Skip to content HIRA ONLINE / حرا آن لائن
08.11.2025
Trending News: تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندویبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانیخلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائقسادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہحلال ذبیحہ کا مسئلہاستاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میںکتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھومفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلیہیرا جو نایاب تھاکتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور عصری آگہی از : مولانا آدم علی ندویمطالعہ کا جنوں🔰دھرم پریورتن، سچائی اور پروپیگنڈهربوبیت الہی کی جلوہ گری از :مولانا آدم علی ندویدیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویبہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربےسورہ زمر : الوہیت کا عظیم مظہربھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حجالإتحاف لمذهب الأحناف کی اشاعت: علما و طلبا، شائقینِ علم، محققین اور محبانِ انور کے لیے ایک مژدہ جاں فزااسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میںحنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھناغیر مسلموں کے برتنوں کا حکم*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_**_عورت و مرد کی برابری کا مسئلہ_*بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین ازدواجی رشتےتم رہو زندہ جاوداں ، آمیں از : ڈاکٹر محمد اعظم ندویاستاذ محترم مولانا نذیر احمد ندویؒ کی وفاتنہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگزڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کی کتاب تاریخ ندوہ العلماء پر ایک طائرانہ نظر!نقی احمد ندویمولانا نذیر احمد ندویاستاد اور مربی کی ذمہ داریانس جمال محمود الشریفتحریری صلاحیت کیسے بہتر بنائیں؟نام کتاب:احادیث رسولﷺ :عصرحاضر کے پس منظر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبتاسلام میں شادی کا طریقہ – مکمل رہنمائیبیوی پر شوہر کے حقوقجدید مسئل میں فتاوی نویسی کا منہج : ایک تعارفنکاح کی حکمت اور اس کے فوائد*_ساتویں مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے سمینار میں_* (١)ندوہ العلماء لکھنؤ میں ساتواں فقہی سیمینار | مجلس تحقیقات شرعیہخیانت کی 8صورتیںکیا موبائل میں بلا وضو قرآن پڑھنا جائز ہے؟اور پِھر ایک دن از نصیرالدین شاہ – نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میںبارات اور نکاح سے پہلے دولہا کا مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہےخطبات سیرت – ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کی سیرت نگاری کا تجزیاتی مطالعہاجتماعی فکر : ترقی کی ضمانتتبليغى جماعت كى قدر كريںماڈرن ’دین ابراہیمی‘ دین الہی کا نیا ایڈیشن"ایک فکشن نگار کا سفر”: ایک مطالعہ ایک تاثریہود تاریخ کی ملعون قومخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں#گاندھی_میدان_پٹنہ_سے_ہندوتوادی_ظلم_کےخلاف باوقار صدائے احتجاج میں ہم سب کے لیے سبق ہے !بابا رتن ہندی کا جھوٹا افسانہتربیت خاک کو کندن اور سنگ کو نگینہ بنا دیتی ہےدار العلوم ماٹلی والا کی لائبریری🔰دینی مدارس کی حفاظت كیوں ضروری هے؟اردو ادب اور فارغین مدارسایک مفروضہ کا مدلل جوابوحدت دین نہ کہ وحدتِ ادیانقربانی، ماحول اور مسلمان: عبادت سے ذمہ داری تک مولانا مفتی محمد اعظم ندویکبیر داس برہمنواد کا باغی اور محبت کا داعیقربانی: مادی فوائد اور سماجی اثراتعشرۂ ذی الحجہ: بندگی کی جولاں گاہ اور تسلیم ورضا کا موسمِ بہارامارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی امارت اور قیادت میں شرعی زندگی گذارنے کا عہد پیمان کیا.امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگالکا قضیہ حقائق کی روشنی میںمیرا مطالعہیہود سے معاہدہ اور نقضِ عہد کی یہودی فطرت وتاریخقلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں🔰بچوں كی دینی تعلیم كا سنہرا موقعدين سمجهنے اور سمجهانے كا صحيح منہجازمدارس اسلامیہ ماضی۔، حال اور مستقبل !خود شناسی-اہمیت اور تقاضےکتاب : یاد رفتگاں"عید مبارک”خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ندنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلامخوشگوار ازدواجی زندگی کے تقاضےوقت کا کچھ احترام کریںاعتکاف مسائل و آدابمدارس اسلامیہ : ضرورت اور تقاضےرمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمالروزے کے فوائدشرائط زکوٰۃقرآن مجید سے تزکیۂ نفسروزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !🔰سیاسی فائدہ کے لئے جھوٹ اور پروپیگنڈانا  فكر اسلامى كا مطالعه كس طرح كريں؟اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نوازکیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی (مصنف و کالم نگار)شعبان المعظم میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟كيا تشبيه/تمثيل دليل ہے؟صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور(جامعۃ العلوم، گجرات کی ایک وجد آفریں محفل قراءت-روداد اور مبارک باد)*اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اعزازات: 25-2024 کا کامیاب انعقاد**ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم* *(مرحوم تابش مہدی کے بارے میں کچھ یادیں)*محسوس ہورہا ہے جوارِ خدا میں ہوں۔۔۔ڈاکٹر تابش مہدی جوار خدا میں!نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی انتقال کرگئے كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕیادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے!فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندویعلم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہوہالو بھروچ میں تین روزہ تبلیغی اجتماع اور اس کی کچھ شاندار جھلکیاں
HIRA ONLINE / حرا آن لائن

