Skip to content HIRA ONLINE / حرا آن لائن
08.11.2025
Trending News: تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندویبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانیخلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائقسادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہحلال ذبیحہ کا مسئلہاستاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میںکتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھومفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلیہیرا جو نایاب تھاکتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور عصری آگہی از : مولانا آدم علی ندویمطالعہ کا جنوں🔰دھرم پریورتن، سچائی اور پروپیگنڈهربوبیت الہی کی جلوہ گری از :مولانا آدم علی ندویدیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویبہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربےسورہ زمر : الوہیت کا عظیم مظہربھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حجالإتحاف لمذهب الأحناف کی اشاعت: علما و طلبا، شائقینِ علم، محققین اور محبانِ انور کے لیے ایک مژدہ جاں فزااسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میںحنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھناغیر مسلموں کے برتنوں کا حکم*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_**_عورت و مرد کی برابری کا مسئلہ_*بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین ازدواجی رشتےتم رہو زندہ جاوداں ، آمیں از : ڈاکٹر محمد اعظم ندویاستاذ محترم مولانا نذیر احمد ندویؒ کی وفاتنہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگزڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کی کتاب تاریخ ندوہ العلماء پر ایک طائرانہ نظر!نقی احمد ندویمولانا نذیر احمد ندویاستاد اور مربی کی ذمہ داریانس جمال محمود الشریفتحریری صلاحیت کیسے بہتر بنائیں؟نام کتاب:احادیث رسولﷺ :عصرحاضر کے پس منظر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبتاسلام میں شادی کا طریقہ – مکمل رہنمائیبیوی پر شوہر کے حقوقجدید مسئل میں فتاوی نویسی کا منہج : ایک تعارفنکاح کی حکمت اور اس کے فوائد*_ساتویں مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے سمینار میں_* (١)ندوہ العلماء لکھنؤ میں ساتواں فقہی سیمینار | مجلس تحقیقات شرعیہخیانت کی 8صورتیںکیا موبائل میں بلا وضو قرآن پڑھنا جائز ہے؟اور پِھر ایک دن از نصیرالدین شاہ – نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میںبارات اور نکاح سے پہلے دولہا کا مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہےخطبات سیرت – ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کی سیرت نگاری کا تجزیاتی مطالعہاجتماعی فکر : ترقی کی ضمانتتبليغى جماعت كى قدر كريںماڈرن ’دین ابراہیمی‘ دین الہی کا نیا ایڈیشن"ایک فکشن نگار کا سفر”: ایک مطالعہ ایک تاثریہود تاریخ کی ملعون قومخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں#گاندھی_میدان_پٹنہ_سے_ہندوتوادی_ظلم_کےخلاف باوقار صدائے احتجاج میں ہم سب کے لیے سبق ہے !بابا رتن ہندی کا جھوٹا افسانہتربیت خاک کو کندن اور سنگ کو نگینہ بنا دیتی ہےدار العلوم ماٹلی والا کی لائبریری🔰دینی مدارس کی حفاظت كیوں ضروری هے؟اردو ادب اور فارغین مدارسایک مفروضہ کا مدلل جوابوحدت دین نہ کہ وحدتِ ادیانقربانی، ماحول اور مسلمان: عبادت سے ذمہ داری تک مولانا مفتی محمد اعظم ندویکبیر داس برہمنواد کا باغی اور محبت کا داعیقربانی: مادی فوائد اور سماجی اثراتعشرۂ ذی الحجہ: بندگی کی جولاں گاہ اور تسلیم ورضا کا موسمِ بہارامارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی امارت اور قیادت میں شرعی زندگی گذارنے کا عہد پیمان کیا.امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگالکا قضیہ حقائق کی روشنی میںمیرا مطالعہیہود سے معاہدہ اور نقضِ عہد کی یہودی فطرت وتاریخقلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں🔰بچوں كی دینی تعلیم كا سنہرا موقعدين سمجهنے اور سمجهانے كا صحيح منہجازمدارس اسلامیہ ماضی۔، حال اور مستقبل !خود شناسی-اہمیت اور تقاضےکتاب : یاد رفتگاں"عید مبارک”خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ندنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلامخوشگوار ازدواجی زندگی کے تقاضےوقت کا کچھ احترام کریںاعتکاف مسائل و آدابمدارس اسلامیہ : ضرورت اور تقاضےرمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمالروزے کے فوائدشرائط زکوٰۃقرآن مجید سے تزکیۂ نفسروزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !🔰سیاسی فائدہ کے لئے جھوٹ اور پروپیگنڈانا  فكر اسلامى كا مطالعه كس طرح كريں؟اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نوازکیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی (مصنف و کالم نگار)شعبان المعظم میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟كيا تشبيه/تمثيل دليل ہے؟صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور(جامعۃ العلوم، گجرات کی ایک وجد آفریں محفل قراءت-روداد اور مبارک باد)*اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اعزازات: 25-2024 کا کامیاب انعقاد**ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم* *(مرحوم تابش مہدی کے بارے میں کچھ یادیں)*محسوس ہورہا ہے جوارِ خدا میں ہوں۔۔۔ڈاکٹر تابش مہدی جوار خدا میں!نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی انتقال کرگئے كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕیادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے!فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندویعلم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہوہالو بھروچ میں تین روزہ تبلیغی اجتماع اور اس کی کچھ شاندار جھلکیاں
HIRA ONLINE / حرا آن لائن

HIRA ONLINE / حرا آن لائن

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا - اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

