بھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حج
مستشرقین سے ہزار ہا اختلافات اور مغربی کلاسک مفکرین سے سینکڑوں مواقع پر نا موافقت کے باوجود ان کو اس بات کی داد دینا بنتی ہے، کہ ان کے توسط سے بہت سی کتابیں ہم تک پہونچی ہیں۔ گرچہ کہ یہ بھی ایک حقیقت اور تاریخی سچائی ہے کہ ایک زمانے میں مسلمانوں کے کتب خانوں اور متمدن شہروں سے بھر بھر کر کتابیں مغرب تک پہنچائی گئیں۔ شبلی نے کئی جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلاں کتاب فلاں انگریز مستشرق کے طفیل ہم تک پہونچی ہے۔ ہمارا عام علمی مذاق ایک عرصہ ہوا زنگ کھا چکا۔ اب اس میں فقط اتنی دھار ہے کہ وہ لوگوں کو چوٹ پہونچا سکتا ہے، لطافت نہیں کہ زمانے کو تدبر کی طرف متوجہ کر سکے۔ کتنی ہی ایسی کتابیں ابھی بھی یہاں وہاں کے کتب خانوں میں سڑ رہی اور دیمک کی خوراک بن رہی ہوں گی، جن کے شائع ہو جانے سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہوں۔
نواب سکندر بیگم، ہندوستان کی بیگماتی تاریخ میں سر فہرست ہیں۔ جن دو ایک بیگموں کو ہر سطح پر سراہا جاتا ہے ان میں شاید رضیہ سلطان کے بعد نواب سکندر دوسری ہیں۔ بھوپال کی شاندار تاریخ اور تابناک ماضی کی بنیاد گزار۔ ان کا حج کا سفرنامہ ایک سو پچاس سال تک دھول کھاتا رہا، کسی کو اس کی بھنک تک نہ لگی۔ انگریزی میں ترجمہ ہاتھوں ہاتھ ہو گیا، لیکن اردو میں، کہ جس زبان میں اس کو لکھا گیا اس میں غبار آلود ہوتا گیا۔ حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
زیرِ نظر کتاب "سفرنامۂ حج” نواب سکندر بیگم کے حج کے سفرنامے کی روداد ہے۔ وہ ہندوستان میں دوسری شاہی خاتون تھیں، جو حج کے پر مشقت سفر پر گئیں۔ اس سفر کی صعوبتیں اس سفرنامے میں بھری پڑی ہیں۔ زیف سید نے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کتاب کو ڈھونڈ نکالا، اس پر تقدیم و تحقیق و تحشیہ کیا اور لوگوں کے روبرو کیا۔ میں نے جس وقت یہ کتاب پاکستان میں شائع ہو رہی تھی، ایک تحریر لکھی تھی کہ یہ انڈیا والوں بالخصوص بھوپالیوں کے لیے کتنی عار کی بات ہے، ایک کتاب جو بھوپال میں لکھی گئی، بھوپال میں عرصے تک موجود رہی لیکن چھپ رہی ہے پاکستان سے۔ بھوپالیوں کو اپنے زعمِ پدرِ سلطانی سے ذرا سبک ہو کر ایک مرتبہ اپنے علمی تراث پر نظر ڈالنی چاہیے۔ بہرحال، اس تحریر سے کچھ ہوا ہو یا نہیں، لیکن اب یہ کتاب انڈیا میں شائع ہو گئی ہے۔ ملّی پبلشرز اور راشد صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے کلاسکز کی فہرست میں ایک نام اور اضافہ کر دیا ہے۔
کتاب کے محقق زیف سید نے، نواب شاہجہاں بیگم جو سکندر بیگم کی صاحبزادی اور ان کے بعد اقتدار کی ملکہ تھیں، کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب کیوں نہیں چھپوائی۔ لکھتے ہیں؛
"شاہجہاں بیگم اپنی والدہ کے ہاتھوں دو بڑی زیادتیوں کا شکار ہوئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ ان شادی ان کی مرضی کے بغیر دگنی عمر کے ایسے مرد سے کروادی گئی جو پہلے سے دو بیویوں کا خاوند تھا اور اس کی بیٹیاں حسین و جمیل شہزادی سے بڑی تھیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ داماد وفادار ہو اور بغاوت نہ کرے۔
دوسری زیادتی یہ ہوئی کہ طے پایا تھا کہ جب شاہجہاں بیگم 21 برس کی عمر کو پہنچیں تو اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر سکندر بیگم نے ایسا نہیں کیا، الٹا شاہجہاں بیگم کو مجبور کیا کہ وہ اپنے حق سے دست بردار ہو جائیں۔ چنانچہ 1860ء میں شاہجہاں بیگم نے انگریز ریزیڈنٹ کے سامنے پیش ہو کر حکومت مکمل طور پر ماں کے سپرد کر دی۔
