تاج محل کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہو جانے کے بعد ظہرانہ کے لئے جناب ظل الرحمن صاحب کے دولت کدے کے لئے روانہ ہوگئے، بہر حال مہمان خانہ پہنچے تو چند ساعات ٹھہرنے کے بعد کھانے کے لئے بلادئے گیے، کھانا تو کھایا جو کھایا، اس کے بعد ظہر کی نماز کے لئے مسجد روانہ ہو گئے، نماز سے فراغت کے بعد اگلی منزل علیگڑھ کے لئے روانہ ہونے کی پلاننگ ہوئی، اس میں یہ طے پایا کہ چار بجے چلنے والی اے- سی بس سے علیگڑھ کے لئے روانہ ہونا ہے، بہر حال اس بس میں بیٹھنے ہی والے تھے کہ آگرہ کی معروف میٹھائی جسے ” پیٹھے” کہا جاتا ہے لے لیا، میٹھا کھاکر سوگئے، پھر اٹھے دوبارہ ناشتہ کیا، ان سب ناز نخروں میں غروب کے وقت علیگڑھ تھے، یہ تھے آگرہ میں گزارے ہوئے آخری لمحات اور علیگڑھ کی آمد آمد ! علیگڑھ آنے سے قبل ہی ہم نے عزیز دوست اور رفیقِ درس مفتی اسجد حسن ندوی کو فون ملایا ، اللہ تعالی ” مدرسۃ العلوم الاسلامیہ” کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے اور رفیقِ محترم مفتی اسجد حسن ندوی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے ! علیگڑھ میں قیام وآرام کا یہی ایک آخری سہارا تھا جس کا اللہ تعالی نے ہمارے لئے انتظام فرمایا تھا۔ مدرسۃ العلوم الاسلامیہ لندن سے واپسی کے بعد سر سید احمد خاں نے علیگڑھ میں کالج قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا، اسی ارادہ کی تکمیل کے لئے ابتداء میں ’’مدرسۃ العلوم‘‘ کے نام سے عصری ادارہ ودانش گاہ کی بنیاد ڈال دی، جو بعد میں جاکر پہلے ’’ اینگلو اورینٹل کالج‘‘ اور آخر میں ’’مسلم یونیورسٹی علیگڑھ ‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ علیگڑھ میں واقع ’’مدرسۃ العلوم الاسلامیہ‘‘ بھی وہی سرسید کے قائم کردہ ’’مدرسۃ العلوم‘‘ کی بھولی بسری یاد ہے، مدرسۃ العلوم ایک کالج اور عصری تعلیم کا ادارہ تھا، لیکن علیگڑھ کے غیور مسلمانوں نے اسی نام سے دینی وعلمی ادارہ کا دوبارہ احیاء کیا، آج کل وہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ کے طور پر بھی مانی جاتی ہے، اسی ادارہ میں ہمارا قیام وآرام تھا۔ آج کل اس کے نگراں ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی صاحب ہیں جو اپنی تحریروں اور تصنیفات کی وجہ طبقہ اہلِ علم میں معروف ہیں، آپ نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت وفضیلت کے بعد مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے عربی زبان میں پی-ایچ- ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے،اس کے علاوہ ماہنامہ ’’ندائے اعتدال‘‘ کے بانی ہے اور سالوں سے تا حال ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ قرآن کریم سے آپ کو انتہائی قلبی لگاؤ ہے جو ہر مومن کو ہونا چاہئے، چنانچہ قرآنیات کے موضوع پر کئی تصنیفات بھی ہیں، مثلا ; آسان تفسیر قرآن (اردو ترجمہ ’’التفسیر المیسّر‘‘ : عائض القرنی) ، کامیابی کی قرآنی علامتیں، ندوی فضلاء کی قرآنی خدمات، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی قرآن فہمی۔ نیز ترجمہ نگاری میں ڈاکٹر صاحب کو یدِ طولٰی حاصل ہے، ترجمہ کو ترجمانی کے حسن میں اس طرح سَمو دیتے ہیں کہ قاری کو ترجمہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے ۔ ہم نے ان سے ملاقات کے لئے وقت بھی لے لیا تھا لیکن خواہش کے باوجود وقت کی قلت نے محروم ہی رکھا، صرف زیارت پر ہی اکتفاء کرلیا۔ اللہ تعالی آپ کے قلم میں جولانی نصیب فرمائے اور امت کی خدمت کے لئے قبول فرمائے! مدرسہ العلوم الاسلامیہ کی لائبریری کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے آخری صدی ہے یہ کتابوں سے عشق کی (سعود عثمانی ؔ ) کتابوں سے عشق ومحبت کی داستان بہت پرانی ہے، بے شمار عاشق آئے اور چلے گئے، انسانی ذہن کی نشو ونما، اس کی شخصیت اور اس کے کردار وعمل کے گوشوں کو منور کرنے کے لیے مطالعہ کی عادت ڈالنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زیست وحیات کے لیے کھانے وپینے کی ضرورت ہے، در حقیقت ایک سچا طالب علم اپنا فرضِ منصبی اس وقت تک مکمل نہیں کرسکتا جب تک وہ کتابوں سے اتنا ہی عشق نہ کرلیں جتنا مجنون نے لیلٰی سے کیا تھا، کتابوں سے عشق کرنے والے مٹتے جارہے ہیں ایسے میں چند ٹمٹماتے چراغوں کو دیکھ کر قلب خوشی وانبساط سے جھوم جھوم جاتا ہے۔ ہم نے دار العلوم چھاپی، المعہد العالی الاسلامی اور جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں، سب نے قلب وذہن پر اپنا اپنا اثر چھوڑا ، ہر ایک لائبریری کی اک نرالی داستان ہے جو اس وقت موضوعِ بحث نہیں ہے، لیکن مدرسہ العلوم الاسلامیہ کی لائبریری میں وہ قرینہ سے سجی ہوئی الماریوں میں کتابیں، وہ فنی تقسیم کے ساتھ علمی،ادبی،سماجی، سیاسی،فکری و تحریکی کتابوں نے دل جیت لیا، مدرسہ العلوم الاسلامیہ کی لائبریری کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں عُلیا درجات کے طلبہ کو عشاء کے بعد بیٹھنا لازمی ہے، جہاں وہ استاد کی نگرانی و رہنمائی میں بیٹھ کر اپنی علمی پیاس کو مٹا سکتے ہیں، یہ نظام دیکھ کر تو ہم نے نگرانِ مکتبہ سے یہ سوال جڑ دیا کہ ’’ کیا ان طلبہ کو محض درسی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت ہے یا سب ؟ جواب عنایت ہوا : ہر طرح کی کتاب پڑھنے کی اجازت ہے۔مزہ تو تب آتا جب کہ ممنوعہ الماری میں کچھ وہ کتابیں نہ ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! خیر ! ہمارے گجرات کے مدارس میں بھی یہ نظام پیدا ہوجائے کہ طلبہ کو ہفتہ میں کم از کم ایک یا دو دن لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ لازمی ہو، گرچہ وہ محض کتابوں کو ہاتھ میں لیں، چھویں اس کو بوسہ دیں، یا محض اس کی لطیف خوشبو میں معطر ہوجائیں، ایسے ماحول میں ہمارے نزدیک تو الماریوں کو کھول کر زیارت کرنا ہی بسا غنیمت ہے۔ دل خوش ہوگیا ! اللہ تعالی اس جامعہ کو شاد و آباد رکھیں ! نگاہیں بے تابی سے تڑپ رہی ہے کہ کب ایسی لائریری کی زیارت ہمارے اداروں میں دیکھنے کو میسر ہو ! نَلّی نہاری اور محفلِ یاراں عزیر دوست اور کرم فرما ’’ اسجد بھائی‘‘ جو ہمارے دل سے ’’ مفتی اسجد ندوی صاحب (استاذ : جامعہ العلوم الاسلامیہ) سے بھی زیادہ قریب ہیں، وہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں سنہ ۲۰۲۲ ء میں ہمارے رفیقِ درس بھی رہ چکے ہیں، کتاب دوست اور علم کے رسیا ہیں، لکھنے پڑھنے کا بہت ستھرا ذوق رکھتے ہیں، آپ کے کئی مقالات ومضامین رسالوں میں چھپ چکے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کے علم وعمل میں برکت نصیب فرمائے ! ایسے ہی مولانا محمد عارف ندوی صاحب (استاد : جامعہ العلوم الاسلامیہ) نے بھی ہماری بہترین تواضع فرمائی۔علیگڑھ کی شام اور نلی نہاری کا لطف ہمیشہ یاد رہے گا، ہم لوگ نلی نہاری کا لطف تو لے ہی رہے تھے لیکن ساتھ میں میزبان محترمان کے اردو لب ولہجہ اور اندازِ تکلم سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے جو ہم گجراتیوں کی جاڑی موٹی زبانوں پر کہاں ؟ اللہ تعالی دونوں میزبانوں کے رزق میں برکت نصیب فرمائے ! مولانا محمد غزالی ندوی ؒ نے ۲۰۱۶ ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر راشد شاذ کی انکارِ حدیث پر مبنی فکر کے خلاف ’’ امام بخاری ریسرچ اکیڈمی‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا، اس ادارہ کو دیکھنے کی بڑی آرزو تھی لیکن معلوم ہوا کہ وہ تو اس وقت (رات) میں بند ہے، اس کے باوجود ایک ایسی شخصیت کا سراغ لگا جن کو ہم پہلے سے ہی جانتے تھے، آپ امام بخاری ریسرچ اکیڈمی سے جڑے ہوئے ہیں، وہ جواں سال عالم مولانا فرید حبیب ندوی صاحب کی شخصیت ہے، آپ کو اپنے کتابچہ ’’ جو تم کچھ بننا چاہو ‘‘ کے ذریعہ کافی مقبولیت حاصل ہوئی، طلبۂ مدارس کے طبقہ میں یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی جو ہمارے ہاتھ بھی لگی اور اس سے استفادہ بھی کیا۔ ’’ جو تم کچھ بننا چاہو ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو طلبہ کو موٹیویٹ کرنے کے لئے بے حد مفید ہے، اس کتاب میں ابتدائی طالب علم کے لئے مطالعہ کے رہنما اصول، اپنا مستقبل سنوارنے کا لائحۂ عمل، تحریری و تقریری صلاحیتوں کے پروان چڑھانے کے گُر بیان کیے گئے ہیں، باذوق طلبہ کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو اپنی مطالعہ کی میز پر سجائے اور اپنے مطالعہ کی زینت بنائے۔ اس کے علاوہ شیخ عوامہ کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’ اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء‘‘ کی ’’ فقہی مسالک اور حدیث ِ نبوی‘‘ کے نام سے تلخیص و ترجمانی بھی کی ہے، شیخ عوامہ کی کتاب کس پایہ کی ہے اس کا اندازہ فقہ وحدیث کا ہر شیدائی جانتا ہے۔ بہر حال مولانا بڑی مرنجا مرنج اور دلنواز شخصیت کے حامل ہیں، زبان میں سلاست اور روانی ہونے کے باوجود اردو بڑی نفیس بولتے ہیں، فرید حبیب صاحب،عارف ندوی صاحب اور اسجد ندوی صاحب کے ساتھ آئیس کریم کی پارٹی میں بہت بے تکلف گھپ شپ، علمی گفتگو اور برادرانہ نوک جھونک پر مجلس تمام ہوئی اور ہم آرام کی نیند سوگئے۔ع ; وہ حلقۂ یاراں ، وہ میری شُوخ مزاجی اے گردشِ حالات بتا، وہ وقت کہاں ہے (جاری )