جوں ہی بحث تمام ہوئی کہ ٹرین آگرہ پہنچ گئی، چونکہ رفیقِ محترم مولانا صفوان صاحب کے آگرہ میں مراسم وتعلقات تھے، انہوں نے اپنی تدریس کے ابتدائی ایام میں آگرہ کی سرزمین پر بھی خدمات انجام دی ہے، لہذا آگرہ کے کرم فرما جناب ظل الرحمان صاحب پہلے سے ہی ریلوے اسٹیشن پر ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے، اللہ تعالٰی انہیں شاد وآباد رکھیں ! بیچارے آٹو رکشہ سمیت ہمارے لئے پلکیں بچھائے کھڑے تھے، اسٹیشن سے اپنے گھر لے گئے آگرہ کی روایت کے مطابق میزبانی کے فرائض بحسن وخوبی ادا کئے۔آگرہ میں شاہی شہر کا روایتی ناشتہ کیا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دوپہر کا کھانا ہی قبل از وقت ہمارے استقبال کے لئے رکھا گیا ہے، لیکن معلوم ہوا کہ آگرہ کا روایتی ناشتہ ہی یہی ہوتا ہے، سب سے پہلے گرما گرم مسالہ دار بریانی سے تواضع کی گئی، اور "پُری بھاجی” نے تو ہمارا صرف دل ہی نہیں پیٹ بھی جیت لیا، اَور تو اَور گرم گرم میٹھی میٹھی چاشنی سے لبریز جلیبی نے تو کم از کم اس وقت دوسرے ناشتہ کی خواہش کو ہی سرد کردیا، انتہائی دلچسپ، لذیذ اور فرحت بخش استقبالیہ رہا۔
بس یہی مختصر کارروائی کے بعد آگرہ کی وہ اصل یادگار جس کے لئے سیاح وزائرین دور دراز ممالک سے سفر کرکے آتے ہیں روانہ ہوگئے، بڑی ناسپاسی ہوگی اگر جناب ظل الرحمن صاحب کا شکریہ ادا نہ کیا جائے، کیونکہ اس بندۂ خدا نے گویا ہمارے لئے اپنی آٹو رکشہ کو گویا ایک دن کے لئے وقف کردیا تھا، ریلوے اسٹیشن سے مہمان خانہ آنے تک، تاج محل جانے سے واپس لینے آنے تک ہرجگہ اور ہرمحاذ کے لئے ہمارے سامنے اپنی آٹو کو پیش کردیا تھا، اللہ تعالٰی ان کے رزق ومال میں برکت نصیب فرمائے۔
تاج محل
تاج محل میں صدر دروازے سے داخل ہونے سے پہلے پہلے راستہ کے دونوں طرف دوکانیں سجی ہوئی ہیں، جس میں مختلف قسم کے چَھلّے (چابی کا کچن) اور تاج نُما انواع واقسام کے پیپر ویٹ، ماڈل، تصاویر اور لائٹ لگے ہوئے گلاس کے ٹکڑے فروخت کے لئے رکھے رہتے ہیں۔ اسی راستہ کے آخری کنارے پر بائیں جانب سرخ رنگ کا "سَتِی النساء خانَم” کا مقبرہ ہے: یہ وہ خاتون ہے جس نے ممتاز بیگم کی وفات کے وقت اس کی کمسِن بچوں کی پرورش کی تھی اور شاہجہاں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر تربیت کی تھی، اس خدمت کا صلہ وبدلا یہ ملا کہ تاج محل کے بغل میں خانم کا مقبرہ بننا نصیب ہوا۔
