ہندوستانی مسلمانوں کی حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے احوال سے مشابہت رکھتی ہے مکی زندگی میں مسلمان اقلیت میں تھے ہندوستانی مسلمان بھی اقلیت میں ہے،مکی زندگی کے مسلمانوں کو مشرکین کی مخالفت کا سامنا تھا ہندوستانی مسلمانوں کو بھی مشرکین کا سامنا ہے ،مکی زندگی میں مسلمان اسباب و وسائل کے لحاظ سے کمزور تھے ہندوستانی مسلمان بھی آج کمزور ہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ مخالفت مکی دور کے مقابلے میں بہت معمولی ہے ،
چوں کہ مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے حالات مکی دور کے مماثل ہیں اس لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مکی کے دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجنڈا کیا تھا مخالفت ظلم اور اقلیت کی صورتحال میں آپ نے جس ایجنڈے پر عمل کیا تھا مسلمانوں کو بھی وہی ایجنڈا کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے سیرت رسول کے مکی دور کا جائزہ لے تو پتہ چلے گا ان کی زندگی میں آپ نے درج ذیل یہ نکاتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا تھا تھا،
(1) وحدت (2) دعوت (3) خدمت
اس کے بعد جب حضرت مفکر اسلام کی تحریر اور زندگی پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ حضرت مولانا کا بھی یہی تینوں ایجنڈا تھا ،حضرت نے ان تمام تحریکوں کا ساتھ دیا جو ان ایجنڈے کو لیکر آگے بڑھا،
*وحدت*
اتحاد امت مسلمہ کی اصلاح کی اولین اساس ہے، مکی زندگی میں مسلمان کمزور اور اسباب و وسائل سے محروم ضرور تھے لیکن ان میں آپسی اتحاد اور اجتماعیت ایسی تھی کہ ظالموں کے ہزار ظلم کے باوجود ان کا شیرازہ منتشر نہ ہوا ، مکی زندگی کے تعلق سے کبھی نا سنا گیا ہوگا کہ صحابہ میں اسلام اور دین کے تعلق سے بے اعتمادی یا نظریات میں انتشار پیدا ہوا ہو ،
جبکہ اختلاف و انتشار موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت بن گیا ہے یہ اختلاف عقائد کی بنیاد پر بھی ہیں اور رسم و رواج کی بنیاد پر بھی مختلف فقہی مسالک سے ان کی وابستگی نے بھی ان کے درمیان اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردیں ہیں ، سیاسی تنازعات نے ان کے دلوں میں کدورتیں پیدا کردی ہیں ، اور یہ اختلاف ہندوستانی مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے گڑھے میں گرا دینے کے لیے کافی ہے مزید ستم یہ ہوا کے ان کے دشمن کے ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں،
ماضی قریب میں ہندوستانی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سب سے زیادہ کوشش جن اکابرین نے کیا ہے، ان میں سر فہرست حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، قاضی مجاہد الاسلام صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی دامت برکاتہم العالیہ ہی،اور حضرت مولانا مفکر اسلام نے تحریک ندوۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے امت کو متحد کرنے کے لئے اور اختلاف و انتشار سےبچانے کے لیے وہ کارنامہ انجام دیا ہے ، جس پر ہمیشہ ہمیش ندوۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا کی تاریخ گواہ رہے گی ،
موجودہ وقت میں ضرورت اس بات کی ہے ہندوستانی مسلمانوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اتحاد اور اختلاف کے حدود سے آشنا ہو ،تا کہ اختلاف سے بچا جاسکے کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کا اتحاد موجود دور کی اہم ترین ضرورت ہے ،
*دعوت*
سہ نکاتی ایجنڈا کا دوسرا نقطہ دعوت ہے فی الحال ملک میں دعوتی کام کے تین محاذ ہیں،
(پہلا محاذ)
*مسلمانوں میں اصلاح کی کوشش*
