بھول بھولیا دیکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، کیونکہ وہ محض امام باڑہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عام سی عمارت اور محل ہے، ہاں ! کچھ ایسی خصوصیات ضرور ہے جو دیگر تاریخی عمارتوں ومحلات کی بھی ہوا کرتی ہیں، چونکہ میں نے جون 2020 میں لکھنؤ کی زیارت کے وقت بھول بھولیا بھی دیکھ لیا تھا، اس مرتبہ صرف اُچٹتی نظر سے زیارت کرلی۔ نیز اس سے پہلے والے لکھنؤ کے سفر میں مغرب سے لیکر عشاء تک کا وقت تقریبا ” گھنٹہ گھر ” کے گارڈن میں گزارا تھا، لکھنؤ کی شام اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے لطفِ محفل کو دوبالا کردیا تھا، خصوصا یہ وہ وقت تھا جب این آر سی اور سی اے اے کے احتجاجات زوروں پر تھے، لکھنؤ میں گھنٹہ گھر کے پاس جمع ہونے والی خواتین نے گارڈن اور پارک کو تحریک سے وابستہ کرکے ایک تاریخ بنا دیا تھا، لہذا اس سفر میں بھی تقریبا سرسری زیارت کرنے پر اکتفا کر لیا گیا۔

*فرنگی محل*

ملا نظام الدین سہالوی کے نام سے کون ناواقف ہے؟ درسِ نظامی پڑھنے والا ہر طالبِ علم آپ کے نام نامی سے ضرور آشنا ہوگا، آپ کے والدِ گرامی ملا قطب الدین سہالوی کو اپنے علاقہ کے کچھ شرپسندوں نے بےدردی اور بےرحمی سے شہید کردیا، تو آپ کے تینوں صاحبزادے لکھنؤ کی طرف ہجرت کرآئیں، اس زمانہ کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے لکھنؤ میں فرنگی محل کی کوٹھی ان کے نام الاٹ کردی، بہر حال اس خاندان نے صدیوں علمِ دین کی بے لوث خدمت انجام دی ہے، ملا نظام الدین کے نام سے ہی درسِ نظامی کو منسوب کیا جاتا ہے، فرنگی محل میں آپ نے ” مدرسہ نظامیہ ” کے نام سے علمی ودینی مدرسہ قائم فرمایا تھا، جہاں سے چہار دانگِ عالم کے طلبہ آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، ہم نے اس مدرسہ کی قدیم اور بوسیدہ عمارتوں کو دیکھا جہاں صرف خموشی اور ویرانگی کے سوا کچھ نہیں تھا، مدرسہ نظامیہ کے پیچھے جو قدیم مسجد ہے وہاں بھی بہت مختصر لمحہ ٹھہر کے واپس آگئے، ہمارے دماغوں میں فرنگی محل کی علمی جلالت کو دیکھتے ہوئے یہ احساس تھا کہ کوئی عظیم درسگاہ ہوگی، بڑی وسیع وعریض جگہ میں مدرسہ کی تعمیرات پھیلی ہوئی ہوگی لیکن اولا تو لکھنؤ چوک میں مشرقی جانب فرنگی محل کے نام کا بس ایک صدر دروازہ(گیٹ) دکھائی دیا، کچھ دیر تو اس شش وپنج میں تھے کیا واقعی یہی فرنگی محل ہے؟ جس کا کسی زمانہ میں طوطی بولتا تھا، جس نے صدیوں علوم وفنون اور اسلامی تراث کی آبیاری کی ہے، یقین نہیں ہورہا تھا کہ اندر گھس جائے، ممکن ہو لکھنؤ میں کسی اور جگہ فرنگی محل کی حویلی موجود ہو، بالآخر یہی گفتگو میں سوچا کہ آخر اندر جانے میں کیا حرج ہے، فرنگی محل نہ بھی ہوا تو وہاں پوچھ لیا جائے گا۔ اتنی ساری داستان سرائی کا مطلب یہ ہے کہ آج لکھنؤ میں وہ فرنگی محل نہیں ہے جو کتابوں میں ہے، جسے آپ کتابوں میں علمی وفکری دانش گاہ کہتے تھے آج وہ لکھنؤ کا چوک محلہ ہے، فرنگی محل کا بس نام رہ گیا ہے، ہم نے کوئی علمی آثار نہیں پائے اور زبانِ حال سے یوں کہہ کر واپس ہوئے کہ چلئے کتابوں میں ہی فرنگی محل کی زیارت کرلیں گے۔

