دو سال قبل میں نے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمه الله کی کتاب "ایک ہندوستانی صحابی” مطالعہ کی تھی، اس کے پڑھتے ہی وحشت محسوس ہوئی تھی، یہ کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ گیلانی صاحب خود کتاب سے اور اپنی تاریخی تحقیق سے مطمئن نہیں ہیں، اور جا بجا وہ تضاد کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔
کتاب کیا پڑھی بات اَن ہونی ہو گئی کہ ایسی پس خوردہ کہانی کا کیا تذکرہ کرنا، لیکن کل ہمارے فیس بک رفیق محمد قریشی نے اس کتاب کا ذکر دوبارہ چھیڑ دیا۔
وہ ہندوستانی صحابی جس پر گیلانی صاحب نے تحقیق کی ہے وہ "بابا رتن ہندی” نامی شخص ہے، جو رسول الله صلی الله علیه وسلم کی وفات کے ۷۰۰ سال بعد شرفِ صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اور ان سے پہلے امام شمس الدین ذہبی نے اس کا خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے، اور اس سے مروی احادیث کو بھی نقل کرکے تبصرہ فرمایا ہے۔
امام ذہبی اور حافظ ابن حجر دونوں اس کے کذاب، جھوٹا، دجال اور مفتری ہونا بیان کرتے ہیں، خصوصاً امام ذہبی کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی ہے، اور تیز و تند الفاظ میں کذاب و دجال تک لکھا ہے، جو بجا بھی ہے، اس جھوٹے بڈھے کے متعلق امام ذہبی نے دو باتیں لکھی ہیں؛
رتن الهندي. وما أدراك ما رتن! شيخ دجال بلا ريب، ظهر بعد الست مائة فادعى الصحبة، والصحابة لا يكذبون. وهذا جرئ على الله ورسوله.
"رتن ہندی… اور تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ رتن کیا ہے! وہ بلاشبہ ایک دجال شیخ تھا، جو چھٹی صدی ہجری کے بعد ظاہر ہوا اور صحابیت کا دعویٰ کیا، حالانکہ صحابہ جھوٹ نہیں بولتے، اور یہ (دعویٰ) الله اور اس کے رسول پر بڑی جرأت ہے”
رتن الْهِنْدِيّ أَظُنهُ لَا وجود لَهُ بل هُوَ اسْم مَوْضُوع لأخبار مكذوبة أَو هُوَ شَيْطَان تبدى لَهُم فِي صُورَة إنسي زعم فِي حُدُود سنة سِتّمائَة أَنه صحب النَّبِي ﷺ فافتضح بِتِلْكَ الْأَحَادِيث الْمَوْضُوعَة وَبِكُل حَال إِبْلِيس أسن مِنْهُ.
رتن الہندی… میرا گمان ہے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک گھڑا ہوا نام ہے جھوٹی روایات کے لیے، یا پھر وہ کوئی شیطان تھا جو لوگوں کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوا، اور اس نے چھٹی صدی ہجری کے آس پاس یہ دعویٰ کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کا صحابی ہے۔ مگر وہ ان موضوع (من گھڑت) احادیث کے ذریعے رسوا ہوا، بہرحال، ابلیس بھی اس سے زیادہ عمر والا (پرانا) ہے۔
ویسے یہاں بابا رتن ہندی کی کیا کہانی ہے وہ بیان کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس کے کذاب، جھوٹا اور دجال ہونے کے دلائل کا ذکر کرنا ہے ؛