یعنی مسلم معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرنا، معاشرے میں موجود بگاڑ و فساد جرائم ،حق تلفی و ناانصاف کو دور کرنا اور اخلاقی پسماندگی اور سماجی پستی سے مسلمانوں کو نکالنا، اس کام کے لیے سب سے نمایاں کارنامے دعوت وتبلیغ کوالوں نے دیا ہے ،اور اس تحریک کے بارے میں حضرت مولانا کا کیا تاثر تھا خود ان زبانی سنیے۔۔۔۔۔
اس سفر میں ہم نے جو حیرت انگیز چیز دیکھی ،اور جس سے ہم کو لازوال مسرت اور شادمانی ہوئی وہ میوات کے علاقہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کا تبلیغی کام اور نظام ہے، ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ بیسویں صدی عیسوی کا منظر نہ تھا بلکہ پہلی صدی ہجری کا نقشہ معلوم ہوتا تھا، عہد بعثت کی اصلاح اور انقلاب حال اور قرن اول کے نو مسلموں کے جوش و جذبہ اور تبلیغ کے ذوق وشوق کے جو قصے ہم نے سیرت اور تاریخ اسلام میں پڑھے تھے گورگاوں کی جامع مسجد اور قصبہ نوح اور شہاپوری کی گلیوں میں اس کا نمونہ دیکھا ، وقعہ یہ ہے کہ چشتی درویش اور مجددی عالم قدیم غیاث پور ( حال بستی نظام الدین) میں حضرت نظام الدین اولیاء کے پہلو میں بیٹھ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی "اشاعت اسلام” اور حضرت مجدد سرہندی اور حضرت شہید رائے بریلی کی ” حفاظت اسلام” کی سنت زندہ کررہا ہے ،
( کاروان زندگی ج 1 ص 241)
حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی حضرت مولانا مفکر اسلام کی دعوت و تبلیغ کی محنت کے سلسلے میں لکھتے ہیں ،
” اس کا ہی اثر تھا کہ لکھنؤ واپس آکر مولانا نے اپنے چند سعادت مند اور تعلق والے طلبہ کو لے کر لکھنؤ نواحی محلہ کا دورا کیا ، اور دورے کے روداد لکھ کر بھیجنے لگے جوابات نہایت ہمت افزائی دلجوئی اور قدر افزائی کے آنے لگے مولانا کا بیان ہے کہ یہ خطوط جب ملتے تو میں ان کو اتنی بار پڑھتا کہ اس سے بہت سے حصے یاد ہوجاتا "
(بانگ حرا جون 2000 ص: 34)
بقول مولانا عبد اللہ عباس ندوی حضرت مولانا نے حجاز، مصر ،شام ،مسجد اقصی، اور سودان کا سفر کیا ، دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ،
( میر کارواں ص:368)
فی زماننا مسلمانوں میں اصلاحی کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے مسلم معاشرے میں بے دینی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے ، مسلمانوں میں اصلاحی کوشش زیادہ ہوگی تو ان میں دینی پختگی پیدا ہوگئی ، پھر اسی کے بقدر حالات کی ناسازگاری میں استقامت کی قوت پیدا ہو گی موجودہ پرفتن ماحول میں دین پر ثابت قدمی اشد ضروری ہے جو دعوتی اور اصلاحی جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں ہے،
( دعوت کا دوسرا محاذ)
* غیروں تک اسلام کا پیغام پہونچانا *
برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے ، اس کی اہمیت کا اندازہ حضرت مولانا رحمت اللہ علیہ کے اس تحریر سے لگا جاسکتا ہے،
"ہم نے اگر ہندوستان کی اصل باشندے کو نظر انداز کیا اور اسلام کا پیغام اس تک نہیں پہنچایا اور اپنے اخلاق و کردار سے ان کے دلوں کو نہیں جیتا تو یہ ملک کسی بھی وقت اسپین بن سکتا ہے،کہ اب مسلمانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر سو فیصد مسلمان تہجد گزار بن جائے اور ہر مسلمان کے ہاتھ میں تسبیح آجائے اور ہر مسلمان اشراق و چاشت کا پابند ہو جائے۔۔۔۔۔۔لیکن ملک کی اکثریت دین سے نامانوس ہے اور دلوں میں زہر لیے بیٹھی ہے، اور سینے میں انگارے سلگ رہے ہوں ،تو خدانخواستہ جس وقت ملک میں کوئی بھونچال آئے گا تو ہم اپنی عبادتوں اور نوافل کے ساتھ بے دخل کر دیا جائیں گے اس وقت نوافل تو نوافل جو بنیادی چیزیں ہیں وہ بھی نہیں رہیں گی اس لئے ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس آبادی کو اسلام سے مانوس کرائیں ، اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچائیں انہیں بتائیں کہ اسلام کیا ہے،
ہم اپنی طرز زندگی ،طرز عمل ،اخلاق ،خوش معاملگی، دیانتداری، میٹھے بول سے ملک کی اکثریت کو مانوس کرنے کوشش کریں "
