اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں
✍️ ریحان بیگ ندوی (سابق سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ)
روایتی طور پر یہ تصور کیا جاتا رہا ہے کہ اسلامی قانون کا مغربی قانون پر اثر کم رہا ہے، بالمقابل طبیعیات، الہیات اور آرٹ وغیرہ کے، لیکن یورپی قانونی تاریخ میں اسلامی قانون کے اثرات دو طریقوں سے نمایاں طور پر ظاہر ہوئے ہیں: ایک وہ علاقے جہاں اسلامی حکمرانی تھی، اور دوسرا اقتصادی قانون پر معاشی ضرورتوں کے تحت اثرات۔ اس کے علاوہ، یہ بحث بھی جاری ہے کہ آیا مغربی قانون نے اسلامی نظریات کو اپنایا تھا یا نہیں۔
بعض محققین کا ماننا ہے کہ 12/ویں صدی کے دوسرے نصف میں کامن لا common law اور اسلامی قانون میں کچھ مشابہتیں پیدا ہوئیں۔ جان مکدسی Jhon Makdisi ( پروفیسر آف لا ایمریٹس: سینٹ تھامس یونیورسٹی اسکول آف لاء) نے اپنی کتاب Islamic Property Law: Cases And Materials For Comparative Analysis With The Common Law میں واضح کیا ہے کہ انگلش کامن لا اسلامی قانون سے متاثر ہو کر تشکیل پایا ہے۔ اگرچہ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، لیکن نارمن سسلی اور انگلینڈ کے درمیان روابط اس کی وضاحت فراہم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اسلامی وقف کا اثر انگلش ٹرسٹ پر بھی دیکھا گیا ہے، جو ابتدا میں گرچہ عملی ضرورت کے تحت متعارف ہوا، مگر بعد میں اسلامی قانونِ اوقاف کے اصولوں سے متاثر ہوا۔
اس کے علاوہ فقہائے اسلام نے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات، جنگ و امن کے اصول، اور اہلِ ذمہ و غیر ملکیوں کے معاملات پر گہری تحقیق کی ہے۔ اس موضوع پر نمایاں کتب میں سیر الاوزاعی (157 ہجری)، کتاب الجہاد از عبداللہ بن مبارک (187 ہجری)، السیر الکبیر اور السیر الصغیر از امام محمد بن حسن الشیبانی (189 ہجری)، سیر الواقدی (207 ہجری)، اور رسالہ الجہاد از ابن تیمیہ (661 ہجری) شامل ہیں۔
یہ کتب اور دیگر کتبِ سیر و جہاد اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اسلامی فقہ نے بین الاقوامی قانون کو ایک مستقل اور منظم شعبے کے طور پر پیش کیا ہے، جو ڈچ ماہرِ قانون گروسئیس کے کام سے آٹھ صدیوں پہلے وجود میں آیا۔ یاد رہے کہ Grotius گروسئیس (1583-1645) کو مغربی دنیا میں "بابائے بین الاقوامی قانون” father of international law کہا جاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے جو جامع اصول و ضوابط فراہم کیے ہیں، وہ جدید بین الاقوامی قانون سے تقریباً چودہ صدیوں پہلے انسانی تعلقات کو منظم کرنے کا مکمل نظام فراہم کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بعض مغربی علماء، جیسے آسٹریائی مستشرق مؤرخ بورغشتال (Purgstall) (1856-1774)، امام حسن شیبانی کو "مسلمانوں کے گروسئیس” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
یہ مختصر تفصیل اسلامی قانون کے بین الاقوامی قانون اور مغربی قانون پر اثرات کو واضح کرتی ہے۔ یہ موضوع مزید تحقیقی مطالعے کا متقاضی ہے تاکہ اسلامی قانون کے اثرات کو مزید بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
اسلامی قانون: مغربی مصنفین کے اقوال کی روشنی میں
اب ہم ذیل میں مغربی مفکرین اور ماہرینِ قانون کے چند اقوال پیش کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کی عظمت اور موجودہ دور میں اس کی لازمی ضرورت کو واضح کرتی ہیں۔ ان اقوال کا مقصد شریعت کو مغربی پیمانوں پر جانچنا نہیں ہے، کیونکہ شریعت ان پیمانوں سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ان کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ شریعت ایک مکمل اور لچکدار نظام ہے جو انسانی زندگی کے مسائل کا ایسا حل فراہم کرتا ہے، جو دیگر قانونی نظاموں کے لیے ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت کی خوبیوں اور اعجاز کو مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔ تاہم، ان اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شریعت کی افادیت اور برتری کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جن کا قانونی اور سماجی نظام شریعت سے مختلف ہیں۔