﴿۱﴾اس کے والد کے نام، وطن، زمانۂ وفات اور عمر ہر چیز میں مختلف اور متضاد باتیں ہیں، والد کے نام میں عبد الله اور نَصر کا ذکر ملتا ہے، لیکن یہ دونوں نام ہرگز نہیں ہوسکتے، کیونکہ بابا رتن نے ہی پہلا اسلام قبول کیا ہوگا چہ جائیکہ اس کے والد کا نام مسلمانوں والا ہوتا۔
﴿۲﴾ عمر کے سلسلے میں مشہور بات یہ ہے کہ ۷۰۰ سال تھی، اس حساب سے ہجرت کے وقت رتن کی عمر ۶۸ سال ہونی چاہئے، لیکن الإصابه میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود بیان کرتا ہے کہ : "میں غزوۂ خندق کے موقع پر ۱۴ سال کا تھا”۔
نیز اس کے بیٹے محمود رتن نے بھی بیان کیا ہے کہ میرے والد غزوہ خندق میں ۱۶ سال کے تھے، تضاد نہیں تو اور کیا ہے ؟
﴿۳﴾ محمد بن علی خراسانی نے جب اس کی ملاقات کی تو بابا رتن نے یہ قصہ بتایا کہ؛ "میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کو جس وقت آپ مکہ میں اونٹ چرا رہے تھے دیکھا، اور اتفاقاً تیز بارش کی وجہ سے نالے بھر گئے، اونٹ تو پانی کے اندر سے گزر گئے، لیکن محمد کم عمری کے باعث نہیں گزر سکے تو میں نے گود میں اٹھایا تھا”
ملاحظہ ہوں؛ ایک طرف وہ غزوہ خندق میں ۱۴ یا ۱۶ سال کا ہے، اور دوسری طرف رسول الله کو گود میں اٹھا رہا ہے، رسول الله کے اونٹ چرانے کے ایام میں تو پیدا بھی نہیں ہوا ہوگا۔
﴿۴﴾ علی بن محمد نے اس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ لاولد تھا، جبکہ دوسرے زائر حسین بن علی نے نقل کیا ہے کہ بھٹنڈہ کی پوری آبادی اس کی اولاد ہیں۔
﴿۵﴾ حافظ ذہبی نے اس کی ذکر کردہ عمر کے امکان سے ہی انکار کیا ہے، اور یہ بات درست بھی ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ رسول الله کی وفات کے ۷۰۰ سال بعد شرفِ صحابیت کا مدعی صحابی بن جائے ؟ جبکہ رسول الله کا ارشاد ہے کہ ؛ "میں تمھیں بتا دوں کہ سو سال کے آخر میں روئے زمین پر ان لوگوں میں سے کوئی نہیں رہے گا جو آج موجود ہے”
تمام محدثین نے باتفاقِ رائے پہلی صدی تک عہدِ صحابہ قرار دیا ہے، اور سب سے آخری وفات پانے والے صحابی سیدنا ابو طفیل عامر بن واصلہ رضی الله عنہ کو قرار دیا ہے۔
﴿۶﴾ بابا رتن ہندی کا ذکر سیدھا ساتویں صدی میں ملتا ہے، اس سے پہلے ہندوستانی تاریخ اور اسلامی تاریخ پر مشتمل کتب بالکل خاموش ہیں، اسلام پہلی صدی ہی کے اواخر میں ہندوستان پہنچ چکا تھا، لیکن یہ بڈھا معلوم نہیں کہاں غائب تھا جو اچانک ساتویں صدی میں نمودار ہوا ؟
﴿۷﴾ رتن کے دعویٰ کے مطابق وہ غزوہ خندق میں شریک ہوا تھا، اور رسول الله اپنے گھر سے کھانا کھلایا کرتے تھے، سوال یہ کہ غزوہ خندق کا عرصہ ہی ایک مہینہ سے زائد بنتا ہے، کیا اس دوران کسی صحابی نے اسے نہیں دیکھا؟ کیا اس نے کسی سے کچھ بات چیت نہیں کی؟ لیکن اس کا کوئی تذکرہ تاریخ میں نہیں ملتا۔
اب یہاں بھی تضاد یہ ہوا کہ وہ غزوہ خندق میں شریک ہوا تھا، جبکہ اس کے خود کا بیان ہے کہ وہ صرف بارہ دن مدینہ منورہ میں صحبتِ نبوی سے مستفید ہوا ہے۔