  • Home
  • About us
  • Contact
  • Books
  • Courses
  • Blog
  • قرآن و علوم القرآن
  • حدیث و علوم الحدیث
  • فقہ و اصول فقہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • مضامین و مقالات
    • اسلامیات
    • سیرت و شخصیات
    • فکر و نظر
    • کتابی دنیا
    • سفر نامہ
    • گوشہ خواتین
  • Get Started
08.11.2025
Trending News: تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندویبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانیخلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائقسادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہحلال ذبیحہ کا مسئلہاستاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میںکتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھومفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلیہیرا جو نایاب تھاکتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور عصری آگہی از : مولانا آدم علی ندویمطالعہ کا جنوں🔰دھرم پریورتن، سچائی اور پروپیگنڈهربوبیت الہی کی جلوہ گری از :مولانا آدم علی ندویدیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویبہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربےسورہ زمر : الوہیت کا عظیم مظہربھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حجالإتحاف لمذهب الأحناف کی اشاعت: علما و طلبا، شائقینِ علم، محققین اور محبانِ انور کے لیے ایک مژدہ جاں فزااسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میںحنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھناغیر مسلموں کے برتنوں کا حکم*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_**_عورت و مرد کی برابری کا مسئلہ_*بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین ازدواجی رشتےتم رہو زندہ جاوداں ، آمیں از : ڈاکٹر محمد اعظم ندویاستاذ محترم مولانا نذیر احمد ندویؒ کی وفاتنہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگزڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کی کتاب تاریخ ندوہ العلماء پر ایک طائرانہ نظر!نقی احمد ندویمولانا نذیر احمد ندویاستاد اور مربی کی ذمہ داریانس جمال محمود الشریفتحریری صلاحیت کیسے بہتر بنائیں؟نام کتاب:احادیث رسولﷺ :عصرحاضر کے پس منظر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبتاسلام میں شادی کا طریقہ – مکمل رہنمائیبیوی پر شوہر کے حقوقجدید مسئل میں فتاوی نویسی کا منہج : ایک تعارفنکاح کی حکمت اور اس کے فوائد*_ساتویں مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے سمینار میں_* (١)ندوہ العلماء لکھنؤ میں ساتواں فقہی سیمینار | مجلس تحقیقات شرعیہخیانت کی 8صورتیںکیا موبائل میں بلا وضو قرآن پڑھنا جائز ہے؟اور پِھر ایک دن از نصیرالدین شاہ – نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میںبارات اور نکاح سے پہلے دولہا کا مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہےخطبات سیرت – ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کی سیرت نگاری کا تجزیاتی مطالعہاجتماعی فکر : ترقی کی ضمانتتبليغى جماعت كى قدر كريںماڈرن ’دین ابراہیمی‘ دین الہی کا نیا ایڈیشن"ایک فکشن نگار کا سفر”: ایک مطالعہ ایک تاثریہود تاریخ کی ملعون قومخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں#گاندھی_میدان_پٹنہ_سے_ہندوتوادی_ظلم_کےخلاف باوقار صدائے احتجاج میں ہم سب کے لیے سبق ہے !بابا رتن ہندی کا جھوٹا افسانہتربیت خاک کو کندن اور سنگ کو نگینہ بنا دیتی ہےدار العلوم ماٹلی والا کی لائبریری🔰دینی مدارس کی حفاظت كیوں ضروری هے؟اردو ادب اور فارغین مدارسایک مفروضہ کا مدلل جوابوحدت دین نہ کہ وحدتِ ادیانقربانی، ماحول اور مسلمان: عبادت سے ذمہ داری تک مولانا مفتی محمد اعظم ندویکبیر داس برہمنواد کا باغی اور محبت کا داعیقربانی: مادی فوائد اور سماجی اثراتعشرۂ ذی الحجہ: بندگی کی جولاں گاہ اور تسلیم ورضا کا موسمِ بہارامارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی امارت اور قیادت میں شرعی زندگی گذارنے کا عہد پیمان کیا.امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگالکا قضیہ حقائق کی روشنی میںمیرا مطالعہیہود سے معاہدہ اور نقضِ عہد کی یہودی فطرت وتاریخقلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں🔰بچوں كی دینی تعلیم كا سنہرا موقعدين سمجهنے اور سمجهانے كا صحيح منہجازمدارس اسلامیہ ماضی۔، حال اور مستقبل !خود شناسی-اہمیت اور تقاضےکتاب : یاد رفتگاں"عید مبارک”خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ندنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلامخوشگوار ازدواجی زندگی کے تقاضےوقت کا کچھ احترام کریںاعتکاف مسائل و آدابمدارس اسلامیہ : ضرورت اور تقاضےرمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمالروزے کے فوائدشرائط زکوٰۃقرآن مجید سے تزکیۂ نفسروزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !🔰سیاسی فائدہ کے لئے جھوٹ اور پروپیگنڈانا  فكر اسلامى كا مطالعه كس طرح كريں؟اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نوازکیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی (مصنف و کالم نگار)شعبان المعظم میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟كيا تشبيه/تمثيل دليل ہے؟صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور(جامعۃ العلوم، گجرات کی ایک وجد آفریں محفل قراءت-روداد اور مبارک باد)*اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اعزازات: 25-2024 کا کامیاب انعقاد**ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم* *(مرحوم تابش مہدی کے بارے میں کچھ یادیں)*محسوس ہورہا ہے جوارِ خدا میں ہوں۔۔۔ڈاکٹر تابش مہدی جوار خدا میں!نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی انتقال کرگئے كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕیادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے!فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندویعلم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہوہالو بھروچ میں تین روزہ تبلیغی اجتماع اور اس کی کچھ شاندار جھلکیاں
  • Home
  • About us
  • Contact
  • Books
  • Courses
  • Blog
  • قرآن و علوم القرآن
  • حدیث و علوم الحدیث
  • فقہ و اصول فقہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • مضامین و مقالات
    • اسلامیات
    • سیرت و شخصیات
    • فکر و نظر
    • کتابی دنیا
    • سفر نامہ
    • گوشہ خواتین
HIRA ONLINE / حرا آن لائن