مغربی فلاسفہ اور ماہرینِ قانون نے اپنی تصانیف اور تحقیقات میں بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلامی شریعت ایک منفرد اور آزاد قانونی نظام ہے، جو دنیا کو موجودہ قوانین کی ناانصافیوں اور خرابیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔
معروف انگلش قانون دان نوئل جے کولسن (1928-1986)، جو لندن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھے، شریعت کی بنیادی امتیازی خصوصیات کو یوں بیان کرتے ہیں:
"شریعت ایک ترقی یافتہ قانونی نظام ہے جو عقلِ انسانی کے قوانین کے مقابلے میں دو اہم خصوصیات رکھتا ہے:
1- یہ ایک ثابت اور غیر متبدل نظام ہے جس کے اصول مستقل ہیں، اور کسی بھی قانونی اتھارٹی کو ان میں تبدیلی کا اختیار نہیں۔
2- یہ تمام مسلم اقوام کے لیے یکساں قانون فراہم کرتا ہے، جبکہ عقلِ انسانی سے اخذ کردہ قوانین مقامی حالات اور شخصیات کے اثرات ومفادات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔”
سری لنکا کے ماہر قانون کرسٹوفر ویرامنٹری (1926-2017)، عالمی عدالتِ انصاف international court of justice کے سابق نائب صدر اور موناش یونیورسٹی کے پروفیسر، اپنی کتاب Islamic Jurisprudence: Some International Perspectives میں لکھتے ہیں: "اسلامی قانون دنیا کے سب سے مؤثر اور ترقی یافتہ قانونی نظاموں میں سے ایک ہے، لیکن مغربی دنیا میں اس کا علم بہت محدود ہے۔”
ویرامنٹری نے اپنی کتاب میں یہ بھی واضح کیا کہ مغربی دنیا کے معروف فلسفی اور ماہرینِ قانون جیسے ایڈیلارڈ آف باث، برٹرینڈ رسل، ہابز، پوکاک، جان لاک، ژاں ژاک روسو، مونٹیسکیو، اور ڈیویڈ ڈی سانتیلانا اسلامی قانون کے فلسفے سے متاثر ہوئے ہیں۔ وہ اس پر زور دیتے ہیں: "یہ سراسر ناانصافی ہوگی کہ یورپی فلسفے کے عظیم ورثے کو اس کے ارد گرد کے اثرات سے الگ کر دیا جائے، خاص طور پر جب اسلامی تہذیب کا ایک ترقی یافتہ ورثہ موجود تھا جو دنیا کی سب سے عظیم اور متاثر کن ثقافتوں میں سے ایک تھا۔”
ویرامنٹری اسلامی قانون کی جامعیت اور انسانی اہمیت کے پہلو کو یوں بیان کرتے ہیں:
"اسلامی قانون پیدائش سے موت تک انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا پیمانہ مکمل عدل ہے، اور یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو خدائی قانون کے تحت منظم کرتا ہے۔ یہ لاکھوں انسانوں کے لیے صدیوں تک ایک اعلیٰ اخلاقی اور عملی نظام فراہم کرتا رہا ہے۔
اسلامی قانون عالمی قانون سازی کے ورثے کا ایک ناگزیر حصہ ہے، اور کوئی بھی ماہر قانون یا سیاستدان اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ دنیا کو سمجھنے اور مسائل کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اسلامی قانون کی بنیادی معلومات ناگزیر ہیں۔”
انریکو انساباتو (Enrico Ansabato)، اطالوی مصنف، اپنی کتاب "الاسلام و سیاست الخلفاء” میں اسلامی شریعت کی غیر معمولی لچک اور ہمہ گیریت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اسلام ایک ابدی اور ثابت قدم نظام ہے جو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اپنی لچک اور حیات کو ہر دور میں برقرار رکھتا آیا ہے اور دنیا کو وہ شریعت عطا کی ہے جو کئی پہلوؤں میں یورپی قوانین سے زیادہ مضبوط اور برتر ہے۔ اس شریعت کو کمزور کرنے یا نظر انداز کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔”
پیولا کازیلی (Piola Caselli)، معروف اطالوی قانون دان اور شاہی مشیر، نے مصری قانون دانوں کو نصیحت کی کہ:
"اسلامی شریعت مصر کے قانونی مزاج اور سماجی ضروریات سے سب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس پر ملک کا قانون مبنی ہونا چاہیے۔”