( کاروان زندگی)
مولانا کے اس اقتباس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں غیروں تک اسلام کو پہونچانا کتنا اہم ہے،لیکن اس کے باوجود ہندوستانی مسلمان کا اکثر طبقہ اس کے تائیں سنجیدہ نہیں ہیں، اس فرض منصبی کی ادائیگی میں مسلمانوں کی کاہلی کو دیکھ کر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے مفکر اسلام لکھتے ہیں۔۔۔
"یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اس فرض کی ادائیگی میں اور اپنی ذمہ داری کے احساس و شعور میں بڑی کوتاہی کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کی اکثریت اسلام کی ان روزمرہ کی خصوصیات، نشانیوں اور اذان ونماز کے بارے میں بعض اوقات ایسے سوالات کرتے ہیں کہ بجائے ان پر ہنسی کے اپنی کوتاہی پر رونا آنا چاہیے”
اس کا حل کیا ہے اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں۔۔۔
"غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کرانے کی کوشش کریں اور ایسے کسی موقع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں، ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت وہ بڑی فطری،معقول پرکشش اور دل و دماغ کو تسخیر کرنے والا دین قرآن مجید کا اعجازی صحیفہ اور نبی آخر الزماں کی دلکش اور دلآویز سیرت اور اسلام کی قابل عمل اور عقل سلیم کو متاثر کرنے والی تعلیمات ہیں جو کھلے دماغ اور صاف ذہن سے بڑھا جائے تو اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتیں اور ان ہی دنیا کے وسیع ترین رقبہ اور متمدن و ذہین قوموں کو اپنا عاشق اور اپنے اوپر کار بند بنالیا اور ملک کے ملک جو صدہا سال کی تہذیبیں ،فلسفے اور حکومتیں رکھتے تھے ان کے حلقہ بگوش اور ان کے داعی و مبلغ بن گئے”
( موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟ ص: 19)

( دعوت کا تیسرا محاذ )
• غلط فہمیوں کا ازالہ*
دعوت کے تیسرا محاذ ان غلط فہمیوں کے ازالہ سے تعلق رکھتا ہے جو اسلام کے تعلق سے فرقہ پرست طاقت اور دشمنوں نے پھیلا رکھی ہے فرقہ پرست طاقتوں نے میڈیا کے ذرائع استعمال کرکے اسلام کے خلاف بے سروپا باتوں کو پھیلادیا ہے ایسے تمام غلط فہمیوں کا ازالہ مستقل کام ہے ،اور یہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے لیے خصوصاً نسل نو کے لیے تمام میدانوں میں ترقی کے لئے رکاوٹ بنتی جا رہی ہے ،
اور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز اس آزاد دیس میں سب سے پہلے انگریزی عہد میں ہوا تھا ،انگریزی عہد میں "لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت کبھی کبھی مسلم فسادات ہوئے اور فرقہ پرست ،فتنہ پرور اور سماج دشمن عناصر کی سازشوں اور انتظامیہ کی نااہلی و کوتاہی اور دوسرے پیچیدہ عوامل کے نتیجے میں فسادات کا ایک سلسلہ چل پڑا ،جو ہندوستان کی انسان دوستی کی تاریخ کی پیشانی پر بدنما داغ دھبے بن کر ابھرا جس سے مسلمانوں میں بدگمانی پیدا ہوئی،اور ان کی نفسیات میں منفی رجحانات پرورش پانے لگے ،
جس کی منظر کشی عبداللہ عباس صاحب” میر کارواں ” میں کیا ہے لکھتے ہیں ،
"مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں بہت وسیع اور گہری خلیج قائم کر دی ہے ،تاریخ ہند میں مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا ہے،موجودہ نسل انہیں تاریخی مستندات پر ایمان رکھتی جو انگریزوں سے اس کو ورثہ میں ملی ہے ،پھر برطانوی سامراجیت اس فارمولے پر قائم تھی کہ آپس میں ان کو لڑا کر حکومت کرو "
( میر کارواں ص: 368)
ایسے نازک و پیچیدہ شک و شبہ بدگمانی و بے اعتمادی اور نفرت و عداوت کی فضا میں مختلف پارٹیوں کے رہنما کے ساتھ ساتھ جہاں مولانا حفظ الرحمن اور ڈاکٹر سید محمد ہندو مسلم اتحاد اور امن و انسانیت کے لیے سرگرم عمل ہوئے وہیں مفکر اسلام نے پیام انسانیت کے نام سے ایک مستقل اور فعال تحریک قائم کی ، جس کی بنیاد 21/ دسمبر 1974 کو پڑی ،