﴿۸﴾ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کی یہ تاویل کی کہ وہ گمنام تھا، شہرت سے بھاگتا تھا، تو لیجئے! صوفی شیخ علاء الدین سمنانی کی روایت کے مطابق رتن کے صندوق سے ۱۱۴ خرقے ملے تھے، سوال یہ ہے کہ جو شخص ۱۱۴ لوگوں سے مل چکا ہو، اور وہ صحابی رسول ہونے کا بھی مدعی ہو، کیسے گمنام رہ سکتا ہے ؟
﴿۹﴾ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کہانی کے صحیح ہونے کی ایک دلیل تو یہ دی ہے کہ شیخ علاء الدین سمنانی صاحبِ کشف بزرگ تھے، اور ان کے کُشوف درست ہوتے تھے، لہذا بابا رتن کی حیات پر مشتمل ان کی روایات کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، افسوس! مولانا نے کشف کو تاریخی روایات پرکھنے کا معیار سمجھ لیا، دوسری طرف حدیثِ رسول ہے اور یہاں کشف۔
﴿۱۰﴾ رتن کی ذکر کردہ احادیث حافظ ذہبی نے نقل فرمائی ہیں، اور اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے، اس میں صوفیت اور شیعیت کے جراثیم نمایاں نظر آتے ہیں، میرے خیال میں یہ بڈھا صوفی شیعی فکر کا پروردہ تھا، معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی اگر ان باتوں کو پڑھے گا تو اس کے رسول الله کی طرف انتساب پر کانپ اٹھے گا ؛
” جو شخص میرے بچے حسین کے غم میں اس کی شہادت کے دن روئے گا، وہ قیامت کے دن اولو العزم پیغمبروں کے ساتھ ہوگا "
” حضرت فاطمہ کی شادی کے دن ہم صحابہ بیٹھے ہوئے تھے…چونکہ خوشی کا دن تھا اور ہم مسرور تھے، چنانچہ ہم گانا گانے لگے حتی کہ ہم لوگ ناچنے لگے….حضور نے صبح یہ واقعہ سن کر کسی قسم کا انکار نہ کیا….”
” باطن کے اعمال ذرہ کے برابر بھی، ظاہری اعمال کے بڑے بڑے پہاڑوں سے بہتر ہے "
” جو شخص رسول الله کی اولاد کا بغض لے کر مرا وہ کافر مرا "
اس گھٹیا بات کو حدیث کہنا بھی لفظِ حدیث کی توہین ہے ؛
” جو شخص رات کو سوتے ہوئے اپنی بیوی کو کنگھی کرکے مجھ پر درود بھیجے گا، اس کی آنکھیں کبھی دیکھنے نہ آئے گی "
مولانا مناظر احسن گیلانی نے امامِ فن حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر کے بجائے صفوی کی توثیق کو ترجیح دی ہے، حد ہوگئی کہ امام ذہبی و ابن حجر جیسے عبقری و ألمعی کے سامنے صفوی کا کیا مقام ؟
مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب پڑھ کر دو طرح کے احساس ابھرتے ہیں، شاید مولانا خود اس کہانی سے مطمئن نہیں ہے، یا نادر تحقیق اور تاریخی شخصیت کی دریافت کو ہندوستان کے لئے سرمایہ افتخار بھی سمجھ رہے ہیں۔
مولانا عامر عثمانی نے ماہنامہ تجلی میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت زبردست بات لکھی ہے ؛
” ہمارا خیال یہ ہے کہ جس طرح آثارِ قدیمہ کی کھدائی ایک مشغلہ ہے، اسی طرح تاریخ کی بے شمار لایعنی کہانیوں اور روایات کی لاتعداد بوقلمونیوں کا مطالعہ بھی ایک مشغلہ ہے، جس پر حرف زنی کی ضرورت نہیں، لیکن اگر یہ مشغلہ اپنے اثرات کو ان حدود تک پہنچا دے جہاں عقائد کے پھول کِھلتے ہیں تو یہ افسوسناک حادثہ ہوگی "﴿ماہنامہ تجلی، جنوری،۱۹۶۸﴾
✍️معاویہ محب الله