رمضان المبارک کی تیاری کیسے کریں ؟ از: قاضی محمد حسن ندوی
ماہ مبارک رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،اس کی آمد بلاشبہ اللہ ربّ العزت کی کرم فرمائ کا نتیجہ ہے،جو مسلمان اس مہینے کی آمد تک حیات سے رہے گا وہ یقیناً بڑا ہی خوش نصیب ہوگا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب کا چاند نظر آنے پر یہ دعا کثرت سے پڑھتے ( اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا الی رمضان) مسلمان کے لیے اس مہینے کی بازیابی اللہ تعالٰی کی نوازش اور عنایت کا حصہ ہے ،اس پر ہر مسلمان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ،اس لیے کہ گزشتہ رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ بہت سے احباب نے روزہ تراویح ادا کی ،ماہ مبارک کی رحمت وبرکت سے مستفید ہوئے ، لیکن آج وہ ہمارے درمیان میں نہیں رہے ،بلکہ اللّٰہ کی رحمت میں جاچکے ہیں ،اس پہلو سے ہمارے اوپر ماہ مبارک کا سایہ فگن ہونا نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ،اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اس کے تقاضے کو پورا کرنے کی فکر کریں اور شکر الٰہی کو بجا لانے کی بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (،لئن شکرتم لازیدنکم ولان کفرتم ان عذابی لشیدید)اگر تم اللہ کا شکر ادا کروگے تو تمہاری نعمتوں میں اصافہ کروں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو اللہ کا عذاب بہت سخت ہے)
یہ فطری چیز ہے کہ وقت سے پہلے جس کام کی تیاری ہوتی ہے وہ کام ہر پہلو سے مکمل اور پورا ہوتا ہے ،مثلا کسی کے گھر لڑکے یا لڑکی کی شادی کی تقریب طے ہو تی ہے تو گھر کے سارے افراد اس پہلو سے غور کرتے ہیں کہ اس موقع پر آنے والے سارے مہمان کا اس کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اکرام ہو ،ضیافت ہو ،استقبال ہو،کسی کی ناقدری نہ ہو ،چنانچہ اس کی تیاری بر وقت نہیں کی جا تی بلکہ اس کے لیے بہت پہلے سے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ،پھر اس کے مطابق تیاری کی جا تی ہے ،اس کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے ، ہونے والا پروگرام کامیاب ہو تا ہے ،مہمان کے علاوہ میزبان بھی اپنی کامیابی پر خوش فرحان اور شاداں ہوتا ہے ،
غور کرنے کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے مہمان کی آمد پر پہلے سے تیاری کرتے ہیں ،توکیا اللہ کے مہمان کی آمد پر تیاری پہلے سے نہیں ہونی چاہئے ،سب کہیں گے کہ ضرور ہونی چاہیے ،کیوں ؟ اس لئے کہ سال میں اس کی آمد ایک ہی بار ہوتی ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ اس سال ہماری زندگی ہمارے ساتھ وفا کررہی ہے ،ماہ مبارک میں موجود ہیں ،معلوم نہیں آئندہ ہم زندہ رہیں گے یا نہ رہیں ہمیں ،اس وجہ سے رمضان المبارک کی آمد ہمارے لئے ایک اہم نعمت سے کم نہیں ،اس لیے اس کے فیوض و برکات سے بازیاب ہونے کے لئے پہلے سے ہمارے بس میں جو کچھ ہے کر گزرنا چاہیے ،تاکہ رمضان المبارک کی آمد کے بعد اس کی نعمت اور رحمت سے محذوذ ہونے میں اور دلوں کو روزہ تراویح تلاوت ذکرِ الٰہی سے جلا بخشنے میں کوئی دقیقہ چھوٹ نہ جانے
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے اس کی تیاری کیسے کی جائے ؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب عامۃ علماء کی زبانی سنتے رہتے ہیں کہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بجا لانے کا اہتمام کیا جائے ،اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں انہیں چھوڑ دی جائے ،چوں کہ شعبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے اس لئے اس مہینے میں کثرت سے نفل روزے رکھنے کا اہتمام کیا جائے ،تلاوت قرآن کا بھی ،یہ تو کرنے کے اعمال ہیں ،اس کے علاوہ کچھ اعمال وہ ہیں جن کو چھوڑ دینا ہے ،مثلا شراب ،جھوٹ،جوا ،غیبت،بدخواہی ،چوری ،زنا ،بدعہدی ،امانت میں خیانت ،دھوکہ فریب،مال حرام ،لغو کام ،قطع رحمی،یہ منفی اعمال ہیں جو صالح معاشرے کے لئےمضر ہی نہیں بلکہ ناسور ہیں اس لئے ابھی سے ان اعمال کو چھوڑ دیں ،ان کو چھوڑ نے کی سچی توبہ کریں ،انشاء اللہ جب رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ا چھے اعمال کو بروئے کار لانے اور برے اعمال کو چھوڑ کی عادت ہو جائے گی تو ،اس کا فائیدہ یہ ہوگا کہ ماہ مبارک کی پہلی تاریخ سے ہم پر رحمت کی بارش شروع ہو جائے گی ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ( اولہ رحمۃ واسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار) یعنی ماہ مبارک پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ برکت اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے)