* تحریک پیام انسانیت*
اس تحریک کا اصل مقصد ملک کے انصاف پسند شہریوں کو ساتھ لے کر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور بیدار کرنا تھا۔ انسانی اقدار کی حفاظت کرنا انھیں فروغ دینا اور ان کی بنیاد پر لوگوں کو قریب کرنا تھا۔ اسکا مقصد مسلمانوں کے تئیں پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کرنا اور مختلف طبقات کے انٹلیکچول طبقے کے ذہن کو صاف کرنا اور معاشرے سے ظلم کو ختم کر کے امن و انصاف کو قائم کرنا تھا اور یہ کام مختلف طبقات کے لوگوں کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہ تھا۔
تحریک پیام انسانیت کے مقاصد اور ضرورت کے سلسلے میں حضرت مولانا لکھتے ہیں۔۔
"بقائے باہم ،انسانی اور شہری بنیادوں پر اتحاد و تعاون اور انسانی جان و آبرو کے تحفظ انسان کے احترام اور اس سے محبت کی تبلیغ و تلقین ضروری ہے، اس ملک کی فضا کو مستقل طور پر معتدل اور پر سکون بلکہ راحت اور باعزت رکھنے کی ضامن ہے اور جس کے بغیر اس ملک (جس کے لیے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا مرکز اور دیس ہونا مقدر ہو چکا ہے )کی ترقی اور نیک نامی الگ رہی ، امن و امان اور اطمینان کے ساتھ باقی رہنا بھی مشکل ہے”
( موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں ؟ ص: 21)

اس مقصد کے حصول کے لیے تحریک پیام انسانیت کے نام سے مولانا علی میاں ندوی 1974 میں اس تحریک کا آغاز کیا تھا ،ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک میں تحریک پیام انسانیت جیسی کوششوں کی اہمیتِ اظہر من الشمس ہے،ان تحریکوں کے ذریعے ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن دو مقصد سب سے اہم ہے اول اس طرح کی کوششیں قائدانہ حیثیت میں متعارف کراتی ہیں،کسی دوسرے جہنڈے تلے جمع ہو کر نعرہ بازی کرنے والی بھیڑ کے بجائے ایک با مقصد جماعت کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جس کے پاس اپنے حقوق کی بازیابی کسی مخصوص زبان کی تحفظ ملازمتوں اور دیگر تعلیمی ومعاشی مواقع میں اپنے مفاد کے بجائے ملک و ملت اور انسانیت کے نام سے کوئی پیغام ہوتا ہے اور وہ ایک ذمہ دار اور فکر مند شہری کے طور پر سماج کے حالات کو صحیح رخ سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنی بساط بھر حالات کو صحیح رخ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ،
اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی کوششیں ملک میں مسلمانوں کی شبیہ سازی میں مثبت رول ادا کرتی ہیں عالمی سیاسی اور تہذیبی صورتحال نے مسلمانوں کی شبیہہ کو جس منظم انداز میں بگاڑا ہے اس سے ہر شخص واقف ہے ، اس سلسلے میں نفع و نقصان اور خالص تجارتی اور غیر اخلاقی اقدار کے زیر اثر کام کرنے والے میڈیا ہاؤسز نے جو کردار ادا کیا ہے وہ صحافت کے ماتھے پر ایک کالا دھبا ہے ،
حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ نے اس پلیٹ فارم سے بڑے کامیاب ڈائلاگ کیے۔ بڑے ثمر آور دورے کیے۔ بہت نتیجہ خیز جلسے کیے۔ اسکی افادیت کے پیش نظر سید حامد مرحوم جیسے لوگ پروگرام سے پہلے میدان ہموار کیا کرتے تھے۔ کبھی بھی اگر اس تحریک سے وحدت ادیان کا خطرہ پیدا ہوا تو حضرت نے برملا اعلان کیا وان هذا صراط مستقيما لیکن حضرت نے بھی کبھی اسکو دعوت و تبلیغ کے لیے وسیلہ نہیں بنایا۔ تاکہ دوسرے بھی ایسا نہ کر سکیں اور اس کا مقصد اصلی بھی فوت نہ ہوسکے۔
تحریک پیام انسانیت کا اصل مقصد تقریب اذہان اور پیار محبت کو فروغ دینا اور نفرت و ظلم کی جڑیں اکھاڑنا تھا۔ یہ کام مثقف اور ذمہ دار طبقہ کو متوجہ کیے اور ساتھ لیے بغیر ممکن نہ تھا چنانچہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے کامیاب کوششیں کیں اور بہت سے ذہن تعمیر کیے۔ پیام انسانیت اگر اپنا یہ اصل کام نہیں کر پاتی ہے تو چھوٹی چھوٹی کوششیں کسی کارآمد اور بڑے نتیجے تک پہنچنے میں معاون نہیں ہو سکتیں۔ یہ بات الگ کہ کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام فوائد سے خالی نہیں ہوتا۔