HIRA ONLINE / حرا آن لائن

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا - اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

  • Home
  • About us
  • Contact
  • Books
  • Courses
  • Blog
  • قرآن و علوم القرآن
  • حدیث و علوم الحدیث
  • فقہ و اصول فقہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • مضامین و مقالات
    • اسلامیات
    • سیرت و شخصیات
    • فکر و نظر
    • کتابی دنیا
    • سفر نامہ
    • گوشہ خواتین
  • Get Started
08.11.2025
Trending News: تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندویبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانیخلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائقسادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہحلال ذبیحہ کا مسئلہاستاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میںکتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھومفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلیہیرا جو نایاب تھاکتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور عصری آگہی از : مولانا آدم علی ندویمطالعہ کا جنوں🔰دھرم پریورتن، سچائی اور پروپیگنڈهربوبیت الہی کی جلوہ گری از :مولانا آدم علی ندویدیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویبہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے حربےسورہ زمر : الوہیت کا عظیم مظہربھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حجالإتحاف لمذهب الأحناف کی اشاعت: علما و طلبا، شائقینِ علم، محققین اور محبانِ انور کے لیے ایک مژدہ جاں فزااسلامی قانون کے اثرات اور موجودہ دور میں اس کی معنویت: ماہرین قانون کی تحریروں کی روشنی میںحنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھناغیر مسلموں کے برتنوں کا حکم*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_**_عورت و مرد کی برابری کا مسئلہ_*بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین ازدواجی رشتےتم رہو زندہ جاوداں ، آمیں از : ڈاکٹر محمد اعظم ندویاستاذ محترم مولانا نذیر احمد ندویؒ کی وفاتنہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگزڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کی کتاب تاریخ ندوہ العلماء پر ایک طائرانہ نظر!نقی احمد ندویمولانا نذیر احمد ندویاستاد اور مربی کی ذمہ داریانس جمال محمود الشریفتحریری صلاحیت کیسے بہتر بنائیں؟نام کتاب:احادیث رسولﷺ :عصرحاضر کے پس منظر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبتاسلام میں شادی کا طریقہ – مکمل رہنمائیبیوی پر شوہر کے حقوقجدید مسئل میں فتاوی نویسی کا منہج : ایک تعارفنکاح کی حکمت اور اس کے فوائد*_ساتویں مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے سمینار میں_* (١)ندوہ العلماء لکھنؤ میں ساتواں فقہی سیمینار | مجلس تحقیقات شرعیہخیانت کی 8صورتیںکیا موبائل میں بلا وضو قرآن پڑھنا جائز ہے؟اور پِھر ایک دن از نصیرالدین شاہ – نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میںبارات اور نکاح سے پہلے دولہا کا مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اسلامی اعتدال کی شاہ راہ پر چل کر ہی مرعوبیت کا علاج ممکن ہےخطبات سیرت – ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کی سیرت نگاری کا تجزیاتی مطالعہاجتماعی فکر : ترقی کی ضمانتتبليغى جماعت كى قدر كريںماڈرن ’دین ابراہیمی‘ دین الہی کا نیا ایڈیشن"ایک فکشن نگار کا سفر”: ایک مطالعہ ایک تاثریہود تاریخ کی ملعون قومخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں#گاندھی_میدان_پٹنہ_سے_ہندوتوادی_ظلم_کےخلاف باوقار صدائے احتجاج میں ہم سب کے لیے سبق ہے !بابا رتن ہندی کا جھوٹا افسانہتربیت خاک کو کندن اور سنگ کو نگینہ بنا دیتی ہےدار العلوم ماٹلی والا کی لائبریری🔰دینی مدارس کی حفاظت كیوں ضروری هے؟اردو ادب اور فارغین مدارسایک مفروضہ کا مدلل جوابوحدت دین نہ کہ وحدتِ ادیانقربانی، ماحول اور مسلمان: عبادت سے ذمہ داری تک مولانا مفتی محمد اعظم ندویکبیر داس برہمنواد کا باغی اور محبت کا داعیقربانی: مادی فوائد اور سماجی اثراتعشرۂ ذی الحجہ: بندگی کی جولاں گاہ اور تسلیم ورضا کا موسمِ بہارامارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی امارت اور قیادت میں شرعی زندگی گذارنے کا عہد پیمان کیا.امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگالکا قضیہ حقائق کی روشنی میںمیرا مطالعہیہود سے معاہدہ اور نقضِ عہد کی یہودی فطرت وتاریخقلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں🔰بچوں كی دینی تعلیم كا سنہرا موقعدين سمجهنے اور سمجهانے كا صحيح منہجازمدارس اسلامیہ ماضی۔، حال اور مستقبل !خود شناسی-اہمیت اور تقاضےکتاب : یاد رفتگاں"عید مبارک”خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ندنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلامخوشگوار ازدواجی زندگی کے تقاضےوقت کا کچھ احترام کریںاعتکاف مسائل و آدابمدارس اسلامیہ : ضرورت اور تقاضےرمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمالروزے کے فوائدشرائط زکوٰۃقرآن مجید سے تزکیۂ نفسروزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !🔰سیاسی فائدہ کے لئے جھوٹ اور پروپیگنڈانا  فكر اسلامى كا مطالعه كس طرح كريں؟اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نوازکیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی (مصنف و کالم نگار)شعبان المعظم میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟كيا تشبيه/تمثيل دليل ہے؟صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور(جامعۃ العلوم، گجرات کی ایک وجد آفریں محفل قراءت-روداد اور مبارک باد)*اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اعزازات: 25-2024 کا کامیاب انعقاد**ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم* *(مرحوم تابش مہدی کے بارے میں کچھ یادیں)*محسوس ہورہا ہے جوارِ خدا میں ہوں۔۔۔ڈاکٹر تابش مہدی جوار خدا میں!نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی انتقال کرگئے كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕیادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے!فتح مبین از : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندویعلم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہوہالو بھروچ میں تین روزہ تبلیغی اجتماع اور اس کی کچھ شاندار جھلکیاں
  • Home
  • About us
  • Contact
  • Books
  • Courses
  • Blog
  • قرآن و علوم القرآن
  • حدیث و علوم الحدیث
  • فقہ و اصول فقہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • مضامین و مقالات
    • اسلامیات
    • سیرت و شخصیات
    • فکر و نظر
    • کتابی دنیا
    • سفر نامہ
    • گوشہ خواتین
HIRA ONLINE / حرا آن لائن