روم لاندو (Romauld Landau)، مشرقی علوم کے ممتاز ماہر، اسلامی شریعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"اسلامی قانون کی بنیاد الہامی وحی پر رکھی گئی ہے، جو اسے تمام انسانی قوانین سے ممتاز بناتی ہے۔ اس شریعت کے قوانین معصوم اور خطا سے پاک ہیں، اور مسلمانوں کے لیے ان پر عمل کرنا نہ صرف سماجی ذمہ داری ہے بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔ یہ شریعت کسی انسانی منظوری کی محتاج نہیں بلکہ براہِ راست خدا کی طرف سے نازل کردہ ہدایت ہے۔”
رابرٹ ڈی کرین (Robert D. Crane)، ممتاز امریکی قانون دان اور سیاست دان، اپنی کتاب "اسلامک جسٹس” میں لکھتے ہیں:
"اسلامی شریعت دنیا کا واحد نظام ہے جو حقیقی عدل اور انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ مغربی نظام محض نعروں اور تضادات پر مبنی ہے، جہاں عدل اور حقوق صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی شریعت عدل کو الہامی اصولوں کے تحت یکساں طور پر سب کے لیے یقینی بناتی ہے۔”
الفریڈ فون کریمر (Alfred von Kremer)، آسٹریا کے معروف مستشرق، اسلامی فقہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اسلامی فقہ دنیا کے عظیم ترین قانونی کارناموں میں شامل ہے، جو اپنی منطقی ترتیب اور الہامی حکمت کی بنا پر رومی قوانین اور حمورابی کے قوانین سے کہیں برتر ہے۔ اس کے اصول جامد نہیں بلکہ عمومی رہنما خطوط پر مشتمل ہیں، جو اسے ہر زمانے اور معاشرے کے لیے قابلِ عمل بناتے ہیں۔”
اس موضوع کی اہم کتابیں
یقینا یہ ایک اہم موضوع ہے اور اس پر مذکورہ اقوال کے علاوہ متعدد اہم کتب بھی موجود ہیں جو اس اثر و رسوخ کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہیں۔ ذیل میں چند نمایاں کتب پیش کی جا رہی ہیں:
1- التشريع الإسلامي وأثره في الفقه الغربي
مصنف: محمد یوسف موسى، یہ کتاب 1960 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسلامی فقہ کے مغربی قانون پر اثرات کا تجزیہ پیش کرتی ہے، خاص طور پر دونوں نظاموں کے مابین مشابہتوں اور اختلافات پر روشنی ڈالتی ہے۔
2- العلاقات الدولية في الإسلام
مصنف: محمد حمید اللہ، 1976 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں اسلامی تعلقات بین الاقوامی کے اصولوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے موجودہ بین الاقوامی قانون پر اثرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
3- الفقه الإسلامي وأدلته
مصنف: وهبة الزحيلي، 1985 میں شائع ہونے والی یہ کتاب اسلامی فقہ کے مصادر اور دلائل پر تفصیلی بحث کرتی ہے، اور موجودہ قانون کے ساتھ اس کے تعلقات کا جائزہ پیش کرتی ہے۔
4- دراسات في الفقه الإسلامي المعاصر
مصنف: حیدر حب الله (شائع شدہ 2005) اس کتاب میں معاصر فقہی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے، اور اسلامی فقہ کے موجودہ قانونی نظاموں پر اثرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
5- القانون الدولي الخاص في الإسلام
مصنف: أحمد محمود الفضلي، یہ کتاب 2009 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسلامی بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا جائزہ پیش کرتی ہے اور ان کے موجودہ بین الاقوامی قانون پر اثرات کا تجزیہ کرتی ہے۔
6- International Law and Islamic law
مصنف: مشوود اے. بادرین
یہ کتاب اسلامی قانون اور جدید بین الاقوامی قانون کے تعلقات کا تجزیہ کرتی ہے، خاص طور پر عالمی چیلنجز اور ان کے تناظر میں اسلامی اصولوں کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔
7- Islam and International Law
مصنف: مارک ڈبلیو. جانِس
اس کتاب میں اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تعلقات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے، اور یہ وضاحت کرتی ہے کہ اسلامی اصول عالمی قانونی فریم ورک کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔
8- Islamic Law and International Law: peaceful resolution of dispute
مصنف: ایملیا جسٹینا پاوول
یہ کتاب اسلامی قانون اور بین الاقوامی قانون کے مابین تعلقات کا تجزیہ کرتی ہے، اور اسلامی اصولوں کے بین الاقوامی تعلقات اور ریاستوں کے رویوں پر اثرات پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ کتاب بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے نقطۂ نظر سے اسلامی قانونی روایات کو بیان کرتی ہے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس کا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، اس کی تفصیل پیش کرتی ہے۔
9- Islamic Property Law: Cases and Materials for Comparative Analysis with the Common Law
مصنف: جان مکدسی
یہ کتاب اسلامی املاک کے قانون اور کامن لا کے موازنہ پر مبنی ہے، جس میں دونوں قانونی نظاموں میں املاک کے قوانین کے عملی اطلاق کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
10- Islamic Jurisprudence: Some International Perspectives
مصنف: کرسٹوفر جی. ویرامنٹری
اس کتاب میں اسلامی فقہ کے بین الاقوامی پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ہے، اور یہ مغربی قانونی تناظر میں اسلامی اصولوں کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
اختتامیہ
یقیناً اسلامی قانون ایک جامع اور مکمل نظام ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لیے بلند معیار فراہم کرتا ہے۔ اسلامی فقہ نے بین الاقوامی قانون (International Law) اور انسانی حقوق (Human Rights) کے حوالے سے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ موجودہ چیلنجز کے لیے بھی مؤثر حل پیش کرتے ہیں۔ جنگی جرائم (War Crimes), انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں (Human Rights Violations) اور کمزور ریاستوں کا استحصال (Exploitation of Weaker States) اسلامی قانون کے ذریعے مؤثر طور پر حل ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ” (الحجرات: 13)
یہ آیت انسانی مساوات (Equality) اور عدل (Justice) کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی قانون عالمی تعلقات (Global Relations) اور امن (Peace) کے حوالے سے واضح اصول فراہم کرتا ہے، جو ہر فرد اور قوم کے حقوق کی مکمل حفاظت کرتے ہیں۔ "لَا تَرْكَبُوا فِي الْأَرْضِ فَسَادًا” (البقرہ: 11) فساد (Corruption) و ظلم (Injustice) کی روک تھام پر زور دیتا ہے، جس سے عالمی سطح پر امن (Peace) قائم ہو سکتا ہے۔
یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ اسلامی قانون نہ صرف ثابت (Fixed) اور غیر متبدل (Immutable) اصولوں پر مبنی ہے۔ بلکہ یہ دنیا کے مختلف سماجی اور اقتصادی حالات کے مطابق لچکدار (Flexible) بھی ہے۔ اس کے برعکس، مغربی قوانین اکثر مقامی مفادات (Local Interests) اور اجتماعی ترجیحات (Social Preferences) کے تابع ہوتے ہیں، جو اسے عموماً عادلانہ (Fair) اور یکساں (Equal) نہیں بنا پاتے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اسلامی شریعت کو اس کی حقیقت اور افادیت کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ایک روحانی (Spiritual) بلکہ ایک عملی (Practical) نظام ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متوازن طریقے سے منظم کرتا ہے۔ جو لوگ اسلامی قانون کو قدیم اور غیر موثر سمجھتے ہیں، انہیں اس نظام کی تاریخی اہمیت (Historical Significance) اور موجودہ دور میں اس کے ممکنہ فوائد (Potential Benefits) کا مکمل جائزہ لینا چاہیے۔ اس لیے ہمیں اسلامی قانون کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے، اسے ایک جدید اور متوازن معاشرتی نظام (Social System) کے طور پر اپنانا چاہیے تاکہ ہم ایک منصفانہ اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