لائبریری اور کتب خانے ایک تمدن کی زینت ہوتے ہیں، جوں ہی کتب خانے رُو بزوال ہوتے ہیں تو تمدن بھی اجڑنا شروع ہوجاتا ہے، اس طرح رفتہ رفتہ کتاب پڑھنے والے معاشرہ سے ختم ہوجاتے ہیں، چنانچہ ہم نے مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی وہاں کی لائبریری دیکھنے کا قصد تھا جو ’’مولانا آزاد لائبریری‘‘ کے نام سے موسوم ہے، چونکہ راقم الحروف اور رفیقِ سفر مولانا سیف اللہ صاحب کو کتابوں کی لاعلاج بیماری لگی ہوئی ہے اور طُرفہ تماشا یہ کہ اس بیماری پر بجائے علاج کرنے کے فخر محسوس کررہے ہیں، اس لئے جہاں کتاب دیکھی عشق ہوگیا، دل دے بیٹھے، اس سے باتیں کرنا شروع کرلیا، اس کے ساتھ محبوبہ کی طرح عمر بھر کا عہدِ وفا باندھنے کا عزم کرلیا، جیسے ہی یہ سب احوال طاری ہوتے رفقاء سفر متنبہ کرتے، عشق لڑانے سے انکار کرتے، عہدِ وفا کو عمر بھر کے بجائے محدود کرلینا پڑتا اور دل واپس لے آتے ۔ہا۔۔ہا۔۔ بہر کیف احباب کو اس بیماری کا شدید خطرہ تھا کہ کہیں یہ بیماری ناسور بن کر درازیِ وقت کا باعث نہ بن جائے جو اس سفر کے لیے محدود ہے،شاعر نے خوب کہا ہے؛

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مریں ہیں

کیٹلاگ سازی

لائبریری میں داخل ہوتے ہی اندر کی گلیوں میں داہنی جانب کیٹلاگ کی الماریاں رکھی ہوئی ہیں، موجودہ زمانہ میں کمپیوٹر جیسے وسائل نے کام بہت آسان کردیا ہے، لیکن جس زمانہ میں ان جدید وسائل وذرایع کا عام رواج نہیں تھا اس وقت لائبریری میں کیٹلاگ سازی کا نظام کافی خوبصورت انداز میں ہوتا تھا، آج بھی لائبریری میں وہ یادگار موجود تھی۔ اس کی ترتیب یہ تھی کہ ایک شعبہ کے لئے لکڑی کی ایک تجوری ہے، جس میں چھوٹے چھوٹے ڈبّے (گلّہ) رکھے ہوئے ہیں، ہر ڈبہ میں بہت سارے کارڈ ہے، ہر کارڈ پر مستقل ایک کتاب کی تفصیل درج ہوتی ہے ; نام کتاب، مصنف کا نام ، طباعت وسن طباعت، ناشر، کتاب کہاں سے دستیاب ہوئی۔الغرض ہر ڈبہ الماری کے ایک خانہ کی نمائندگی کررہا تھا، یہ سسٹم دیکھ کر پرانی یاد تازہ ہوگئی۔

لائبریری میں چار ڈپارٹمنٹ میں وقت گزارنے کا موقع ملا ؛
(۱) اردو کتابوں کے لیے: اس شعبہ میں اردو زبان وادب کے لٹریچر سے الماریاں بھری ہوئی تھی، اردو زبان کے مختلف شعبوں کی الماریاں کتب خانہ کی زینت کو دوبالا کر رہی تھی، ایک طرف ناول، فکشن،افسانہ، شاعری، تنقید، سوانح اور تاریخ کی کتابیں بہت قرینے کے ساتھ الماریوں میں رکھی ہوئی تھی۔ لیکن ہماری نگاہ اس ادبی وتاریخی ورثہ کی طرف جالپکی جس کے صفحات فرسودہ اور نیم مردہ ہوچکے تھے، بےچاری کتابیں اپنے قاری کی تلاش میں دم توڑ رہی تھی، وہ تھی رسائل وجرائد کی الماریاں؛ اردو ڈپارٹمنٹ کا نصف حصہ رسائل وجرائد کی الماریوں پر مشتمل تھا، وہی الماریاں ہماری زیارت کا محور بنی رہی، ایک ایک الماری کو غور سے دیکھا، ماہناموں، روزناموں، سالناموں، سہ ماہیوں پر مشتمل یہ رسائل جرائد کا سلسلہ مجلد شکل میں محفوظ کرلیا گیا تھا، حوادثِ زمانہ کی وجہ سے صفحات کا رنگ ایسا ہوگیا تھا گویا کہ ابھی ابھی ان صفحات کو آگ پر سیکا گیا ہو۔