کہیں یہ شاہجہاں بیگم کا انتقام تو نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی والدہ کی کتابیں چھپوانے کی بجائے چھپا دیں؟” ١٧
نواب سکندر بیگم پورے سفرنامے میں مکہ و مدینہ کی زبوں حالی اور بد انتظامی پر نالاں دکھائی دی ہیں۔ جگہ جگہ لکھتی ہیں کہ فلاں آدمی یہ کرتا ہے، فلاں جگہ اس نوعیت کی بے ترتیبی ہے، عمارت میں یہ کمی ہے، سلطان کی تنخواہ پر پلنے والے لوگ کوئی کام نہیں کرتے۔ ہم ذیل میں ایسے ہی چند اقتباسات نقل کرتے ہیں، جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکندر بیگم کتنی باریک بینی سے مشاہدہ کر رہی ہیں۔
١- "جب اندر شہر کے جاؤ، غلاظت اور عفونت بہت ہے اور عمارت مکان کی خراب اور بد قطع ہے۔” ٩٠ (جدہ کا حال)
٢- "یہ تو کیفیت میری دیکھی ہوئی ہے اور جو حسین خان قوال ملازم قدیم سے جو ہمارے ہمراہ حج کو گیا تھا، سنی۔ اس کی لکھوائی ہوئی کیفیت یہ ہے کہ جو ہندوستان کے آدمی جدہ میں اترتے ہیں تو وہ حسب لیاقت کسی سے ایک ریال اور کسی سے آدھ ریال لیتے ہیں اور محبت اور انس ساکنان جدہ میں نہیں بلکہ ظلم مزاج میں زیادہ اور ہندوستان کے آدمیوں پر ظلم ثواب سمجھ کر کرتے ہیں ، جیسا کہ رافضی ثواب سمجھ کر سنت جماعت پر ظلم کرتے ہیں۔ مال چھین لینا اور جان سے مار ڈالنا یہ ادنی بات جانتے ہیں۔ اور وہاں کی خرید و فروخت کا یہ حال ہے جس کسی چیز کو پسند کر لیا اور اس چیز کا حال پوچھا تو بیچنے والا اس چیز کو اس کو دے دیتا ہے اور قیمت اس کی اس سے لے لیتا ہے ہر چند کہ وہ کہے کہ میں تو دیکھتا تھا ، وہ ہر گز نہیں مانتا۔ اگر زیادہ حجت کرو تو منہ پر تھوک دیتے ہیں اور بے عزت کرتے ہیں۔” ٩١
٣- "اور قاضی مفتی وہاں کے سب رشوت کھاتے ہیں۔” ٩٢
٤- "اور پاخانہ جدہ کے ایسے ہیں کہ اگر ہفت منزلہ مکان تو ساتوں کہن کے پاخانے کی غلاظت ایک خزانہ میں جمع رہتی ہے اور پاخانے کمائے نہیں جاتے، کچھ نمک اور پانی برس دو برس میں ڈال دیتے ہیں۔” ٩٣
پوری روداد میں بیگم زیادہ تر اپنے تلخ تجربات اور ان کے برعکس یہ تأثر دیتی دکھائی دیتی ہیں کہ اس سے اچھا وہ کر سکتی ہیں۔ بیگم نے کئی جگہ بازاروں میں نرخ کی گرانی پر بے اطمینانی بھی ظاہر کی ہے۔ شریف مکہ اور اس کے ملازمین کی بد تمیزی، بدؤں کے ڈاکے اور قافلوں کے لوٹ لیے جانے کے واقعات پر سخت کبیدہ خاطر ہوئی ہیں۔ ایک جگہ لکھتی ہیں؛
"تیس لاکھ روپیہ سلطان روم حرمین شریفین کے خرچ کو دیتا ہے، نہ تو صفائی شہر کی ہوتی ہے اور نہ بند و بست عملہ حرمین شریفین کا ہوتا ہے۔ میرا داماد اور لڑکی ریاست بھوپال کا بندو بست کر لیں گے، سلطان روم یہی تیس لاکھ روپیہ مجھ کو دیویں، دیکھو میں اس تیس لاکھ روپیہ میں کیسی صفائی شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منور کی کروں اور بند و بست عملہ حرمین شریفین اور شورش بدوؤں راستہ مدینہ منورہ کا کروں کہ سلطان روم کو بھی معلوم ہو کہ پشت ہا پشت سے یہ نمک حرام روپیہ کھاتے ہیں اور کوئی شے درست نہیں کی اور اس نے چند روز میں درست کر دیا۔”
سفرنامے کی نثر کوئی ایسی نہیں ہے کہ جس کو پڑھ کر آپ حیران رہ جائیں، لیکن بیگم کا قلم اور سلطانی کی خو، جب ایک رو میں بہتے ہیں تو کیا شاہکار وجود میں آتا ہے اس کو نظارہ آپ کر سکتے ہیں۔ جس ہمارے پاس بہت سی باتیں فقط سیاحوں کی نگارشات سے پہونچی ہیں، ممکن ہے کہ اس میں بھی کوئی بات متلاشیوں کے لیے نکل آئے۔ یہ تاریخ بھی ہے اور ادب بھی۔ مذہب بھی ہے اور ریاستی خاکہ بھی۔ پڑھنے لکھنے والوں پر ضروری ہے کہ اس کتاب کو اپنی شیلف میں جگہ دیں کہ اس کا حسن بڑھ سکے۔ اس کتاب کو پاکستان میں بک کارنر اور انڈیا میں ملی پبلشرز نے چھاپا ہے۔
عبداللہ ثاقب 🖤🥀