HIRA ONLINE / حرا آن لائن

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا - اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

  • Get Started

فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

  1. Home
  2. فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

  • hira-online.comhira-online.com
  • فکر و نظر
  • جنوری 21, 2025
  • 0 Comments

تقدیر کے فیصلوں کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ حالات انتہائی مایوس کن تھے۔ ہر دل شکست کے احساس سے نڈھال تھا۔ بے حد تناؤ کا ماحول تھا۔ بظاہر معاہدۂ حدیبیہ کی بعض شقیں مسلمانوں نے دبتے ہوئے منظور کی تھیں؛ لیکن ایسے مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ نے صلحِ حدیبیہ کو فتحِ مبین سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا۔ (الفتح: ۱) (ہم نے آپ کے لیے کھلی فتح کا انتظام کر دیا)حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر اور صاحب فراست صحابی بھی حالات سے اس قدر متأثر تھے کہ پوچھ بیٹھے یا رسول اللہﷺ! کیا یہ فتح ہے؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:إی و الذی نفس محمد بیدہٖ إنّہ لفتح قسم ہے اس ذاتِ گرامی کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے۔ (مسند احمد، ابو داؤد) اس وقت کے حالات پر نظر ڈالیے! روایات پڑھیے تو لوگوں کی بے چینی اور بے اطمینانی کی کیفیت کا اندازہ ہوگا! ایمان کا تقاضا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے اشاروں پر سرِ تسلیم خم کیا جائے سو تمام صحابہ نے ایسا ہی کیا؛ لیکن انسانی فطرت کے سبب بعض دلوں میں ایک خلش تھی کہ یہ کیسی فتح ہے، ہمیں عمرے سے روک دیا گیا، قربانی کے جانور بھی آگے نہ جا سکے؛ حتی کہ ہمارے مظلوم بھائیوں کو بھی ظالموں کے حوالے کرنا پڑا پھر آخر اس کو فتح کیوں کہا جائے؟ لیکن نبی اکرمﷺ فرما رہے تھے کہ یہ خیال غلط ہے، حقیقت میں یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے گھر پہنچ گئے تھے، مشرکینِ مکّہ ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن میں تھے؛ لیکن انھوں نے خود جنگ بندی کی درخواست کی، خود تم سے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کی۔ ایک وہ دور تھا جب اُحد کے دن تم بھاگ رہے تھے اور میں تم کو پکار رہا تھا۔ سارا عرب جنگِ احزاب میں تم پر چڑھ آیا تھا، مشرکین کے دل میں تمہارے لیے جو کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے؛ لیکن پھر بھی اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر گزرے ہوئے لمحے کے ساتھ لوگوں پر صلح حدیبیہ کا فتح مبین ہونا واضح ہوتا چلا گیا۔ ٦ ہجری میں یہ بشارت سنائی گئی اور دو سال میں ہی جزیرۃ العرب کا نقشہ بدل گیا۔ تاریخ نے ‘‘نصراً عزیزاً’’(الفتح:۳) کی تفسیر کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا اور ‘‘اتمام نعمت’’(الفتح:۲) کی کارفرمائیوں اور جلوہ سامانیوں کو اپنے ریکارڈ میں محفوظ کیا، خوف و ہراس کے بادل چھٹ گئے، بیرونی حملوں اور مداخلتوں سے نجات ملی، اسلامی تہذیب و تمدن کا غلغلہ بلند ہوا، دعوتِ اسلامی کی فضا ہموار ہوئی، لوگ خیمۂ کفر سے نکل نکل کر اسلام کے دامن میں بصد شوق آنے لگے۔

حالات کی سنگینی

اطرافِ مدینہ کے بدوؤں کی سوچ اور صورت حال کی نزاکت کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن کو نبیﷺ نے عمرہ پر جانے کی دعوت دی تھی، وہ سوچ رہے تھے کہ اب نبیﷺ اور ان کے ساتھی وادئ مکّہ میں ہی دفن کر دیے جائیں گے، انھیں کفر کی شوکت و طاقت پر اتنا بھروسا تھا کہ انھوں نے دور رہ کر تماشا دیکھنے کا فیصلہ کیا، وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اب تو اسلام کی یہ تحریک ختم ہو جائے گی، اب یہ لوگ بچ نہ سکیں گے، دوبارہ کبھی اپنے گھر نہ آ سکیں گے، وہ طرح طرح کی لچر باتیں کر رہے تھے اور مزے لے رہے تھے۔ اف! قرآن مجید نے کس اختصار و بلاغت کے ساتھ تصویر کشی کی ہے، وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ پر دیر تک ٹھہر کر میں سوچتا رہا اور آج کے ان لبرل یا صلح حدیبیہ سے غلط استدلال کرنے والوں کے بارے میں سوچتا رہا، جو جہاد و مزاحمت کا لفظ سن کر ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جنھیں خون دیکھ کر ڈر لگتا ہے، جو اس فلسفے کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ‘‘امن کے لیے کبھی جنگ بھی ضروری ہوتی ہے’’، جو طاقت کے توازن کو عقیدہ کی طرح تصوّر کرتے ہیں، جو مغرب اور اس کی دجّالیت اور شیطانی طاقت کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں گویا خدا کی طاقت ، قرآن کی بشارت اور عزیز و حکیم کی نصرت کے وعدے انھیں یاد ہی نہ ہوں، جو ہر حال میں مصالحت و مصلحت کی رٹ لگاتے ہیں اور کفر کی شوکت کے حوالے دیتے ہیں، خدا نے ان ہی کا نقشہ تو کھینچا ہے۔ وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ پڑھیے ذرا…..! بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا۔ (الفتح: ۱۲) (بلکہ تم یہ سمجھ رہے تھے کہ رسول اور ایمان والے اب کبھی اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہ آ سکیں گےاور تم بُرے گمان کر رہے تھے اور تم اپنی بربادی کا انتظام کر رہے تھے۔)

لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے:وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔ (الفتح: ٦) (اور منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں، بربادی انھیں کی ہونی ہے، اللہ ان پر غضب ناک ہے، وہ ان پر لعنت برساتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، جو بہت بُرا انجام ہے۔

تاریخ کا یہ باب اپنی تفصیلات کے ساتھ ذہن میں رکھیے، پھر آج کے حالات کا مشاہدہ کیجیے۔ خدا کے وعدوں پر یقین میں اضافہ کیجیے، قرآن کی بلاغت و حقانیت پر سر دھنیے۔٤٧١؍دنوں کے بعد غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے، معاہدہ کی شقیں پڑھیے تو فتح کا صحیح اندازہ ہوگا،ایک صہیونی قیدی کے بدلے صہیونی ریاست ۳۰؍قیدی رہا کرنے کی پابند ہے، اس میں ایسے قیدی بھی شامل ہیں، جو صہیونی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جنگ بندی کا یہ معاہدہ کئی مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ ٤٢؍دنوں پر محیط ہے، اس دوران حماس صرف ۳۳؍قیدی رہا کرے گا،اور حیرت کی بات ہے کہ ٤٧١؍دنوں تک اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن بمباری کی، بستی کو کھنڈر بنا دیا، اسپتال تباہ کر دیے، مسجدیں ڈھا دیں، لوگوں کو بے گھر کر دیا، ستّر ہزار سے زائد لوگ شہید ہو گئے، لاکھوں لوگ زخمی ہو گئے؛ لیکن صبر و استقامت اور مضبوط جنگی حکمتِ عملی نے پاگل ہاتھی کو اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا، امّت کے منافقین اور منافق اکبر نا محمود عباس نہیں چاہتا تھا کہ حماس کے خاتمے سے قبل معاہدہ ہو، اسرائیل نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر کے ہی دم لے گا۔ یہ دونوں ہی اس کے لیے کوشاں تھے کہ اگر معاہدہ ہو بھی جائے تو جنگ بندی کے بعد غزہ کا کنٹرول مقاومہ کے ہاتھ میں نہ رہے؛ لیکن خدا کا منصوبہ کچھ اور تھا، اس نے اہلِ غزہ کے ہونٹوں پر خوشی بکھیر دی اور اسرائیل میں صفِ ماتم بچھ گئی، معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے اسرائیل کے کئی وزراء رو پڑے۔ ایک متشدد صہیونی وزیر نے تو استعفیٰ دے دیا، اسرائیل کو معاشی طور پر جو نقصان پہنچا وہ کچھ کم نہیں، جو جانی نقصان پہنچا بالخصوص شمالی غزہ میں اس کو جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس پر اس نے پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی؛ لیکن اس میں بھی اسے کامیابی نہ مل سکی، اس کی صفوں میں انتشار ہوا، اس کے عوام کا ایک طبقہ صہیونی وزیرِ اعظم کے خلاف کھڑا ہوا، اسے اپنے کسی ایک مقصد میں بھی کامیابی نہ ملی، حد یہ ہے کہ وہ تمام تر دجالی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود بھی اپنے قیدیوں تک کا پتہ نہ لگا سکا، امریکی وزیر خارجہ بلینکن کو کہنا پڑا کہ ‘‘مقاومہ کو صرف عسکری طریقے سے شکست دینا ممکن نہیں، شمالی غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کی دلیل ہے۔ مقاومہ نے جتنا نقصان اٹھایا بظاہر اتنی ہی نئی بھرتی کر لی ہے’’۔ ہم تو پہلے ہی لکھ چکے تھے کہ مقاومہ ایک فکر کا نام ہے اور فکریں جنگوں سے نہیں مٹائی جا سکتی ہیں، یوں بھی بزدل و قاتل صہیونی افواج حماس کی عسکری طاقت توڑنے میں ناکام رہی ہیں، ہاں انھوں نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں پر تھوکتے ہوئے محض حماس پر دباؤ بنانے کے لیے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو شہید کیا، اسکول و اسپتال تباہ کیے؛ لیکن سلام ہے غزہ کے غیور عوام کو جنھوں نے اپنی تحریک کو جھکنے نہ دیا، بلکہ اعلان جنگ بندی کے بعد سب یہ کہتے پائے گئے کہ الحمد للہ ہم سب بخیر ہیں اور ہماری مزاحمت بھی بخیر ہے۔جنگ بندی کے اعلان کے بعد جب مجاہدین سڑکوں پر نکلے تو ایک اسرائیلی صحافی نے کہا: ‘‘آپ جنگ کے اگلے دن کے مناظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں، حماس کے فوجی غزہ کی سڑکوں پر پِھر رہے ہیں، بہادروں اور جیالوں کی طرح ان کا استقبال کیا جا رہا ہے، ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی’’۔ واقعی حماس کے جیالوں کا جس طرح غزہ کے غیور عوام نے استقبال کیا، اس استقبال میں اِن قرآنی آیات کی حقانیت مجسّم نظر آئی:وَكَاَیّن مِّن نَّبِىٍّۢ قٰتَلَ مَعَهٗ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌۭ فَمَا وَهَنُوا۟ لِمَآ أَصَابَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللهِ وَمَا ضَعُفُوا۟ وَمَا ٱسْتَكَانُوا۟ وَٱللهُ يُحِبُّ ٱلصّٰبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّآ أَن قَالُوا۟ رَبَّنَا ٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِىٓ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ فَـآتٰهُمُ ٱللهُ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ ٱلْآخِرَةِ وَٱللهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ۔ ( آلِ عمران: ۱۴۶-۱۴۸)(اور کتنے نبیوں کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے مل کر (کفر کی طاقتوں سے) جنگیں کیں اور اللہ کے راستے میں جو مصائب آئے ان کی وجہ سے وہ بزدلی کا شکار نہ ہوئے اور نہ کمزور پڑے اور نہ ڈھیلے اور سست ہوئے (کہ ڈگیں ڈال دیں) اور اللہ مضبوطی سے جمنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ انھوں نے بس یہی کہا کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ اور اپنے معاملات میں ہمارے حد سے گزر جانے کو معاف فرما دے، ہمارے قدم جما دے اور ہمیں کافروں پر مدد و نصرت عطا فرما تو اللہ نے ان کو دنیا کی جزائے خیر بھی دی اور آخرت کا بہترین ثواب بھی اور اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)