HIRA ONLINE / حرا آن لائن

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا - اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

  • Get Started

علم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہ

  1. Home
  2. علم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہ

علم و تقویٰ کا حسین سنگم *شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی* رحمہ اللہ علیہ

  • hira-online.comhira-online.com
  • سیرت و شخصیات
  • جنوری 18, 2025
  • 0 Comments

[یومِ وفات 17 جنوری کی مناسبت سے)

(از: (شاہ اجمل فاروق ندوی*(نئی دہلی

جنوری 2020م کو جمعے کے دن عصر کے بعد اپنے دفتر میں مشغول تھا کہ موبائل پر یکے بعد دیگرے بہت سارے پیغام موصول ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے فون اٹھاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ علمی دنیا شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی کی وفات کی خبر پر ماتم کناں ہے۔ کچھ دیر پہلے مولانا اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اپنے نہایت محبوب اور مشفق استاد کی رحلت کی خبر پڑھ کر میں بھی ماتم کنندگان میں شامل ہوگیا۔

مولانا محمد برہان الدین سنبھلی کی پیدائش 5 فرور 1938م کو ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے انھوں نے 82 سال عمر پائی۔ زندگی کے ابتدائی دو چار سال کو نکال دیں، تو اُن کی پوری زندگی تعلیم و تعلم میں گزری۔ 58-1957 میں تقریباً بیس سال کی عمر میں وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ اس سے پہلے وہ ابتدائی تعلیم کے ساتھ قرأت اور حٖفظ قرآن کی تکمیل کر چکے تھے۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد وہ