تحریک پیام انسانیت کا موضوع ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے اس لیے ہم اس لے ہم سردست یہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھیں گے، لیکن اس تحریک کا آغاز اور مقاصد ، ابتدائی سرگرمیاں، پیش آنے والے مسائل اور حضرت مولانا علی میاں کی وفات کے بعد اس پر جو گزرا سو گزر،ا لیکن یہاں اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ جن حالات میں مولانا علی میاں نے پیام انسانیت کی تحریک کا آغاز کیا تھا، حالات اب بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے ،
آج کی خطرناک صورت حال میں اس تحریک کی اہمیت مزید دوبالا ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسکی وہی شکل مفید و ضروری ہے جو حضرت نے شروع کی تھی۔ باقی پہلوں کی تقسیم اور لحاف کی تقسیم خدمت انسانیت اور کار ثواب تو ہے لیکن شریروں کی شرارت کا علاج نہیں ۔ ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ضرورت پوری کرنے والے اس عمل کو کسی مقصد میں تبدیل بھی نہیں کر پاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ہنگامے سے پرے زمین پر وہ تبدیلی بھی نظر نہیں آتی۔
اسی طرح ضرورت ہے کہ دوسرے طبقات کے با اثر لوگوں کو ساتھ لیکر ظالموں اور شریروں تک پہنچا جائے اور انکی ذہنی تشکیل و تعمیر کا سامان کیا جائے اور مشترک ڈائیلاگ کی فکر کی جائے نہ کہ معدود چند واقعات سنا سنا کر تسلی دی جائے اور ان ہی کو تاثر دینے کے لیے کافی سمجھا جائے۔ ضرورت ہے کہ غربا و فقرا سے آگے بڑھ کر اس طبقے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے جو ہمہ وقت اور ہر چند ان بے چاروں کو اپنی شرارت کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔ قصہ مختصر یہ تحریک ہندستانی معاشرے میں ضروری ہے تو اسکا پہلا والا رنگ و آہنگ اس کا لازمی حصہ ہے ۔

( خدمت خلق)
عہد مکی کا تیسرا ایجنڈا خدمت خلق تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالحاظ ملک و مذہب خدمت خلق کو اپنا شعار بنا لیا تھا خدمت خلق کو مختلف اعتبار سے اس ملک کا انجام دیا جاسکتا ہے فردا بھی، اور اجتماعی صورت میں بھی ، سب سے بہترین طریقہ سیاست میں حکومت کا حصہ بن کر اس کو انجام دیا جا سکتا ہے،
(سیاست میں مسلمان )
ہم میں سے ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو سیاست سے اس حد تک کہنارہ کشی کیے ہوئے ہیں کہ اس پر بات کرنا یا کسی مناسب امیدوار کی تائید کرنا بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں ،
سیاست کی اہمیت کا اندازہ علامہ اقبال کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے ،
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سیاست کے تعلق سے مزید ذہن و دماغ کھل جاتا ہے جب مفکر اسلام کا یہ اقتباس نظر سے گذرتا ہے, فرماتے ہیں۔۔۔
” اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنا دیا جائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کی احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہو جائے”
( بانگ حرا نمبر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ص: 77)
ملک کے موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو مولانا کی باتیں آج کل واضح طور پر سامنے آرہی ہیں ، کیونکہ ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ رکھا ہے ، سیاست اسلامی نقطئہ نظر سے کیا جائے تو یہ اصل خدمت خلق ہے ،

نومبر 2025
اتوار پیر منگل بدھ جمعرات جمعہ ہفتہ
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
30  

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.