جو قوم جری ہو، غیور ہو، آزادی کی دیوانی ہو، جس نے حالات سے لڑنا سیکھ لیا ہو، جس نے مصائب کو برداشت کرنا سیکھ لیا ہو، جو اپنے مجاہدین کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے پر فخر کرے، اسے کوئی شکست دے سکتا ہے نہ رسوا کر سکتا ہے۔ ہم نے مجاہدین کو ایک ویڈیو میں کہتے ہوئے سنا کہ آپ کے لیے اس وقت جنگ بہت آسان ہو جاتی ہے، جب آپ کی پشت پر غزہ جیسی قوم ہو، غزہ کی غیور ماؤں نے شہادتوں کے باوجود جس طرح حماس کے مجاہدین کا استقبال کیا ہے اس پر تاریخ بھی ششدر ہے، بعض ماؤں نے تبادلے میں رہائی پانے والے اپنے نوجوان بچوں کو گلے لگاتے ہوئے ان کی پیشانی پر قسام کی سبز پٹی باندھ دی۔ واقعی غزہ کے لوگوں نے اپنی ایمانی قوت اور صبر و استقامت سے ہی صہیونی دہشت گرد کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ ایسا کریں گے، اس کا واضح پیغام دے دیا ہے۔

اہلِ غزہ نے ایسے تمام لوگوں کے منہ پر خاک ڈالی ہے جو دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، جو سمجھ رہے تھے کہ شکست ان کا مقدر بنے گی، مقاومہ ختم ہو جائے گی، تحریک مزاحمت دم توڑ دے گی، آزادی کے نعرے بھولی بسری داستان بن جائیں گے، صہیونی اژدھا سب کو نگل جائے گا، شہید اسماعیل ہنیہ کی بہو نے بتایا کہ آج کا دن ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو ہماری شکست کے منتظر تھے، آج کا دن نہ صرف فتح کا دن ہے؛ بلکہ ایسے منافقوں اور منافق بدوؤں کے منہ پر آج کا دن خاک ڈال گیا ہے، غزہ کی سڑکوں پر عوام نے اسماعیل ہنیہ، یحیٰ السنوار اور محمد الضیف کے نام لے لے کر نعرے لگائے اور دنیا کو بتایا کہ تحریک زندہ ہے اور مزاحمت جاری رہے گی۔ ویسے بھی غزہ میں حماس کے قائد خلیل الحیہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہماری جنگ کا عنوان مسجدِ اقصیٰ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے، مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام تک ہماری جنگ و مزاحمت کے یہ عنوان باقی رہیں گے۔ مزاحمت کا وجود صہیونی قبضے کی وجہ سے ہے، قبضہ کا خاتمہ اور فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلہ کا حل ہے، اس کے بغیر مزاحمت ختم ہوگی نہ جنگ۔ یہ جنگ بندی کتنے دنوں پر محیط ہوگی، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، دوغلے امریکہ کا کیا رویّہ ہوگا یہ بھی ابھی کہہ پانا مشکل ہے۔ ٹرمپ نے عندیہ دے دیا ہے کہ وہ غزہ پر حماس کا کنٹرول نہیں چاہتا، یہی منشا غلام فلسطینی اتھارٹی اور عرب بدوؤں کی ہے؛ لیکن کیا یہ منشا پوری ہوگی؟ کیا آزادی فلسطین کی تحریک ختم ہو جائے گی؟ حماس تو ہے جو صدی ڈیل کے نفاذ، بیت المقدس کے صہیونی راجدھانی بننے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیا یہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی؟ کیا دنیا اور خود فلسطینی اور عرب یہی چاہتے ہیں؟ کیا گریٹر اسرائیل کے قیام سے وہ راضی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کرنا ہوگا، بظاہر عرب حکمران تو سرینڈر کر چکے ہیں، حماس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عرب دنیا انھیں اس طرح بے سر و سامان چھوڑ دے گی، انھوں نے تو ۷؍اکتوبر کو محاصرہ توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا، انھیں کیا معلوم تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان اس قدر مجبور و بے بس ہو جائیں گے کہ وہ جنگ بندی معاہدہ کے لیے بھی مداخلت نہ کر سکین گے، بہرحال ہمیں مزاحمت کی تاریخ اور ان کی فراست و منصوبہ بندی اور جذبۂ قربانی و سرفروشی پر پورا بھروسا ہے کہ ٹرمپ کی منشا پوری ہوگی نہ اسرائیل کا منصوبہ۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرُ اللہ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن اللہ ہی ہے جو فتح مبین کی راہیں ہموار کرے گا اور لوگ اپنی آنکھوں سے اس معاہدے کے اثرات دیکھیں گےاور مشاہدہ کریں گے کہ یہ معاہدہ کس طرح فتح مبین میں تبدیل ہوگا۔