مدرسہ عالیہ فتح پوری، دہلی میں استاد مقرر ہوئے۔ ایک دہائی تک وہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ساتھ میں دروس قرآن کا عوامی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مفکراسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بھی اِن دروس سے متأثر تھے، اس لیے آگے چل کر اُن ہی کی دعوت پر مولانا سنبھلی 1970م میں دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ تشریف لائے۔ ندوے میں تقریباً نصف صدی تک درس دیتے رہے۔ مختلف اوقات میں متن قرآن، تفسیر بیضاوی، تفسیر کشاف، صحیح بخاری، سنن ابو داؤد، حجۃ اللہ البالغۃ اور افتاء و قضاء کی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ آخری چند برسوں میں اگرچہ عملی تدریس سے سبک دوشی اختیار فرمالی تھی، لیکن احاطہء ندوہ میں قیام کی وجہ سے طالبان علم مستقل استفادہ کرتے رہتے تھے۔ اس طرح مولانا کی زندگی کے بیس سال حصولِ علم اور ساٹھ سال تدریس و تعلیم میں گزرے۔ ساٹھ سال کے عرصے میں تصنیف و تالیف، خطبات و تقاریر، اصلاح و ارشاد، ملی سرگرمیاں اور کانفرنسوں، سمی ناروں میں شرکت بھی جاری رہی۔ پوری زندگی اسلامی تعلیمات سے وابستہ رہ کر طویل زندگی گزارنے کے بعد جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُن کے دامن پر کسی بداخلاقی یا بدعنوانی کے الزام کا دھبا تو دور کی بات ہے، کسی سطحی حرکت کا بھی الزام نہیں تھا۔ آج کے زمانے میں ایسا پاکیزہ کردار کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ استادِ عالی مقام کے اس مثالی کردار کی گواہی عہد جوانی سے اُن کے رفیق اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے قائد اعلیٰ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے بھی دی ہے۔ 2004م میں ندوے سے ہمارے سند فراغ حاصل کرنے کے چند برس بعد ہی مولانا فالج کا شکار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اُن کی تدریسی مصروفیات برائے نام اور پھر ختم ہی ہوگئی تھیں۔ اس لیے اِن برسوں میں اپنا کوئی بھی عزیز ندوے میں زیر تعلیم ہوتا تو میں اس سے ضرور معلوم کرتا تھا کہ مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب سے ملاقات کرتے ہو؟ اکثر جواب نفی میں ہی ملتا اور میں دل مسوس کر رہ جاتا۔ عام طور پر احباب یہ شکوہ کرتے تھے کہ ان کی بات صاف سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن میرا احساس بلکہ اعتقاد تھا کہ ہمارے مولانا علم اور تقویٰ کا خوب صورت سنگم ہیں۔ اُن کی شخصیت میں شریعت و روحانیت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ایسی شخصیات کچھ بولیں اور ہم ان کا کہا سمجھ لیں تو علمی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ کچھ نہ کہیں، خاموش رہیں، یا کچھ کہیں اور ہم سمجھ نہ سکیں، تو بھی ہمارا بیٹھنا روحانی فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔ یعنی ہم ان کے در سے علم یا روحانیت یا دونوں کے ڈھیروں موتی اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتے ہیں۔ اس لیے ایسی شخصیت کی موجودگی کو ہی کافی سمجھنا چاہیے۔ گویا:مے خانے کا محروم بھی محروم نہیں ہےلیکن عام طور پر ہم لوگ یہ حقیقت سمجھ نہیں پاتے اور اس طرح کے بے نظیر افراد کی صحبتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اُن کے جانے پر ہمیں احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ ہم کیسی عظیم نعمت سے محروم ہوچکے ہیں۔پیدا کہاں ہیں، ایسے پراگندہ طبع لوگافسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہیاستاد عالی مقام مولانا محمد برہان الدین سنبھلی قرآن کریم کے متبحر عالم، صحیح بخاری کے نہایت کام یاب استاد، فقہ اسلامی کے ماہر، اسرارِ شریعت کے رمز شناس، متعدد بزرگوں کے تربیت و صحبت یافتہ، کئی نسلوں کے مربی، کئی اہم کتابوں کے مصنف اور شیریں بیان واعظ و مقرر تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انھوں نے کئی دہائیوں تک مسندِ درس کو رونق بخشی۔ اپنے ایامِ تدریس کے آخری برسوں میں اُن کا درسِ حجۃ اللہ سب سے زیادہ مقبول تھا۔ عالمیت کے آخر ی سال میں صحیح بخاری کا درس بھی اُن ہی کے ذمے تھا۔ اِن دونوں کتابوں کو وہ جس شان سے پڑھاتے تھے، وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ ہم اگر اندازے کے لیے اُن کے درس کی کچھ علمی باتیں بیان کر بھی دیں تو اُن کا اندازِ تفہیم، گفتگو کا زیروبم اور آنکھوں اور باتوں کے معنی خیز اشارے کیسے بیان کرسکتے ہیں؟ ان چیزوں کو کسی نہ کسی طرح بیان کر بھی دیا جائے تو اُن کی شخصیت کا ظاہری جمال، نظافت و نفاست، لہجے کی شائستگی اور آواز کی دل کشی کو کیسے بیان کیا جاسکتا ہے؟ غرض یہ کہ اُن کا درس کیسا ہوتا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے اُن کے درس میں جسمانی موجودگی ضروری تھی۔ جن نصیبے والوں کو اس کا موقع میسر آگیا، وہ اللہ کا شکر ادا کریں اور جو اس سے محروم رہے، اُن کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیوں کہ اُن کے درس میں علمی گہرائی وگیرائی، نازک تعبیرات، لطیف اشارات، شائستہ اسلوبی، حسنِ صوت اور مدرس کی ظاہری پاکیزگی اور نظافت مل کر ایک الگ کیفیت پیدا کرتے تھے۔ اس کیفیت کو مجلس میں بیٹھ کر دیکھا تو جاسکتا تھا، الفاظ کے ذریعے پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ بہ قول استاد جگر:جمال رنگیں، شباب رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں1998م میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے وابستگی کے وقت میں صرف تین ناموں سے واقف تھا۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور شیخ التفسیر مولانا محمد برہان الدین سنبھلی۔ کیوں کہ اُس وقت تک مرشد الامت کی شہرت ندوے کے مہتمم اور ادیبِ شہیر کی حیثیت سے تھی، ملت اسلامیہ کے قائد اور ایک عظیم مرشدِ روحانی کی حیثیت سے وہ سامنے نہیں آئے تھے، اس لیے میں ان کے نام، کام اور مقام سے کم واقف تھا۔ دہلی اور اس کے اطراف میں ہونے والے دینی جلسوں کے پوسٹرس کے ذریعے مولانا برہان الدین سنبھلی کا اسمِ گرامی زیادہ سن رکھا تھا۔ اس لیے ان کی زیارت و ملاقات کا شدید اشتیاق بھی تھا۔ندوے پہنچنے کے بعد تکلف کی وجہ سے کئی ماہ تک کسی سے معلوم بھی نہ کرسکا کہ مولانا کون ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ کئی ماہ گزر گئے تو یہ شرم آنے لگی کہ کسی سے پوچھوں گا تو وہ ہنسے گا کہ تم اب تک مولانا کو نہیں جانتے۔ اس گومگو میں کئی ماہ گزر گئے تو میں نے اساتذہ و ملازمین کے مکانات کی جانب کھلنے والے مسجد کے دروازے پر نظریں جمانی شروع کردیں۔ ہر نماز میں پہلے پہنچتا اور اُسی دروازے کے نزدیک بیٹھا رہتا کہ مولانا آئیں گے تو معلوم ہوجائے گا۔ لیکن مولانا بھی دیگر مشاہیرِ ندوہ ہی کی طرح ہٹو بچو کے آدمی تو تھے نہیں۔ اِس لیے اُس دروازے سے مجھے اپنے تصور کے برہان الدین سنبھلی آتے نظر نہ آئے۔ البتہ ایک بزرگ اکثر نظر آتے تھے۔ سردیوں میں سفید رومال لپیٹے ہوئے۔ پرنور چہرہ، سفید رنگ، روشن آنکھیں اور قد درمیانی۔ اکثر میں دیکھتا کہ وہ بزرگ اذان کے آگے پیچھے ہی تشریف لاتے ہیں، ایک مخصوص جگہ اپنے چپل رکھتے ہیں اور تیزی کے ساتھ مسجد کی پہلی صف میں اپنی مخصوص جگہ پہنچ کر مصروفِ عبادت ہوجاتے ہیں۔ ایک دن خیال ہوا کہ کہیں یہی مولانا برہان الدین سنبھلی تو نہیں۔ میں بلاوجہ جاہ و جلال والی شخصیت کا تصور دماغ میں جمائے بیٹھا ہوں۔ کمرے میں اپنے ایک دوست سے اُن بزرگ کا حلیہ بتا کر پوچھا تو اُس نے ایک پہچان اور بتادی۔ کہا کہ انھیں سلام کرکے دیکھنا۔ اگر کھنکتی ہوئی آواز میں بشاشت کے ساتھ جواب دیں تو سمجھنا کہ وہی مولانا ہیں۔ اگلے دن میں مسجد کے باہر میں کھڑا ہوگیا۔ اُن بزرگ کو آتے دیکھا تو آگے بڑھ کر سلام کیا۔ جواب ویسا ہی ملا، جیسا بتایا گیاتھا۔ اب تقریباً یقین ہوگیا کہ وہ مولانا برہان الدین سنبھلی ہی ہیں۔ پہلی یا دوسری ملاقات میں ہی مولانا نے مجھ سے والد محترم کا نام دریافت کیا۔ اس کے بعداُن کی عنایات، شفقتوں اور افادے کا مضبوط سلسلہ شروع ہوگیا۔ سچ یہ ہے کہ استادِ عالی مقام سے مجھے توقع اوراپنی حیثیت سے کہیں زیادہ محبت و شفقت ملی۔ ایسی محبت جو میرے لیے سرمایۂ حیات بھی ہے اور سرمایۂ افتخار بھی۔میں نے معمول بنالیا تھا کہ اکثر عشا کی نماز سے فارغ ہوکر مولانا کے چپلوں کے پاس کھڑا ہوجاتا۔ مولانا تشریف لاتے تو اُن کے ساتھ ساتھ اُن کے گھر تک پہنچ جاتا۔ اسی درمیان اکثر کوئی سوال اُن کی خدمت میں پیش کردیتا تھا اور اس کے جواب کے درمیان حاصل ہونے والے موتیوں سے اپنا دامن بھرتا چلا جاتا۔ اس ذیل میں نہ جانے کتنی قیمتی باتیں ذہن میں گردش کررہی ہیں۔ ان میں سے ہر بات میں مولانا کی مخصوص عالمانہ شان بہت ابھری ہوئی نظر آتی تھی۔مجھے فقہ اسلامی سے خصوصی مناسبت تھی۔ اس لیے عالیہ ثانیہ میں جب ہدایہ اول پڑھنے کا موقع ملا تو میں مولانا برہان الدین سنبھلی ؒ کے پاس پہنچا۔ اپنی دل چسپی اور کچھ دشواریوں کا تذکرہ کیا۔ مولانا نے تین باتوں کی تاکید کی۔ ایک یہ کہ ابن ہمام کی فتح القدیر دیکھنے کا اہتمام کرو۔ دوسرے یہ کہ اُس شرح میں کوئی عبارت سمجھ میں نہ آئے تو اسے لکھ لیا کرو اور مجھ سے پوچھ لیا کرو۔ تیسرے یہ کہ مفتی محمد شفیع عثمانی کی جواہر الفقہ کا سلسلے وار مطالعہ کرتے رہو۔ میں نے ان چیزوں کا اہتمام کرنے کی کوشش کی۔ جواہر الفقہ تو پوری ہی پڑھ ڈالی۔اُس وقت تو اتنا فائدہ محسوس نہیں ہوا تھا، لیکن آج استادِ محترم کی اس رہنمائی کا زبردست فائدہ محسوس ہوتا ہے۔عالیہ رابعہ میں پہنچے توخوش نصیبی سے اُسی سیکشن میں نام آیا جس میں مولانا محمد برہان الدین سنبھلی بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ سال کے ابتدائی ایام میں ہی میں نے مولانا سے دریافت کیا کہ بخاری کی کون سی شرح دیکھنی چاہیے؟ مولانا نے فرمایا کہ اس سال پوری توجہ ترمذی شریف پر رکھو۔ بخاری کے لیے بس میرا درس غور سے سن لیا کرو۔ وہی کافی ہے۔ میں ٹھہرا نرا جاہل۔ مولانا کی یہ بات ہضم نہیں ہوئی تو فتح الباری اور عمدۃ القاری دیکھ کر جانے لگا۔ مولانا کے درس کی یادداشتیں بھی لکھتا رہا۔ چند روز کے اندر ہی معلوم ہوگیا کہ استادِ محترم کے درس میں بہت سادگی کے ساتھ شروحِ بخاری کا عطر آجاتا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی حماقت کے کامل اعتراف کے ساتھ اُن کے مشورے پر عمل کرنا شروع کردیا۔ درسِ بخاری میں بھی مولانا کا البیلا انداز تھا۔ روایت کے ہر اہم لفظ پر رکتے اور فرماتے: ”اس میں دو باتیں یاد رکھو۔“ پورے سال اسی طرح دوباتوں کا ہی سلسلہ جاری رہتا۔ ایک مرتبہ مسکراتے ہوئے فرمایا: ”دو باتیں اس لیے بتاتا ہوں کہ اگر ایک بات بھول جاؤ تو کم سے کم ایک تو یاد رکھو۔“ آج بھی اُن روایات کو پڑھتے ہوئے مولانا کی باتیں اور اُن کا پیارا انداز نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ درسِ بخاری کے اس بے نظیر انداز سے ہمیں معلوم ہوا کہ نصوصِ اسلامی میں عام الفاظ سے کیسے کیسے اہم معانی پیدا کیے جاسکتے ہیں اور اس کے نہج اور حدود کا تعین کس طرح ہوسکتا ہے۔ندوے سے تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد بھی مولانا محمد برہان الدین سنبھلی ؒسے استفادے کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا پر فالج کا حملہ ہونے کے بعد پہلے رمضان میں تکیہ کلاں، رائے بریلی حاضری کی مناسبت سے میں نے مولانا کی عیادت کا بھی پروگرام بنایا تھا۔ دہلی سے لکھنؤ پہنچا اور مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا حسب معمول اپنے گھر کے باہری کمرے میں تشریف فرما تھے۔ میرے سلام کا جواب دیتے ہی فرمایا:”آگئے؟“ میں نے اپنی نالائقی کا اعتراف کیا تو فرمایا: ”اچھا کیا آگئے۔ چراغِ سحری کو دیکھ لو۔“ گھر کے تمام افراد کی خیریت اور تفصیلات معلوم کیں۔ ہمارے نانا ابا شارح ِ علومِ نانوتوی مولانا اشتیاق احمد عثمانی دیوبندی کا تذکرہ آیا تو فرمایا: ”انھوں نے معاش کے لیے فن خطاطی اختیار کیا تھا۔ اس میں بڑے کارنامے بھی انجام دیے۔ پھر یہ فن ہی اُن کی شناخت بن کیا۔ لیکن اس میں اُن کا علم و فضل چھپ گیا۔“ ایک دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد میں نے اجازت چاہی تو فرمایا: ”تمھارے آنے سے بہت خوشی ہوئی۔ کبھی کبھی دیکھ جایا کرو۔“ پھر میرا پروگرام معلوم کیا۔ میں نے بتایا کہ اب رائے بریلی جاؤں گا۔ اس پر فرمایا: ”یا تو افطار تک رکو اور افطار ساتھ کرکے جاؤ، یا مجھ سے پیسے لے کر جاؤ اور افطار میری طرف سے ہی کرنا۔“ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، مولانا نے اپنے پاس رکھا ایک لفافہ اٹھایا اور اس میں سے بیس کا نوٹ نکال کر مجھے دیا۔ مولانا کی محبت میں اُس نوٹ کو میں خرچ نہ کرسکا اور آج تک اُسے سنبھال کر رکھ رکھا ہے۔ہائے افسوس! ہمارے سروں پر شفقت و عنایت کا ایک مبارک سایہ دار درخت نہیں رہا۔ ہم علم و تقویٰ کے ایک ایسے حسین سنگم سے محروم ہوگئے جسے اہل علم اور اہل تقویٰ دونوں کی محفل میں بہ طور سند پیش کیا جاسکتا تھا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔

hira-online.com

،حراء آن لائن" دینی ، ملی ، سماجی ، فکری معلومات کے لیے ایک مستند پلیٹ فارم ہے " حراء آن لائن " ایک ویب سائٹ اور پلیٹ فارم ہے ، جس میں مختلف اصناف کی تخلیقات و انتخابات کو پیش کیا جاتا ہے ، خصوصاً نوآموز قلم کاروں کی تخلیقات و نگارشات کو شائع کرنا اور ان کے جولانی قلم کوحوصلہ بخشنا اہم مقاصد میں سے ایک ہے ، ایسے مضامین اورتبصروں وتجزیوں سے صَرفِ نظر کیا جاتاہے جن سے اتحادِ ملت کے شیرازہ کے منتشر ہونے کاخطرہ ہو ، اور اس سے دین کی غلط تفہیم وتشریح ہوتی ہو، اپنی تخلیقات و انتخابات نیچے دیئے گئے نمبر پر ارسال کریں ، 9519856616 hiraonline2001@gmail.com

پوسٹوں کی نیویگیشن

*جعفر بهائى !**آپ بھی ساتھ چھوڑ گئے -*محمد رضی الاسلام ندوى
یادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے!

Related Posts

سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ
  • hira-online.comhira-online.com
  • نومبر 4, 2025
  • 0 Comments
سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ

سادگی کی اعلیٰ مثال: ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندویؒ از : اسجد حسن شخصیتوں کی پہچان ان کے علم و فضل سے ضرور ہوتی ہے، مگر ان کی اصل پہچان ان کی سادگی، اخلاص اور انسانیت میں پوشیدہ ہوتی ہے ،  انہی سادہ دل، پاکیزہ مزاج اور با اخلاق شخصیات میں ایک روشن نام ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندویؒ (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) کا تھا ابتدائی تاثر اور پہلی ملاقات افسوس کہ مجھے ان سے باقاعدہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن سب سے پہلے میں نے مولانا کو حفظ کے زمانے میں دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ میں "النادی” کے سالانہ پروگرام کے موقع پر دیکھا تھا ،  والد صاحب ( قاضی محمد حسن ندوی) سے ذکرِ خیر سننے اور دیکھنے کے بعد ہی سے مولانا کی شبیہ میرے ذہن و دل میں نقش ہو گئی تھی ۔  بعد میں جب میں مدرسہ سیدنا بلال لکھنؤ میں زیر تعلیم تھا تو مولانا وہاں بھی النادی کے پروگرام میں تشریف لاتے تھے تو وہاں مصافحہ اور مولانا کی گفتگو سنے کا موقع ملتا رہا ، دارا العلوم سے فراغت کے بعد جب میں تدریس کے لیے مدرسہ العلوم علی گڑھ آیا تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی مولانا وقتا فوقتاً پروگرام میں تشریف لاتے رہتے ہیں ، اور  سال گزشتہ بھی مولانا یہاں النادی کے پروگرام میں تشریف لائے تھے ، اس موقع پر بھی مجھے ان سے مصافحہ ، معانقہ اور صدارتی خطاب سنے کا  موقع ملا۔ اسی مختصر مصافحہ اور معانقہ نے میرے دل پر یہ تاثر ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا کہ یہ انسان واقعی سادگی کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔  ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ کے چہرے پر علم کا نور، آنکھوں میں وقار اور گفتار میں ٹھہراؤ تھا ، مگر ان سب کے باوجود ان کی طبیعت میں ذرا بھی تکلف، تصنع یا بڑائی کا شائبہ نہیں تھا،  ان کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ وہ ایک عام انسان کے درمیان ہیں — نہ کوئی فاصلہ، نہ کوئی غرور،  یہی سادگی ان کی سب سے بڑی شان…

