ظہر کی نماز باجماعت یونیورسٹی کی جامع مسجد میں ادا کرچکنے کے بعد لکھنؤ کے لئے روانہ ہونے کا وقت آگیا، دوپہر ساڑے تین بجے کے قریب آنے والی ٹرین سے جانے کا ارادہ تھا، بد قسمتی یہ کہ کنفرم ٹکٹ ملا بھی نہیں اور لینے کی کوشش کی بھی نہیں، پھر تو وہ سب ہوا جو نہیں ہونا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے جنرل ٹکٹ لینے کو تو لے لیا، لیکن جیسے ہی چُھک چُھک کرتی ٹرین رُکی دل میں دَھک دَھک سا ہونے لگا، ازدحام، بھیڑ بھاڑ ، ہجوم، جمگھٹ، انبوہِ کثیر، غرض پوری ٹرین انسانیت سے کھچا کھچ بھری پڑی تھی، بیچارے رفقاء ابتداء تو ایک دوسرے کو دھیمے دھیمے لہجہ میں صلواتیں سناتے ہوئے ڈبہ میں چڑھ گئیں، لیکن وہاں قدم رکھنا تو کُجا سانس لینے کی بھی جگہ نہیں تھی، ناک اپنا کام کریں تو بدبو سے ماؤف ہوجائے، منھ سے جباہی لیں تو پسینہ کی کھٹاس سے بند کرنا پڑیں، خدا خدا کرکے ٹرین کو چھوڑ دینے میں ہی عافیت سمجھی اور ڈبہ سے اتر گئے۔ لیکن لمحہ بھر میں عزم وارادہ کا بدلنا، رائے پر نظرِ ثانی کرنا کوئی انسان ہی سے سیکھے، غور کیا مشورہ ہوا یہ طے پایا کہ کچھ بھی ہوجائے اسی ٹرین سے لکھنؤ جانا ہے، لہذا دوبارہ دوسرے ڈبہ میں چڑھ گئے ، دھیمے دھیمے لہجہ سے آگے بڑھ کر چلچلاتی گرمی میں کچھ بلند آواز میں ملامت، فضیحت اور ایک دوسرے پر سرزنش ہونے لگی، مئی مہینہ میں دوپہر کی چلچلاتی دھوپ اور یوپی کی گرمی ایک طرف۔ بھیڑ بھاڑ، ازدحام اور ہجوم الگ رہا، اس پر مستزاد یہ کہ شدید گرمی میں خُراماں خُراماں چلتا ہوا پنکھا بھی بند ہوگیا، کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، سامان اور بیگ ابھی تک ہاتھوں میں ہے، دو ڈبوں کے درمیان کی گلی میں محض قدم رکھنے کی سعادت ملی، دو تین گھنٹہ اسی حال میں گزار کر کچھ جگہ میسر آئی۔ بہر حال کچھ گھنٹوں کے بعد بیٹھنے کی کچھ سہولت میسر آئی لیکن بجلی پنکھا ابھی تک بند ہی تھا جو رات دس بجے لکھنؤ پہنچنے سے کچھ ہی دیر پہلے چلنا شروع ہوا، گویا اس پورے سفر میں رخصت کا ذرہ برابر احساس نہیں بلکہ عزیمت ہی کا درس حاصل کرتے ہوئے لکھنؤ پہنچنا نصیب ہوا۔ لکھنؤ میں برادرِ گرامی مولانا محمد ندوی کے استاذ ڈاکٹر اسلم صاحب سے رابطہ ہوا، انہوں نے ” اندھے کی چوکی "ندوۃ العلماء معہد سکروری” میں قیام وطعام کا دل کھول کر انتظام کر رکھا تھا، اللہ تعالٰی ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے ! آپ نے بڑی خندہ پیشانی اور وسعتِ قلبی کے ساتھ خاطر داری کی اور مہمان نوازی کے فرائض انجام دئے، خوانِ عشائیہ ہمارے استقبال میں بچھا جاچکا تھا، رات ندوۃ العلماء معہد سکروری میں گزاری اور الحمد للہ ساری تھکن ہِرن ہوگئی، صبح کا ناشتہ لکھنوی انداز کے مطابق اتنا دلچسپ، لذیذ اور فرحت بخش تھا کہ دل خوش ہوگیا، سب سے پہلے آم کا جوس ; ملیح آباد لکھنؤ کے دسہری آم کا لطف ہی نرالا ہے، خصوصا مئی مہینہ کی گرمی اور لکھنؤ کی صبح کے امتزاج میں آم کے مزے کو بیان کرنا گرفت سے باہر ہے، بَن مکھن ، دَہی اور چائے کا لطف بہت دلچسپ رہا۔ *شہرِ سُخن لکھنؤ میں* لکھنؤ صرف اس شہر کو نہیں کہا جاتا جو گومتی ندی کے کنارے بسا ہوا ہے، بلکہ لکھنؤ ایک تہذیب ہے، لکھنؤ ایک روایت ہے، لکھنؤ علم وادب کا گہوارہ ہے، مدتوں لکھنؤ نے اردو ادب کی آبیاری کی ہے، یہاں کے شعراء، ادباء اور اہلِ قلم نے اردو زبان کو اپنی گود میں پالا ہے، اردو لکھنؤ کی روایت میں پروان چڑی ہے، شعراء لکھنؤ کی زبان وبیان کے لئے خدمات نہایت گراں قدر ہیں، لکھنؤ کے ” نواب آصف الدولہ ” سے لیکر ” نواب واجد علی شاہ ” تک ہر ایک نے اردو زبان وادب کی بہترین خدمات انجام دی ہیں، شاعری میں دبستانِ لکھنؤ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، لکھنؤ کے شعراء نے اپنے شعر وسخن سے محفلوں کو نغمہ ریز بنا دیا تھا۔ شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز کا، کسی واقعہ کا، کسی حالت کا، کسی کیفیت کا اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، سبزے کی لہک، پھولوں کی مہک، خوشبو کی لپٹ، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈ، صبح کی شگفتگی، شام کی دل آویزی، یا رنج وغم، غیظ وغضب، جوش ومحبت، افسوس و حسرت، عیش و طرب، استعجاب و حیرت، ان چیزوں کا اس طرح بیان کرنا کہ وہی کیفیت دلوں پر چھا جائے، اسی کا نام شاعری ہے۔اس کے ساتھ الفاظ میں فصاحت، سلاست، روانی، بندش میں چستی اور چستی کے ساتھ بےتکلفی، دل آویزی اور برجستگی، لطیف اور نازک تشبیہات اور استعارات، اصولِ بلاغت کے مراعات ہو تو نور علی نور۔ یہ تمام محاسنِ زبان وبیان لکھنوی شعراء کے کلام میں موجود ہے۔ میر انیس لکھنؤ کے وہ شاعر ہے جنہوں نے اردو شاعری کو صنفِ رثائی سے مالامال کردیا ہے، میر انیس نے مرثیہ گوئی میں وہ کمال حاصل کیا کہ آج بھی میر انیس چند بہت زیادہ پڑھے جانے والے شعراء میں سے ایک ہے، ایک عرصہ تک صنفِ غزل ہی کو شاعری کا حُسن سمجھا جاتا تھا لیکن میر انیس نے اپنی مرثیہ گوئی سے اس فن کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا۔ میر انیس نے اپنے مرثیہ میں ; جس وقت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کربلا کی طرف جارہے ہیں اس کی یوں منظر کشی کی ہے ; فرزندِ پیمبر کا مدینے سے سفر ہے سادات کی بستی کے اُجڑنے کی خبر ہے در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر ہے گل چاکِ گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے مرثیہ میں میر انیس کے ساتھ مرزا سلامت دبیر بھی کچھ پیچھے نہیں ہے، مرزا دبیر اپنے مرثیہ گوئی کے فن میں معروف تھے جبکہ میر انیس مرثیہ خوانی میں یدِ طولی رکھتے تھے، رفتہ رفتہ ان دو شاعروں کے دو گروپ بن گئے اور ان دونوں کی آپس میں بہت گہری چشمک رہا کرتی تھی، عظیم نقاد علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے ” موازنہ انیس ودبیر ” لکھ کر دونوں شاعروں کے درمیان موازنہ کیا ہے، اور علامہ نے میر انیس کو مرزا دبیر سے محاسنِ شعر اور مرثیہ گوئی میں اعلی قرار دیا ہے، شبلی کی یہ کتاب اردو ادب اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والے ہر باذوق طالب علم کو ضرور پڑھنی چاہئے۔میر انیس اور مرزا دبیر کے علاوہ لکھنؤ کے شعراء میں امام بخش ناسخ، غلام ہمدانی مصحفی، خواجہ حیدر علی آتش اور انشا اللہ خاں انشا جیسے شعراء پیدا ہوئے ہیں۔ لکھنؤ نے نظم کے ساتھ ساتھ نثریہ خدمات سے بھی اردو زبان کو مالا مال کردیا ہے، جس نے بھی مرزا رجب علی بیگ سرور کا ” فسانۂ عجائب ” پڑھا ہے وہ لکھنوی اردو سے جھوم جھوم جاتا ہے، فسانۂ عجائب زبان وبیان، مترادفات اور مسجع ومقفی تعبیرات کی وجہ سے میری پسندیدہ کتابوں میں سے ہے۔