بہرحال حالیہ منظرنامہ تو یہ ہے کہ دشمن نے کہا تھا ہم شہر عزیمت کو جغرافیائی نقشے سے مٹا دیں گے؛ مگر شہرِ عزیمت کی استقامت نے دشمن کو ہزیمت دے کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنے وجود کو ثبت کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف وسائل سے نہیں لڑی جاتی ہیں، صرف تعداد اور فوجی طاقت ہی شکست و فتح کا فیصلہ نہیں کرتی ہے، سود و زیاں کا فیصلہ صرف جانی و مالی نقصان پر منحصر نہیں ہوتا۔ اقبال کہہ گئے ہیں:

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو پا مردی مؤمن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

پہلی بار ایسا ہوا کہ امریکہ کے تمام تر تعاون کے باوجود اسرائیل کو عالمی طاقتوں سے مدد لینی پڑی، عالمی سطح پر اسے جنگی مجرم، دہشت گرد اور نسل پرست قرار دیا گیا، اس کی ہتھیار کی منڈی سرد پڑی، اس کے سیکورٹی سسٹم کا بھرم ٹوٹا، اسے عسکری، سیاسی اور میڈیائی سطح پر منہ کی کھانی پڑی، اخلاقی طور پر تو وہ پہلے ہی دیوالیہ ہے۔ اس قوم کی اخلاقی پستی کا جو بیانیہ قرآن مجید نے پیش کیا ہے، وہی آج بھی نظر آتا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ۴۷۱؍دنوں کی مسلسل جارحیت کے بعد بھی اسے جھک کر معاہدۂ جنگ بندی کرنا پڑا ہے۔ سوال تو یہی ہے کہ یہ معاہدہ کس کی فتح اور کس کی شکست ہے؟ دنیا تو صرف اسرائیل سے سوال کر رہی ہے کہ جس نے ہر حال میں حماس کو مٹانے کی قسم کھائی تھی، وہ معاہدہ پر کیوں راضی ہوا؟ جس نے بار بار کہا تھا کہ قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، طاقت کے ذریعے حماس کو کچل کر قیدی رہا کرائے جائیں گے، وہ تو قیدیوں کا پتہ بھی نہ لگا سکا! سوال یہ ہے کہ کون کمزور پڑا اسرائیل یا حماس؟ کس کی کمزوری کے سبب یہ معاہدہ ہوا؟ عالمی عدالت نے کسے مجرم قرار دیا؟ کس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے؟

واقعہ یہ ہے کہ معرکہ طوفان اقصیٰ نے قضیۂ فلسطین کو زندہ کیا ہے، بچوں اور نوجوانوں کو مزاحمت کے معنیٰ سمجھا دیے، قربانیوں کا درس دیا، صبر و شجاعت اور پامردی کی مثال قائم کی اور سب کو مقاومہ کی تاریخ و جاں بازی سے واقف کرا دیا،آزادی فلسطین کی تحریک کو پھر سے زندہ کر دیا، عرب بدوؤں بشمول نا محمود عباس کے منہ پر خاک ڈال دی، شہرِ قدس کو صہیونی ریاست کی راجدھانی بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست؛ بلکہ دنیا بھر کی سیاست کا رخ بدل دیا، دہشت گردی کی تعریف بدل دی، دنیا نے صہیونیت کو دہشت گرد تسلیم کیا، مجاہدین کو دہشت گرد کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ عالمی طاقتیں ان سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ دنیا نے پہلے بھی دیکھا تھا کہ ‘‘افغانی دہشت گردوں’’ سے امریکہ نے بات چیت کی، جب وہ ‘‘افغانی ملا’’ حکومت تشکیل دے رہے تھے، اس وقت گودی میڈیا انھیں دہشت گرد کہہ رہا تھا؛ لیکن اب جب خود ہمارے خارجہ سکریٹری ان سے بات کر رہے ہیں تو وہی میڈیا اس بات چیت کو اہم پیش رفت قرار دے رہا ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے، اس وقت اور آج کے معاہدہ نے پھر یہ بات ثابت کر دیا کہ عالمِ کفر صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ دیسی لبرل بھی سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ طاقت ہی کے ذریعے بات منوائی جا سکتی ہے، جنھیں بڑے فریب سے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، ان ہی کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ ‘‘اعدادِ قوت’’ کا یہی نتیجہ ہے اور‘‘تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدوّ اللہِ’’ کی یہی تفسیر ہے۔ تاریخ اس دوغلے پن کو بھی ریکارڈ کر رہی ہے کہ صہیونی مظالم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، صہیونی قیدیوں کو ‘‘بندھک’’ کہا جاتا ہے اور اسرائیل جب جسے چاہے اسے قید کر دے، دوغلی دنیا اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو بندھک سے نہیں تعبیر کرتی، دوغلا میڈیا یہ تصویریں بھی نہیں دکھاتا کہ حماس کی قید سے رہا ہونے والوں کے چہرے کیسے شاداب ہوتے ہیں، صحت کیسی اچھی ہوتی ہے؛ لیکن اسرائیلی جیلوں سے نکلنے والے فلسطینی کس طرح اپنی زندگی ہا چکے ہوتے ہیں، ان کی تصویریں ظلم و جارحیت اور بربریت کی کیسی خوف ناک کہانیاں سناتی ہیں، ہمیں تو افسوس ان بے چاروں پر ہوتا ہے، جو اس دوغلے میڈیا اور سستے دانش وروں کا حوالہ دیتے ہیں۔

