مولانا نذیر احمد ندوی — ندوہ کا خاموش چراغ
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے علمی آسمان پر ایک اور چراغ بجھ گیا۔
عالیہ درجات کے موقر استاذ، ادیب و صحافی، عربی جریدہ الرائد کے ممتاز کالم نگار و مترجم،
مولانا نذیر احمد ندویؒ کا اچانک ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال ہوگیا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون۔
مولانا مرحوم اُن اساتذہ میں سے تھے جن کی شخصیت درس و تدریس کے دائرے سے کہیں آگے تک پھیلی ہوئی تھی۔
وہ علم کے ساتھ وقار، اور وقار کے ساتھ خاموشی کے پیکر تھے۔
ان کی محفل میں بیٹھنے والا طالب علم صرف نحو و بلاغت نہیں سیکھتا تھا،
بلکہ سوچنے، لکھنے کا ہنر بھی حاصل کرتا تھا۔
اردو، فارسی، عربی اور انگریزی—چاروں زبانوں پر ان کی گہری دسترس تھی۔
ان کی گفتگو میں نفاست، تحریر میں لطافت اور اسلوب میں توازن جھلکتا تھا۔
شاگردوں کے نزدیک وہ ایک ایسے مربی تھے جو علم نہیں، ذوقِ علم منتقل کرتے تھے۔
اسی لیے ان کی کلاس محض درس نہیں، تہذیبِ فکر کا اجتماع محسوس ہوتی تھی۔
ان سے ایک گھنٹے کی گفتگو کئی کتابوں کے مطالعے کے برابر تھی۔”
ان کی شخصیت میں عجب توازن تھا—
نہ نمود، نہ دعویٰ؛
نہ شور، نہ شہرت؛
بس علم کی روشنی بانٹنے کا اطمینان۔
ان کے طرزِ تدریس میں روایت کی پاسداری بھی تھی اور جدید فہم کی کشادگی بھی۔
وہ ندوہ کے اس علمی ورثے کی روشن قندیل تھے جو الفکر مع الأدب کے فلسفے پر قائم ہے۔
مولانا نذیر احمد ندویؒ کے جانے سے ندوہ نے ایک خاموش مگر گہرا نقصان اٹھایا ہے۔
ایسے اساتذہ کم ہوتے ہیں جو لفظوں سے زیادہ اپنے سکوت سے اثر ڈالیں۔
ان کا نام ندوہ کی علمی تاریخ میں پروقار اسلوب اور فکری سنجیدگی کے نمائندے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے،
ان کے درجات بلند کرے،
اور ان کے علم و کردار کو ندوہ کے طلبہ و اساتذہ کے لیے روشنی کا مینار بنائے۔
انتقال ایک نیک والدہ باکمال خواتین تربیت کے ضروری اصول موت موت ایک حقیقت ہے میری امی والدہ کی خصوصیت والدہ کی فضیلت و اہمیت پس مرگ زندگی یادوں کی قندیل یکساں سول کوڈ اور ان کے نقصانات