وہ رسائل جس سے ہم واقف ہیں اور کبھی کبھی ریختہ کی ویب سائٹ سے اس کی زیارت ہوتی رہتی ہے؛ آج اپنی اصلی صورت میں ہمارے سامنے تھے، خصوصا ؛ ’’القاسم‘‘ کے شمارے جو کسی زمانہ میں علامہ حبیب الرحمن عثمانی ؒ کی ادارت میں اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی سرپرستی میں دار العلوم دیوبند سے نکلا کرتا تھا، حسنِ اتفاق سے شعبان المعظم ۱۳۲۸ ھ کا وہ شمارہ ہمارے ہاتھ لگا جس میں ’’ عظمتِ وحی‘‘ کے عنوان سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ کا مضمون۔ ’’ طریقِ اصلاحِ انقلاب‘‘ اور ’’ فوٹوں کے متعلق ضروری تنبیہ‘‘ کے عنوان سے حکیم الامت مولانا تھانوی ؒ کے مضامین۔ ’’ فلسفہ اور علم کلام ‘‘ کے عنوان سے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا مضمون شامل تھا۔

ماہنامہ البرہان دہلی، ترجمان القرآن لاہور، الفرقان لکھنؤ، سب رس حیدرآباد، ماہنامہ نگار جیسے شمارے فائلوں میں مدفون تھے، ماہنامہ فاران کراچی جو حضرت ماہر القادری ؒ کی ادارت میں بڑی آب وتاب سے نکلا کرتا تھا، اس رسالہ کا تبصراتی عنوان ’’ ہماری نظر میں‘‘ خاصہ کی چیز ہوا کرتی تھی۔

ان رسائل میں وہ رسائل بھی تھے جس کا ہر ہر شمارہ بحمد اللہ زیرِ مطالعہ رہ چکا ہے، اب اس کی زیارت کے لیے ہماری نگاہیں بے تاب وبے چین تھی، لیکن بدقسمتی یہ کہ ہم اس کو تلاش نہیں کر پائے، تو ہم نے نگرانِ کتب خانہ سے ’’ماہنامہ تجلی دیوبند‘‘ کی فرمائش کی ، وہ رسالہ دیکھا تو دل خوش ہوگیا ۔تبصراتی کالم’’ کھرے کھوٹے‘‘ ۔ مزاح آمیز طنزیہ کالم ’’مسجد سے میخانہ تک‘‘۔ فتویٰ کا کالم ’’ تجلی کی ڈاک‘‘۔ صحیح مسلم کے کتاب الایمان کی شرح پر مشتمل ’’ تفہیم الحدیث‘‘ کا سلسلہ۔ مولانا شمس نوید عثمانی ؒ کا درد انگیز کالم ’’ کیا ہم مسلمان ہیں؟ ‘‘۔ اور مولانا عامر عثمانی کا اداریہ ’’آغاز ِ سخن‘‘ دیکھ کر تو دل مچل گیا، جس رسالہ کو ابھی تک آن لائن اور سافٹ شکل میں پڑھا تھا آج وہ ہارڈ کاپی کی شکل میں ہمارے سامنے تھا۔ مولانا عامر عثمانی ؒ کا وہی طنزیہ اسلوب، وہی اندازِ نگارش ، وہی شاعرانہ ذوق پوری طرح جلوہ گر تھا۔

حقیقت میں بدلے سرابوں کی دنیا
بڑی دلنشیں ہے کتابوں کی دنیا

بہر حال آخر میں نگرانِ کتب خانہ سے کافی دلچسپ ملاقات رہی، ایک خاتون نگران نے بڑی دلچسپی دکھائی جس سے زیارت کافی مفید رہی، آخر میں افسوس وغم کے ملے جلے جذبات سے اس حال میں باہر نکلے کہ کاش کوئی محقق آتا جو ان دفینوں سے علمی لعل وگوہر کو ایک بار پھر امت کے سامنے لے آتا، ورنہ اس طرح پڑی پڑی کتابیں دیمک کی نذر ہوجائے گی، اسی خدشہ کا اظہار ڈاکٹر اقبال نے ان الفاظ میں کیا تھا؛
مگر وہ علم کے موتی،کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

(2) سر سید ڈپارٹمنٹ : اس شعبہ میں داخل ہوتے ہی ایک شعر پر نظر پڑی جس میں واقعی سر سید کے کارناموں اور ان کی خدمات کو تخیل کا جامہ پہنایا ہے؛