*مولانا عبد الحئی لکھنوی فرنگی محل*

فرنگی محل کی سرزمین پر بے شمار علم وہنر کے ستارے نیّرِ تاباں بن کر ابھرے، ملا نظام الدین، ملا کمال، ملا عبدالعلی بحر العلوم ; غرض ہر ایک نے اپنی علمی جلالت کا لوہا منوایا ہے۔ ان میں وہ ستارہ جو انتہائی روشن، تابناک اور نمایاں بن کر ابھرا اور جس کی شجرہائے سایہ دار آج بھی ایک امت مستفید ہورہی ہے، وہ ابوالحسنات علامہ عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی ہے، آپ منہجِ ولی اللہی کے موزوں ترین امین تھے، حدیث اور فقہ میں آپ کو یدِ طولی حاصل تھا، حدیث وفقہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ہموار کئے ہوئے منہج کے عین مطابق تھے، آپ لکڑ پتھر حنفی اور شدید قسم کے مقلد بھی نہیں تھے کہ اپنی تحقیق کے بعد صحیح حدیث مل جانے پر بھی یہ رٹ لگائے رہے کہ : ” مُرا از حدیث چہ کار قولِ ابی حنیفہ بیار”( استغفراللہ )۔ اس کے باوجود فقہی بصیرت اور اجتہادی فکر وسوچ کے حامل تھے، اپنی کتابوں میں اجتہادانہ بصیرت کے ساتھ کلام کیا ہے، جہاں جس کے نقطۂ نظر میں ذرہ بھر کمزوری وضعف محسوس ہوا انگلی رکھ کر نشاندہی فرمائی، جس کی تحقیق کو دلیل وبرہان کی بنیاد پر قوی محسوس کیا ببانگِ دہل اور بلا خوف لومۃ لائم اس کا اظہار کیا۔

گرچہ عمرِ عزیز کی بہاریں بہت کم دیکھنا نصیب ہوا ورنہ علم وہنر کا یہ ستارہ معلوم نہیں کب، کہاں اور کس آب وتاب سے غروب ہوتا ؟ شمسی کیلینڈر کے لحاظ سے صرف 38 سال 2 ماہ اور 3 دن کی عمر پائی لیکن اتنی مختصر سی مدت میں بڑی چھوٹی سو سے زائد گراں قدر تصنیفات امت کی نذر کی۔ صرف علوم الحدیث اور فقہ میں آپ کی تصنیفات پچاس سے زائد ہے، شام کے مشہور محقق شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ نے آپ کی بہت ساری کتابوں پر تحقیقی کام کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

” جب بھی ان بڑے بڑے مصنفوں کا ذکر کیا جائے گا جن کی تصانیف سو سے زیادہ متجاوز ہیں تو بلاشبہ امام عبد الحئی لکھنوی کا ذکر سرِ فہرست ہوگا، اس لئے کہ ان کی تصانیف کی تعداد ایک سو چودہ تک پہنچ گئی ہے، اور اگر ان کی مختصر عمر کی نسبت سے ان کی تصانیف کا حساب کیا جائے گا تب تو یہ بہت زیادہ ثابت ہوگی ”

علامہ سید سلیمان ندوی نے آپ کی تحقیقات کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے :

” یورپ میں قلمی کتابوں کو ایڈٹ کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے اور جس طرح وہ مختلف نسخوں کی فراہمی، تصحیح اور ساتھ ہی مصنف اور تصنیف کے متعلق ہر قسم کی معلومات مقدمہ میں فراہم کرتے ہیں، مولانا عبد الحئی فرنگی محل نے یورپ کے طریقہ کار کی طرف پہلے ہی توجہ کی اور بالکل اسی طرز پر بلکہ اس سے بہتر انداز میں انجام دیا،علامہ فرنگی محلی کی معرکۃ الآراء کتابوں میں النافع الکبیر فی مقدمۃ الجامع الصغیر، الرفع والتکمیل، الاجوبۃ الفاضلۃ، التعلیق الممجد جیسی کتابیں ہیں۔

درسی کتابوں پر علامہ فرنگی محلی کے حواشی خصوصا : ہدایہ پر مذیلۃ الدرایہ، شرح وقایہ پر مقدمہ السعایہ فی کشف ما فی الوقایہ اور عمدۃ الرعایہ، اور مؤطا امام محمد پر التعلیق الممجد سے بحمد اللہ استفادہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ الحمد للہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے سال میں الاجوبۃ الفاضلۃ کا مطالعہ کا موقع میسر آیا تھا، اصولِ حدیث سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لئے یہ کتاب نہایت اہم اور غیر معمولی ہے، صحیح وضعیف احادیث کی شرائط، کیا اسناد دین میں سے ہے؟ اس کتاب میں حدیث سے متعلق دس سوالات کا محدثانہ اسلوب میں نہایت شاندار جوابات دیئے ہے۔