سچائی یہی ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے، اس کے جنگی نظریے کو شکست ہوئی ہے، اس کی فوجی طاقت اور اس کا غرور خاک میں ملا ہے، حماس کے پاس کھونے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں، اس نے تو پایا ہے، اس نے غزہ کا محاصرہ توڑا، اس نے اسرائیل کو مزاحمت کا سبق پڑھایا، اس نے تحریک آزادی کی عالمی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کیا، اس نے تمام تر غیر متوازن حالات اور نا مساعد و نا ہموار فضا میں جنگ کرنے کا سبق دیا۔ اس نے بتایا کہ قوت کا توازن، تعداد کا تواززن، وسائل کا توازن مطلوب نہیں، مطلوب ہے تو اعداد قوت اور پھر صبر و استقامت۔ اس نے پھر ثابت کیا کہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ایسی خوف ناک جنگ میں اپنا وجود باقی رکھنا اور اپنی شرطوں پر دشمن کو جھکانا اور آزادی کی جوت جگانا از خود فتح کی دلیل ہے، دنیا بھر میں صہیونیت کے خلاف فضا بننا اور فلسطینی مزاحمت کو حمایت ملنا اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پُر زور آواز اٹھنا فتح مبین نہیں تو اور کیا ہے؟ اعلان جنگ بندی کے بعد مقاومہ اپنی پوری شوکت کے ساتھ سڑکوں پر ہے اور اسرائیلی وزراء رو رہے ہیں، استعفیٰ دے رہے ہیں، ماتم کر رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں، اب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ خضوع اور تسلیم و رضا درست نہیں، ایندھن اور امداد روک کر قیدیوں کو چھڑانا چاہیے؛ مگر وہ یہ سب بھی کرکے دیکھ چکے، نتن یاہو نے بھوک مری کو جنگی ہتھیار کے طور پر آزما کر دیکھا، مگر سلام ہو اہلِ غزہ پر کہ انھوں نے شعب ابی طالب کی مثال بھی پیش کی، انھوں نے عہدِ صحابہ کی یاد دلا دی،صبر و استقامت کے ذریعہ وہ عزت و حرّیت کا رمز بن گئے، ان کی ایمانی قوت کے آگے ساری طاقتیں زیر ہو گئیں، یہ آیات آپ بھی پڑھ لیجیے جو جناب ابو عبیدہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں پڑھی ہیں۔وَقَضَيْنَآ إِلَىٰ بَنِىٓ إِسْرٰٓءِيلَ فِى ٱلْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا۔ فَإذَا جَآءَ وَعْدُ أُولَىٰهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ أُو۟لِى بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا۟ خِلَالَ ٱلدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ ٱلْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنٰكُم بِأَمْوٰلٍ وَّبَنِينَ وَجَعَلْنٰكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا إنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإذَا جَآءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُــُٔوا۟ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا۟ مَا عَلَوْا۟ تَتْبِيرًا۔ (الاسراء: ۴-۷) (ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو یہ فیصلہ سنا دیاتھا کہ تم روئے زمین پر دو مرتبہ بڑا فساد مچاؤ گے اور بڑی طاقت حاصل کرو گے پھر جب ان میں سے پہلی مرتبہ کے وعدے کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم تم پر زبردست جنگ کرنے والے اپنے بندے مسلط کریں گے، جو علاقوں میں گھستے چلے جائیں گے اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پھر ہم تمھیں ان پر پلٹنے کا موقع دیں گے اور مال اور اولاد کی خوب ریل پیل کریں گے اور تمہاری تعداد بڑھا دین گے پھر اگر تم اچھا رویّہ اختیار کرو گے تو خود اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم بدی کا رویّہ اختیار کرو گے تو اس کا نتیجہ بھگتو گے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آئے گا، کہ جب (تمہارے دشمن) تمہارے چہرے بگاڑ دیں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے، جس طرح پہلے داخل ہوئے تھےاور (تمہارا) سارا اقتدار تباہ کر دیں گے۔

hira-online.com

،حراء آن لائن" دینی ، ملی ، سماجی ، فکری معلومات کے لیے ایک مستند پلیٹ فارم ہے " حراء آن لائن " ایک ویب سائٹ اور پلیٹ فارم ہے ، جس میں مختلف اصناف کی تخلیقات و انتخابات کو پیش کیا جاتا ہے ، خصوصاً نوآموز قلم کاروں کی تخلیقات و نگارشات کو شائع کرنا اور ان کے جولانی قلم کوحوصلہ بخشنا اہم مقاصد میں سے ایک ہے ، ایسے مضامین اورتبصروں وتجزیوں سے صَرفِ نظر کیا جاتاہے جن سے اتحادِ ملت کے شیرازہ کے منتشر ہونے کاخطرہ ہو ، اور اس سے دین کی غلط تفہیم وتشریح ہوتی ہو، اپنی تخلیقات و انتخابات نیچے دیئے گئے نمبر پر ارسال کریں ، 9519856616 hiraonline2001@gmail.com

پوسٹوں کی نیویگیشن

وہالو بھروچ میں تین روزہ تبلیغی اجتماع اور اس کی کچھ شاندار جھلکیاں
*اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اعزازات: 25-2024 کا کامیاب انعقاد*

Related Posts

اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں
  • hira-online.comhira-online.com
  • اکتوبر 14, 2025
  • 0 Comments
اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں

اسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میں ✍️ ریحان بیگ ندوی (سابق سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) روایتی طور پر یہ تصور کیا جاتا رہا ہے کہ اسلامی قانون کا مغربی قانون پر اثر کم رہا ہے، بالمقابل طبیعیات، الہیات اور آرٹ وغیرہ کے، لیکن یورپی قانونی تاریخ میں اسلامی قانون کے اثرات دو طریقوں سے نمایاں طور پر ظاہر ہوئے ہیں: ایک وہ علاقے جہاں اسلامی حکمرانی تھی، اور دوسرا اقتصادی قانون پر معاشی ضرورتوں کے تحت اثرات۔ اس کے علاوہ، یہ بحث بھی جاری ہے کہ آیا مغربی قانون نے اسلامی نظریات کو اپنایا تھا یا نہیں۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ 12/ویں صدی کے دوسرے نصف میں کامن لا common law اور اسلامی قانون میں کچھ مشابہتیں پیدا ہوئیں۔ جان مکدسی Jhon Makdisi ( پروفیسر آف لا ایمریٹس: سینٹ تھامس یونیورسٹی اسکول آف لاء) نے اپنی کتاب Islamic Property Law: Cases And Materials For Comparative Analysis With The Common Law میں واضح کیا ہے کہ انگلش کامن لا اسلامی قانون سے متاثر ہو کر تشکیل پایا ہے۔ اگرچہ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، لیکن نارمن سسلی اور انگلینڈ کے درمیان روابط اس کی وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی وقف کا اثر انگلش ٹرسٹ پر بھی دیکھا گیا ہے، جو ابتدا میں گرچہ عملی ضرورت کے تحت متعارف ہوا، مگر بعد میں اسلامی قانونِ اوقاف کے اصولوں سے متاثر ہوا۔اس کے علاوہ فقہائے اسلام نے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات، جنگ و امن کے اصول، اور اہلِ ذمہ و غیر ملکیوں کے معاملات پر گہری تحقیق کی ہے۔ اس موضوع پر نمایاں کتب میں سیر الاوزاعی (157 ہجری)، کتاب الجہاد از عبداللہ بن مبارک (187 ہجری)، السیر الکبیر اور السیر الصغیر از امام محمد بن حسن الشیبانی (189 ہجری)، سیر الواقدی (207 ہجری)، اور رسالہ الجہاد از ابن تیمیہ (661 ہجری) شامل ہیں۔ یہ کتب اور دیگر کتبِ سیر و جہاد اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اسلامی فقہ نے بین الاقوامی قانون کو ایک مستقل…

Read more

Continue reading
اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہے
  • hira-online.comhira-online.com
  • ستمبر 21, 2025
  • 0 Comments
اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہے

مدثر احمد قاسمی اسلام نے انسان کو زندگی گزارنے کے جو اصول عطا کیے ہیں وہ نہایت عملی، جامع اور متوازن ہیں۔ انہی اصولوں پر چل کر انسان سکون، خوشی اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب کبھی ان رہنمائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو زندگی میں بے ترتیبی، بے سکونی اور پریشانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ اسلام کے اصول چونکہ اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی ہیں، اس لیے ان پر قائم رہنے والی امت کو قرآن مجید نے "اُمّتِ وَسَط” قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا۔” (البقرہ: 143) "وسط” کا مطلب ہے درمیانی راستہ اختیار کرنے والی امت، جو نہ کسی انتہا پسندی میں مبتلا ہو اور نہ ہی غفلت و لاپرواہی کا شکار ہو۔ اس امت کا توازن اس بات میں ہے کہ اس کے نظریات اور اعمال میں افراط و تفریط نہیں بلکہ اعتدال اور توازن ہے؛ اسی وجہ سے وہ دنیا کی دوسری قوموں کے درمیان ایک نمونہ اور معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا اسلام کے ماننے والے اگر اپنے دین پر صحیح طور پر عمل کریں تو وہ اعتدال و توازن کی عملی تصویر بنتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے، حدودِ الٰہی کی پاسداری کرے اور ہر موقع پر ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے معاشرے میں خیر اور بھلائی کے اسباب پیدا ہوں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اعتدال کے بجائے بے اعتدالی کو اپنی پہچان بنالیا ہے۔ گویا جس امت کو دنیا کے لیے توازن اور سکون کا سرچشمہ ہونا چاہیے تھا، وہ خود بے ترتیبی اور افراط و تفریط میں الجھ کر دوسروں کے لیے باعثِ عبرت بن گئی۔ اس کی ایک واضح مثال فضول خرچی ہے جس سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، کیونکہ یہ عمل معاشی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج…

Read more

Continue reading

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

حالیہ پوسٹیں

  • تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی 07.11.2025
  • بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی 06.11.2025
  • خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق 05.11.2025
  • سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ 04.11.2025
  • حلال ذبیحہ کا مسئلہ 31.10.2025
  • استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں 30.10.2025
  • کتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھو 29.10.2025
  • مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی 29.10.2025

حالیہ تبصرے

  • خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ن از حراء آن لائن
  • خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ن از Technology
  • دنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلام از Business
  • دنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلام از IT
  • موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس از حراء آن لائن

زمرے

  • Blog
  • اسلامیات
  • سفر نامہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • سیرت و شخصیات
  • فقہ و اصول فقہ
  • فکر و نظر
  • قرآن و علوم القرآن
  • کتابی دنیا
  • گوشہ خواتین
  • مضامین و مقالات

Other Story

Blog

تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی

  • hira-online.com
  • نومبر 7, 2025
تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
Blog

بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی

  • hira-online.com
  • نومبر 6, 2025
بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
کتابی دنیا

خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق

  • hira-online.com
  • نومبر 5, 2025
خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق
سیرت و شخصیات

سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ

  • hira-online.com
  • نومبر 4, 2025
سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ
فقہ و اصول فقہ

حلال ذبیحہ کا مسئلہ

  • hira-online.com
  • اکتوبر 31, 2025
سیرت و شخصیات

استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں

  • hira-online.com
  • اکتوبر 30, 2025
استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں
مضامین و مقالات

کتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھو

  • hira-online.com
  • اکتوبر 29, 2025
سیرت و شخصیات

مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی

  • hira-online.com
  • اکتوبر 29, 2025
مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از :  زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی
Copyright © 2025 HIRA ONLINE / حرا آن لائن | Powered by [hira-online.com]
Back to Top