از : عبید انور شاہ
علامہ شوق نیموی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب "آثار السنن” پر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے بیش قیمت حواشی ایک صدی سے طباعت ناآشنا چلے آ رہے تھے. ان حواشی کی اہمیت کے حوالے سے متعدد علما اپنی آراء کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے کہ اب تک ان کی طباعت نہیں ہو سکی. محقق عالم، شامی محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "الإتحاف لمذهب الأحناف: وهو حواش وتعلیقات نافعة ماتعة جامعة علقها الشیخ الکشمیري علی کتاب”آثار السنن” لعصریه المحدث المحقق النیموی رحمهما اللّٰه تعالی ، ولقد أحسن ”المجلس العلمی” صنعا بتصویر نسخة الشیخ من کتاب ”آثار السنن” المطبوعة فی مجلدین التی ملأ الشیخ بخطه الجمیل حواشیها وبیاضاتها التی بین السطور علما ثمینا وإحالات کثیرۃ غنیة بالتحقیق ، وقد سمیت هذہ التعلیقات والحواشی عند ما صورت بعد وفاته ”الإتحاف لمذہب الأحناف”. قلت: تخریج حوالاتها وتبویبها وتنسیقها دین ثقیل في عنق أصحاب الشیخ وتلامذته الأفاضل ، لا تبرأ ذمتهم إلا بإنجازہ”.
شیخ نے ان حواشی کی تخریج، تنسیق و ترتیب، تفصیل و تہذیب کے بعد اشاعت کو علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے تلامذہ کے ذمہ بھاری قرض قرار دیا ہے.
سن 2015-16 میں راقم جب دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تخصص فی الحدیث میں زیر تعلیم تھا، تو اس وقت علم میں آیا تھا کہ جامعہ علوم اسلامیہ بوری ٹاؤن کراچی میں ان حواشی پر مستقل کام چل رہا ہے. اس کام میں شریک ایک کرم فرما کی عنایت سے اس محقق کام کے ابتدائی پچیس تیس صفحات مطالعہ کا بھی موقع ملا تھا. ان صفحات میں بعض جگہ غالباً صرف اپنی کوتاہ نظری کے نتیجے میں کچھ چیزیں مزید بہتر کرنے کی گنجائش نظر آئی تھی، اور ذمہ داران تک یہ بات پہنچائی گئی تھی. پھر سال گزرتے رہے، اس کام کی تکمیل اور اشاعت کے بارے میں مسلسل معلوم کرتا رہا. الحمد للہ اب یہ کتاب دو جلدوں میں اعلی طباعت کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے. ان حواشی پر تحقیقی کام کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ہر کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا. علامہ کشمیری رحمہ اللہ اپنے بے نظیر حافظہ اور بے پناہ وسیع مطالعہ کی بنا پر ہر فن کی درجنوں کتب کے حوالے بکثرت دیتے ہیں. ان سب کی طرف رجوع کرتے ہوئے تخریج و تحقیق اور علامہ کی مراد کی تعیین و تنقیح آسان نہیں ہے. جن کتب کے حوالے ان حواشی میں بکثرت آئے ہیں، ان کے نام یہ ہیں: مؤطا مالک و مؤطا محمد، سننِ دارمی، المعجم الصغیر للطبرانی، مسند البزار، کتاب الآثار، مسند أحمد، سنن الدارقطنی، الأدب المفرد، شرح معانی الآثار، مصنف ابن أبی شیبۃ، مراسیل أبی داود، مسند أبی داود الطیالسی، السنن الکبری للبیہقی، مستدرک حاکم، مجمع الزوائد، کنز العمال، منتخب کنز العمال، نصب الرایۃ، التلخیص الحبیر، فتح الباری، عمدۃ القاری، عارضۃ الأحوذی، المنتقی شرح المؤطا للباجی، شرح الزرقانی علی المؤطا، نیل الأوطار، إرشاد الساری، مرقاۃ الصعود للسیوطی، إکمال المعلم شرح مسلم، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، لمعات التنقیح، التاریخ الصغیر للبخاری، الثقات لابن حبان، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال، لسان المیزان ، تعجیل المنفعۃ، تہذیب التہذیب، طبقات ابن سعد، طبقات الشافعیۃ، تقریب التہذیب، النہایۃ لابن اثیر، تاج العروس، المزہر، الکنی والأسماء للدولابی، اُسد الغابۃ، الإصابۃ وغيرہ. یہ قدرت کا کھلا کرشمہ اور علامہ کے فضل و کمال کی بڑی نشانی ہے کہ وہ محض اپنے حافظہ سے ان کتابوں کی عبارتوں پر عبارتیں نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور