہونے میں بالکل بھی وقت نہیں لگے گا۔ انسانی زندگی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، اگر زندگی میں کامیابی کے اصولوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو زندگی گزر جاتی ہے لیکن اس کا حق ادا نہیں ہوپاتا۔ اللہ پاک نے ہر انسان کی فطرت میں عظمت کے بیج رکھے ہیں، لیکن ہر انسان عظیم نہیں بن پاتا۔ عظیم وہی بنتا ہے جو ان اصولوں کا لحاظ رکھتا ہے۔
دنیا کا اصول ہے کہ جو آگے نہیں بڑھتا اسے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ جہاں ترقی نہیں ہوتی وہاں تنزلی ہوتی ہے، جہاں پرگتی نہیں ہوتی وہاں درگتی ہوتی ہے، جہاں بلندی نہیں ہوتی وہاں پستی ہوتی ہے، جہاں وکاس نہیں ہوتاوہاں وناش ہوتا ہے، جہاں حرکت نہیں ہوتی وہاں جمود ہوتا ہے اور جہاں جمود ہوتا ہے وہیں زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جو لوگ ترقی کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں ان کی قسمت میں بھی ترقی کے پر لگ جاتے ہیں۔ حرکت میں ہی برکت ہے اور برکت والی زندگی ہی بہتر ہے۔
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ موجودہ دور کے نوجوان حرکت کرنا چاہتے ہیں اور برکت والی زندگی بھی جینا چاہتے ہیں، لیکن وہ پریشان ہیں کیونکہ ان کے پاس کچھ بہتر کرنے کو نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ مطمئن اس لیے نہیں ہیں کیونکہ وہ جو چاہتے ہیں انہیں وہ نہیں ملا، اور پریشان اس لیے ہیں کہ صحیح معنوں میں وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟
میں یہ نے محسوس کیا کہ زیادہ تر جوانوں کے پاس آرزؤں اور تمناؤں کی بہتات ہے، وہ زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جیسے؛ بہت زیادہ دولت، بہت زیادہ شہرت اور بہت زیادہ کامیابی! لیکن بدقسمتی سے ان میں سے اکثر وبیشتر اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس مقصد کو حاصل کیسے کیا جائے؟ یا پھر وہ اس کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتے، پسینہ نہیں بہانا چاہتے، مسلسل کوشش نہیں کرنا چاہتے اور اس راہ میں قربانی نہیں دینا چاہتے!
(ماخوذ از پیش لفظ کتاب)
ڈاکٹر آفاق ندیم خان نے اپنی کتاب *کامیابی کے اصول* میں کامیابی کے درج ذیل چار بنیادی اور اہم اصول بتائے ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن بناسکتے ہیں، بس اقبال کی زبانی شرط یہ ہے کہ: یقیں محکم عمل پیہم ہو، صبر وتحمل،جذبات پر قدرت، کوشش مسلسل و متعین اور خود کو مکمل طور پر وقف کرنا ہوگا۔
*کامیابی کے اصول*
(1) خود آگہی (Self Awareness)
(2) ہدف کا تعین (Goal Setting)
(3) وقت کی تنظیم (Time Management)
(4) شخصیت سازی ( Personality Grooming)
جو لوگ دنیوی اور اخروی کامیابی کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں، ان کے لیے کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا، ضرور بالضرور کریں اور دوسروں کو بھی بتائیں،ذیل کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی غرض سے کہ:
قال النبي عليه الصلاة والسلام يوم خيبر لعلي رضي الله عنه:
"لأن يهدي الله بك رجلا واحدا، خير لك من أن يكون لك حمر النعم“.(متفق عليه)
وما توفيقي إلا بالله.
حراء آن لائن
جنسی تعلیم اور شرعی نقطئہ نظر
کامیابی کے اصول از : محمد مرغوب الرحمن ندوی
Related Posts
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_* *ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔ * ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن…
Read moreخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: 24؍جون 2025ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے…
Read more