شام در شام جلیں گے تری یادوں کے چراغ
نسل در نسل ترا درد نمایاں ہوگا

یہاں ہمیں نگرانِ شعبہ نے بھرپور ساتھ دیا اور سرسید کے متعلق بیش بہا خزانوں کی زیارت کروائی، سر سید کے زمانہ میں آپ کی ادارت میں نکلنے والا اخبار ’’علیگڈھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘‘ کی بےشمار فائلیں موجود تھی، اگرچہ اس کے صفحات نہایت بوسیدہ ہوچکے تھے، لیکن شکریہ ہے یونیورسٹی کے ذمہ داروں کا جنہوں نے اس کی حفاظت کے لیے انتظام کیا، نگران کی اطلاع کے مطابق جس کاغذ میں اس کی حفاظت اور زندگی کو بڑھایا گیا تھا وہ جاپان سے منگوایا جاتا ہے، یوں ان اخبار اور کتابوں کی حفاظت کا سامان مہیا کیا گیا تھا۔

(3)آخر میں عربی کتب کے شعبہ میں گئے لیکن مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے نگران نے ناک بھویں چڑھا رکھی تھی، ہم کو دیکھ کر ساتھ دینے کے بجائے منھ بسورا، کتاب کو ہاتھ لگانا تو کُجا اپنے سے بھی ہاتھ لگانے (ملاقات) نہیں دیا، عربی کے شعبہ میں ہم بڑی خوشی خوشی جارہے تھے کہ زبانِ رسالت ہے، زبانِ قرآن ہے اور اسلام کا علمی سرمایہ سب سے زیادہ اسی زبان میں موجود ہے، ان حضرت کو چاہئے تھا کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیاروں کے زمانہ میں علم ومطالعہ کے چاہنے والوں کا دیدہ ودل فرشِ راہ استقبال کرتے، ان کے لیے چائے اور کافی کا انتظام کرتے ، بہر حال محض چائے وکافی کی آرزو لئے شعبہ سے باہر آگئے۔

حسین احمد امینی ندوی

مولانا محمد تقی امینی ؒ کو فقہ اسلامی سے تعلق رکھنے والا ہر صاحبِ علم جانتا ہے، آپ مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ دہلوی ؒ کے شاگرد رشید تھے، مولانا کی شخصیت کو میں نے ان کی کتابوں ؛ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت، اجتہاد کا تاریخی پس منظر اور حدیث کا درایتی معیار کے حوالے سے جانتا تھا، لہذا مسلم یونیورسٹی علیگڈھ میں مولانا امینی ؒ کے قریبی نواسہ ’’ مولانا حسین احمد امینی ‘‘ سے پرانے مراسم تھے، ان سے ملاقات کرکے بہت دل خوش ہوگیا، یونیورسٹی کے اسلامیات، دینیات اور قرآنک اسٹڈیز کا بھر تعارف ملا، اللہ تعالی مولانا حسین امینی کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

قرآنک اسٹڈیز

پروفیسر عبد الرحیم قدوائی صاحب اس شعبہ کے ہیڈ ہیں جو مشہور مفسرِ قرآن اور ادیب شہیر مولانا عبد الماجد دریابدی ؒ کے نواسہ ہیں، آپ علوم القرآن اور قرآنیات سے بے حد شغف رکھتے ہیں، ان سے ملاقات کی بے حد خواہش تھی لیکن وہ پوری نہ ہوسکی، بہر حال اس شعبہ میں داخل ہوئے ، یہاں کی لائبریری کی زیارت کی، تقریباً تمام کتابیں علومِ قرآنی پر مشتمل تھی، علومِ قرآنی کا اتنا سارا ذخیرہ ایک ہی کتب خانہ میں دیکھ کر دل مسرت وشادمانی سے جھوم اٹھا۔ اس شعبہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پروفیسر قدوائی صاحب کی زیرِ نگرانی بےشمار قرآنی مقالات شائع ہوچکے ہیں، ان میں مدرسۃ الاصلاح کے فضلاء کی قرآنی خدمات پر کافی مفید اور کار آمد کتابیں دیکھنے کو ملیں۔

قرآنک اسٹڈیز کی لائبریری میں پروفیسر رفیق احمد رئیس سلفی صاحب سے ملاقات ہوئی، ان سے تھوڑی دیر علمی گفتگو کرنے کا موقع ملا، انہوں نے اپنے مخصوص سلفی مزاج کے مطابق کافی دلچسپ باتیں بھی کی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ’’الحیلة الناجزة للحلية العاجزۃ ‘‘ کے متعلق بہترین کلماتِ تشکر ارشاد فرمائے، اور موجودہ زمانہ میں دار القضاء سے متعلق عورتوں کے ضروری مسائل پر بات ہوئی، مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعہ ‘‘ کے بارے میں انہیں جو تحفظات تھے ؛ اس کا بھر پور انداز میں رد کیا، بہر صورت ملاقات کافی دلچسپ اور مفید رہی۔

