*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔
* ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن ہو، اہل و عیال ہوں، سب کو چھوڑ دینا” (مسئلہ خلافت: ۴۷)، یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ خالی نہیں، کوئی لمحہ اس سے مبرا نہیں، انسانی حیات کا کوئی بھی مقام ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس کے تمام مطالبات اور مرضیات کا دائرہ ہجرت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، دنیا کی عظیم ترقیاں، حیرت انگیز انکشافات، انقلاب انگیز ایجادات، دولت کی فراوانی، تجارت کی عالمگیری، نئی نئی آبادیوں کا قیام اور ان سب کا علمی و تمدنی تعلق یہ سب کے سب ہجرت ہی کی دین ہیں، اسی کے عمل حق سے ان سب کا وجود ہے۔
*ذرا سوچئے! کولمبس اگر ہجرت نہ کرتا تو دنیا کا نصف تمدن اوجھل رہتا، یوروپ اگر ہجرت نہ کرتا تو آج نیویارک اور واشنگٹن کی سر بفلک عمارتوں کا وجود نہ ہوتا، اگر یوروپ کی قومیں اپنے ملکوں سے ہجرت نہ کرتیں تو آج تمام دنیا کی دولت ان کے گھروں میں کھنچ کر نہیں جاتی، اور ایشائی ممالک پر ان کا تسلط (حقیقی یا فکری) کبھی بھی قائم نہ ہوتا، وہ دنیا کی سربراہی کا مقام قطعا نہ پاتے، لیکن عجیب بات یہ ہے؛ کہ جب اسی چیز کو اللہ تعالی کی شریعت ایک جامع تر لفظ "ہجرت” سے تعبیر کرے، تو اس کا انکار کیا جاتا ہے، ہر کوئی اسے قبول کرنے کو تیار ہے؛ کہ تمدن کی خاطر دریائے نیل کا مخرج دریافت کرنے کیلئے سینکڑوں انسان اپنا گھر بار چھوڑ دیں، اور ہلاک و برباد ہوجائیں؛ لیکن یہ وحشت ہے کہ قیام حق اور اشاعت صداقت کی راہ میں اللہ کے بندے ترک وطن کریں؟ اگر نیوٹن اپنی نیند و راحت اور راتوں کا سکون برباد کر کے کشش ثقل کا قانون دریافت کر لے؛ تو یہ علم پرستی سمجھی جاتی یے، اور اگر کوئی عزم و طلب کے ایسے ہی پرستار کو دیکھے جو کشش ثقل کے بجائے قانون نجات عالم کیلئے عازم صادق ہو، اور وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہو، تو اسے حق پرستی کیوں نہیں کہتے؟ کیوں ایسوں کو فرسودہ خیال کا طعنہ دیا جاتا ہے؟ ان پر دقیانوسیت کے تیر برسائے جاتے ہیں؟*