جب تحقیق کے وقت اصل مراجع سے ان کا مقارنہ کیا جاتا ہے تو الفاظ میں رد و بدل بھی شاذ و نادر پایا جاتا ہے. تخریج کے وقت بڑی مشکل یہ بھی پیش آئی ہے کہ علامہ نے مخطوطات، نایاب کتب اور غیر مطبوعہ نسخوں کے حوالے بھی دیے ہیں، جن تک رسائی ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھی. یہ سعادت جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے نصیب میں تھی کہ وہ یہ عظیم کارنامہ انجام دے اور اہل علم کے کاندھوں سے ایک صدی پرانا یہ قرض اتارے. اس کام میں کسی بھی نوعیت سے شامل و معاون رہنے والے افراد، سرپرست و نگراں حضرات کو اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ اور جزائے خیر عطا فرمائے آمین. زوالِ علم کے اس دور میں اس نوعیت کا خالص علمی کام اور اس کی اشاعت محض شوقِ علم کی دلیل نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر عشق و تڑپ اور صبر و عزیمت سے نوازے جانے کا ثبوت ہے. اللہ اس شوق میں مزید اضافہ فرمائے اور دشتِ جنوں کا یہ سفر اور خزانوں کو منظر عام پر لانے کا سبب بنے. آمین
لائقِ ذکر ہے کہ ملک کے بٹوارے کے وقت علامہ کے کئی ممتاز شاگرد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے تھے. وہاں جا کر انہوں نے مختلف اداروں کی بنیاد ڈالی، مدارس کا آغاز کیا جو آگے چل کر عظیم جامعات و دارالعلوم بنے، جہاں علامہ کا علمی نور پھیلتا چلا گیا. اس طرح علامہ کشمیری کے علوم و معارف کو نئی زندگی ملی. اس ہجرت نے سرحدوں کی ظاہری دوری تو پیدا کی لیکن علامہ کے حوالے سے دلوں میں دوری پیدا نہیں ہوئی اور مسلسل ان کا ذکرِ خیر، ان کی خدمات کا تعارف اور ان کے علوم کی اشاعت ہوتی رہی. ابھی بھی علامہ کی کئی علمی یادگاریں تحقیق و اشاعت کی منتظر ہیں. بطور خاص. (1) امالی مسلم شریف جسے علامہ کے شاگرد رشید علامہ سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے ضبط کیا ہے. ان امالی سے علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عظیم الشان شرح فتح الملہم میں استفادہ کیا ہے. (2) حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کی ضبط کردہ درسی تقریر. اس کاپی کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قاری صاحب رحمہ اللہ نے الگ الگ عنوان کے ساتھ کئی ٹیبل (جدول) بنا رکھے ہیں. اور دورانِ درس آنے والی مختلف فنون کی باتوں کو متعلقہ جدول میں بڑے سلقیہ و ترتیب سے قلم بند کیا ہے. مثلا لغت کو لغت کے خانے میں، رجال کی گفتگو رجال کے خانے میں وغیرہ. یہ کاپی عرصے سے مخمول الذکر تھی. بحمد اللہ اس کاپی کی بازیابی ہوئی اور اب یہ کاپی وقف دارالعلوم دیوبند کی لائبریری کی زینت ہے. (3) علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الاشباہ و النظائر” پر علامہ کا قلمی حاشیہ. اس حاشیہ کا ذکر علامہ سید یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر میں ہے. بقول علامہ بنوری انہوں نے کشمیر میں بذات خود یہ حاشیہ دیکھا ہے. اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے اس کی نقل حاصل کی تھی یا نہیں اور یہ حاشیہ اب محفوظ ہے یا نہیں. (4) ازالۃ الرین فی الذبِّ عن قرۃ العینین. 196 صفحات پر مشتمل یہ بڑی نفیس کتاب ہے. حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف "قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین” پر کسی شیعہ عالم کے لکھے ہوئے رد کی تردید اور شاہ ولی اللہ کہ تائید میں علامہ کشمیری نے یہ کتاب تصنیف فرمائی ہے.
آخر میں راقم اپنی جانب سے اور خانوادہ کشمیری کی جانب سے جامعہ بنوری ٹاؤن کے ذمہ داران کی خدمت میں دل کی گہرائیوں سے شکر و ممنونیت کے جذبات پیش کرتا ہے، بلا شبہ یہ کارنامہ عمومی طور پر سب اہل علم اور بطور خاص ہم لوگوں پر احسانِ عظیم ہے.