اس کے بعد ہم ’’ سر سید ہاؤس‘‘ تشریف لے گئے، وہاں سید صاحب کے متروکات وبقایات کو کاچ کی الماریوں میں سجا کر بطورِ زیارت رکھا گیا تھا، اس میں ان کا عصا، کرتا، مطالعہ کی میز، ڈنر سیٹ وغیرہ ۔ دوسرے کمرے میں آپ کو لکھے گئے دیگر علماء کے خطوط یا آپ کے لکھے ہوئے خطوط کی اصل کاپیوں کو محفوظ کیا گیا تھا۔ سر سید ہاؤس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہاں ایم – پی سے تعلق رکھنے والی ادب نواز خاتون شمس النساء سے گفتگو ہوئی، وہ بے چاری صنفِ نازک ہونے کے باوجود امت کے درد وکرب سے پوری طرح جھونج رہی تھی، انہیں یہ احساس کھائے جارہا تھا کہ یہ امت علم وکتاب سے کب تک رشتہ ترک کئے ہوئے رہے گی، دار العلوم دیوبند سے اپنے جذبات میں کافی حساسیت لیے ہوئے تھی، یہاں تک کہ لوگوں کی علماء امت سے ناقدری کو بیان کرتے ہوئے آنکھیں چھلک پڑی، تھوڑی دیر تک ماحول میں سنجیدگی ومتانت طاری ہوگئی ،اور ہاں ! ان کے شاعرانہ ذوق ، ادبی گفتگو اور مولانا عامر عثمانی ؒ کا ذکر سن کر بے اختیار ہم سے دادِ تحسین وصول کرلیا۔

سید کی تربت پر

یونیورسٹی کے احاطہ میں کھانا کھانے کی کوئی حاجت نہیں ہوئی کیونکہ بھوک کا ذرہ برابر احساس ہی نہیں ہوا، اب مجھے نہیں معلوم کہ ہم علمی مصروفیات میں پیٹ کے نظام ہی سے غافل ہوگئے تھے یا ہماری کرامت تھی۔ چانکہ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا، لہذا یونیورسٹی کی جامع مسجد میں تمام رفقاء نے باجماعت ظہر کی نماز ادا فرمائیں، یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ پوری مسجد عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، ماشاء اللہ عصری تعلیم حاصل کرنے والوں میں بھی نماز کی یہ اہمیت دیکھ کر ان بے چارے لوگوں پر ترس آیا جو معمولی معمولی اعذار کی بنیاد پر نماز تک ہی کو چھوڑ دیتے ہیں، سر سید ؒ ہی کی یہ خواہش تھی کہ کالج میں پڑھنے والے طلبہ میں دینی مزاج اور تربیت پیدا ہوجائے ، اس کےلیے وہ یونیورسٹی کے طلبہ میں نماز باجماعت کا خوب اہتمام کراتے تھے، اسی کے بارے میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے لکھا ہے؛

’’ وہ یونیورسٹی میں طلبہ سے نماز باجماعت کااہتمام کراتے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے داہنے ہاتھ میں قرآن ہو، بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ‘‘۔(وہ جو بیچتے تھے دوائے دل،۸۵)

سر سید احمد خاں مرحوم کا انتقال ۵ ؍ ذو القعدہ ۱۳۱۵ ھ کو ہوا تھا، آپ کی قبر جامع مسجد ہی کے احاطہ میں داخل ہوتے ہوئے داہنی جانب ہے، سر سید ایک عظیم انسان اور ثابت قدم رہنما تھے، علیگڈھ مسلم یونیورسٹی آپ کے کارناموں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ جب سر سید کی قبر پر حاضر ہوئے تو ’’ سید کی لوحِ تربت‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی ہے؛ جس میں سر سید نے قبر سے اقبال ؒ کے واسطے امت کو پیغام پہنچایا ہے، لہذا سر سید علماء کو ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں؛

• مدعا اگر تیرا دنیا میں ہے تعلیم ِ دیں
ترک ِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

• وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں

• وصل کے اسباب پیدا ہو تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے

محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ

(۱) اگر آپ حضرات اپنی قوم کو دینی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیجئے،لیکن دین کے ساتھ دنیا کی اہمیت بھی ان کے سامنے اجاگر کیجئے۔

(۲)فرقہ بندی سے اجتناب کرنے کی تلقین کیجئے کیونکہ فرقہ بندی سے قوم تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔

(۳)تصنیف وتالیف میں کسی کی دل آزاری نہ ہو؛ اس کا خوب خیال کیجئے ورنہ تصنیف کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔

(۴)ان باتوں کو موضوع ِ بحث ہرگز نہ بنائیں جو گزر چکی ہیں اور اس کے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

(جاری)