بلاشبہ یہ اعمال رمضان المبارک کی تیاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،لیکن زندگی کے بعض وہ گوشے ہیں جن کی طرف عوام تو عوام خواص کی توجہ نہیں ہوتی ،حالانکہ ان کی حیثیت دین میں اساس و بنیاد کی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ اخروی نجات کا مدار اسی پر ہے ،وہ گوشے کیا ہیں ؟ وہ معاملات اور معاشرت کا باب ہے
معاملات میں اچھا ہونا ،کسی سے قرض لیا تو وقت پر ادا کردینا ،کسی سے وعدہ کیا اس کو پورا کیا ،کسی کی امانت ہے تو اس کی حفاظت کی،بات کرے تو سچ بو لے ،جھو ٹ سے احتراز کرے،بیوی بچوں ،اور رشتہ دار کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ( خیرکم خیرکم لاھلہ) تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہوں ) اللّٰہ پاک ہمیں بھی ان اعمال کی توفیق دے آمین اللھم وفقنا لمایحب ویرضی
یہ فطری چیز ہے کہ وقت سے پہلے جس کام کی تیاری ہوتی ہے وہ کام ہر پہلو سے مکمل اور پورا ہوتا ہے ،مثلا کسی کے گھر لڑکے یا لڑکی کی شادی کی تقریب طے ہو تی ہے تو گھر کے سارے افراد اس پہلو سے غور کرتے ہیں کہ اس موقع پر آنے والے سارے مہمان کا اس کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اکرام ہو ،ضیافت ہو ،استقبال ہو،کسی کی ناقدری نہ ہو ،چنانچہ اس کی تیاری بر وقت نہیں کی جا تی بلکہ اس کے لیے بہت پہلے سے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ،پھر اس کے مطابق تیاری کی جا تی ہے ،اس کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے ، ہونے والا پروگرام کامیاب ہو تا ہے ،مہمان کے علاوہ میزبان بھی اپنی کامیابی پر خوش فرحان اور شاداں ہوتا ہے ،
غور کرنے کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے مہمان کی آمد پر پہلے سے تیاری کرتے ہیں ،توکیا اللہ کے مہمان کی آمد پر تیاری پہلے سے نہیں ہونی چاہئے ،سب کہیں گے کہ ضرور ہونی چاہیے ،کیوں ؟ اس لئے کہ سال میں اس کی آمد ایک ہی بار ہوتی ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ اس سال ہماری زندگی ہمارے ساتھ وفا کررہی ہے ،ماہ مبارک میں موجود ہیں ،معلوم نہیں آئندہ ہم زندہ رہیں گے یا نہ رہیں ہمیں ،اس وجہ سے رمضان المبارک کی آمد ہمارے لئے ایک اہم نعمت سے کم نہیں ،اس لیے اس کے فیوض و برکات سے بازیاب ہونے کے لئے پہلے سے ہمارے بس میں جو کچھ ہے کر گزرنا چاہیے ،تاکہ رمضان المبارک کی آمد کے بعد اس کی نعمت اور رحمت سے محذوذ ہونے میں اور دلوں کو روزہ تراویح تلاوت ذکرِ الٰہی سے جلا بخشنے میں کوئی دقیقہ چھوٹ نہ جانے
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے اس کی تیاری کیسے کی جائے ؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب عامۃ علماء کی زبانی سنتے رہتے ہیں کہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بجا لانے کا اہتمام کیا جائے ،اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں انہیں چھوڑ دی جائے ،چوں کہ شعبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے اس لئے اس مہینے میں کثرت سے نفل روزے رکھنے کا اہتمام کیا جائے ،تلاوت قرآن کا بھی ،یہ تو کرنے کے اعمال ہیں ،اس کے علاوہ کچھ اعمال وہ ہیں جن کو چھوڑ دینا ہے ،مثلا شراب ،جھوٹ،جوا ،غیبت،بدخواہی ،چوری ،زنا ،بدعہدی ،امانت میں خیانت ،دھوکہ فریب،مال حرام ،لغو کام ،قطع رحمی،یہ منفی اعمال ہیں جو صالح معاشرے کے لئےمضر ہی نہیں بلکہ ناسور ہیں اس لئے ابھی سے ان اعمال کو چھوڑ دیں ،ان کو چھوڑ نے کی سچی توبہ کریں ،انشاء اللہ جب رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ا چھے اعمال کو بروئے کار لانے اور برے اعمال کو چھوڑ کی عادت ہو جائے گی تو ،اس کا فائیدہ یہ ہوگا کہ ماہ مبارک کی پہلی تاریخ سے ہم پر رحمت کی بارش شروع ہو جائے گی ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ( اولہ رحمۃ واسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار) یعنی ماہ مبارک پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ برکت اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے)
بلاشبہ یہ اعمال رمضان المبارک کی تیاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،لیکن زندگی کے بعض وہ گوشے ہیں جن کی طرف عوام تو عوام خواص کی توجہ نہیں ہوتی ،حالانکہ ان کی حیثیت دین میں اساس و بنیاد کی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ اخروی نجات کا مدار اسی پر ہے ،وہ گوشے کیا ہیں ؟ وہ معاملات اور معاشرت کا باب ہے
معاملات میں اچھا ہونا ،کسی سے قرض لیا تو وقت پر ادا کردینا ،کسی سے وعدہ کیا اس کو پورا کیا ،کسی کی امانت ہے تو اس کی حفاظت کی،بات کرے تو سچ بو لے ،جھو ٹ سے احتراز کرے،بیوی بچوں ،اور رشتہ دار کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ( خیرکم خیرکم لاھلہ) تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہوں ) اللّٰہ پاک ہمیں بھی ان اعمال کی توفیق دے آمین اللھم وفقنا لمایحب ویرضی