Read more

Continue reading
استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں
  • hira-online.comhira-online.com
  • اکتوبر 30, 2025
  • 0 Comments
استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استاد محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویؒ کی یاد میںزین العابدین ہاشمی ندوی (ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)زندگی میں بہت سے چہرے ملتے ہیں، مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں وقت کے دھندلکوں میں بھی ماند نہیں پڑتیں۔ ان کی باتوں کی نرمی، مسکراہٹ کی مٹھاس اور نگاہوں کی شفقت ہمیشہ دل پر نقش رہتی ہے۔ میرے لیے مولانا ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ ایسی ہی ایک شخصیت تھے — علم و حلم کے حسین امتزاج، شفیق استاد، اور سراپا خلوص انسان۔ لمبا قد، گندمی رنگ، سرخی مائل ڈاڑھی، اور چہرے پر سجی ہوئی خوبصورت سنہرے فریم کی عینکیہ مولانا کا وہ دلنشین حلیہ ہے جو آج بھی نگاہوں میں تازہ ہے۔ مگر ان کی اصل پہچان ان کا اخلاق، ان کی نرمی، اور طلبہ سے محبت بھرا برتاؤ تھا۔ وہ نہ صرف علم بانٹتے تھے بلکہ محبت اور اعتماد بھی سکھاتے تھے۔ ان سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہم تخصص فی الادب میں ان سے "تعبیر” پڑھا کرتے تھے۔ مگر اس سے پہلے وہ مجھے تھوڑا جاننے لگے تھے، کیونکہ میں اکثر اپنے دوست عبدالواسع بھائی کے ہاسٹل میں آیا جایا کرتا تھا۔ مولانا وہاں طلبہ سے ملاقات کے دوران اکثر مجھے دیکھ لیتے۔ ایک دن شفقت بھرے لہجے میں پوچھا:“بیٹا! تم کہاں سے آئے ہو؟ کہاں پڑھا ہے؟”میں نے بتایا: “مولانا! ابھی عالیہ ثانیہ میں ہوں، مدرسہ ابو بکر صدیق سے پڑھ کر آیا ہوں، اس سے پہلے سیکروری اور سنبھل میں بھی کچھ سال گزارے ہیں۔”وہ مسکرائے، سر ہلایا اور کہا: “اچھا ہے، تم نے مختلف ماحول دیکھے ہیں، اور کئی کئی گھاٹ کا پانی پیا ہے۔” ایک جمالیہ ہال میں طلبہ کا ایک ادبی پروگرام منعقد ہوا، جس میں مولانا نذیر احمد ندویؒ صدرِ مجلس تھے۔ میں نے اس پروگرام میں جگر کی ایک غزل پڑھی۔ بعد میں کسی موقع پر مولانا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہایت محبت سے پوچھا:“ہم نے تمہیں بزم میں غزل پڑھتے دیکھا تھا، بتاؤ نعت سے زیادہ غزل پر کیوں زور دیتے ہو؟” میں نے مسکرا کر کہا: “مولانا، بڑے…

Read more

Continue reading

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

حالیہ پوسٹیں

  • تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی 07.11.2025
  • بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی 06.11.2025
  • خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق 05.11.2025
  • سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ 04.11.2025
  • حلال ذبیحہ کا مسئلہ 31.10.2025
  • استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں 30.10.2025
  • کتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھو 29.10.2025
  • مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی 29.10.2025

حالیہ تبصرے

  • خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ن از حراء آن لائن
  • خدمت کا درویش، علم کا چراغ(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ)✍🏼: م ، ع ، ن از Technology
  • دنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلام از Business
  • دنیا کی فرضی معاشی اڑان اور اسلام از IT
  • موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس از حراء آن لائن

زمرے

  • Blog
  • اسلامیات
  • سفر نامہ
  • سیرت النبی ﷺ
  • سیرت و شخصیات
  • فقہ و اصول فقہ
  • فکر و نظر
  • قرآن و علوم القرآن
  • کتابی دنیا
  • گوشہ خواتین
  • مضامین و مقالات

Other Story

Blog

تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی

  • hira-online.com
  • نومبر 7, 2025
تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
Blog

بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی

  • hira-online.com
  • نومبر 6, 2025
بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
کتابی دنیا

خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق

  • hira-online.com
  • نومبر 5, 2025
خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق
سیرت و شخصیات

سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ

  • hira-online.com
  • نومبر 4, 2025
سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ
فقہ و اصول فقہ

حلال ذبیحہ کا مسئلہ

  • hira-online.com
  • اکتوبر 31, 2025
سیرت و شخصیات

استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں

  • hira-online.com
  • اکتوبر 30, 2025
استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں
مضامین و مقالات

کتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھو

  • hira-online.com
  • اکتوبر 29, 2025
سیرت و شخصیات

مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی

  • hira-online.com
  • اکتوبر 29, 2025
مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از :  زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی
Copyright © 2025 HIRA ONLINE / حرا آن لائن | Powered by [hira-online.com]
Back to Top