تاج محل میں داخل ہونے کے لئے ٹکٹ لینا ضروری ہے، چنانچہ ہمارا بھی رسمی ٹکٹ چیک اور جیب چیک کے بعد داخل ہونے کا وقت آگیا، لیکن کاروانِ سفر مسلمانوں کی اس شاہکار ویادگار عمارت، جو ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کی جگمگاتی روشن تاریخ کا واضح ثبوت ہے میں اس حال میں داخل ہورہا تھا کہ جس وقت پولیس ہمارے جیب اور بدن کی تلاشی لے رہی تھی تو مسواک برآمد ہونے پر کچھ گندی وناپاک زبانیں بَڑبَڑائیں، اور غیر ملفوظ مضمون یہ تھا کہ اندر کہیں نماز نہیں پڑھنا ہے، ابھی تک اس واقعہ سے ایمانی جذبات کو جو ٹھیس پہنچی تھی اس پر مزید ایک اور چیز نے نمک مرچ کا کام کیا ، وہ یہ کہ تاج محل میں واقع مسجد کے دروازے پر صاف لکھا ہوا تھا کہ "یہاں نماز پڑھنا منع ہے” (اللہ اکبر) غصہ وغم کے مِلے جُلے جذبات نے قلب وجگر میں کچھ ہیجان سا پیدا کردیا، اور تھوڑی دیر تک "من رأی منکم منکرا” کی زیرِ تشریح تمام رفقاء نے زبانی صلواتیں سنائیں، لیکن اس بات سے ضمیر کو سمجھایا سہلایا اور قلب وجگر میں واقع ہیجان کو کچھ یوں تاویل کرکے ٹھنڈا کیا کہ موجودہ سنگی حکومت لاکھ فتنہ پیدا کرے، اسلامی شعائر کو ختم کرنے کے ہزار جتن کرے، مسلمانوں کی رہی سہی روشن تاریخ کو مٹانے کے لئے کتنی ہی بے چین رہے ، البتہ وہ ظالم تاج محل کی دیوار پر، عمارت پر اور اس کے سفید پتھر پر قرآن کریم کی جو آیات منقوش ہے اس کو کہاں تک مٹا پائیں گے؟ یہی تو وہ اسلامی وقار اور لافانی آئین وقانون کی دفعات ہے جو آپ کے سیاحوں کے لئے وجہِ کشش اور جازبِ نظر بنی ہوئی ہیں۔
تاج محل کی عمارت بڑی خوشنما، خوب صورت اور انتہائی جاذبِ نظر ہے، چاروں جوانب میں قرآن کریم کی سورتیں پراچین پُرکاری سے مُنقّش ہے، جس سَمت سے تاج محل کی طرف نظر ڈالو بالکل یکساں نظر آتا ہے، اس کی تعمیر میں سنگِ مَرمَر کے سفید پتھر کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اس طرح لگایا گیا ہے کہ پورا تاج محل ایک سفید تراشا ہوا پہاڑ نظر آتا ہے،
اس کو دنیا کی چند عظیم عجائبات میں سے بھی شمار کیا گیا ہے، ہر وقت پوری دنیا سے سیاحوں اور زائرین کا تانتا لگا رہتا ہے، جو شخص بھی اس خوبصورت عمارت کو دیکھتا ہے فرحت وانبساط کے جذبات میں ڈوب جاتا ہے، مسلم حکمرانوں کے احسان وانعام کا زیرِ ممنون ہوجاتا ہے، اسلامی وقار کی تابندہ وپائندہ یہ عمارت آج بھی پُکار پُکار کر اسلامی حکومت کی ہر سیاح کو یاد تازہ کرواتی ہے،
دریائے جمنا تاج محل کی عمارت کو چھوکر گزرتا ہے، اس لحاظ سے تاج محل کا حسن مزید دوبالا ہوجاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سفید پوش عمارت صاف شفاف آبِ زُلال کے کنارے رقص کررہی ہیں، لیکن اس کا سفید رنگ مرورِ ایام کے باعث زردی کی طرف مائل ہورہا ہے۔دریائے جَمنا کی دوسری جانب عمارتوں کے کھنڈرات ہیں، لکھنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاہجہاں نے تاج محل کی طرح اپنے لئے سیاہ رنگ کا مقبرہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا، جس کو تاج محل کی سفید عمارت سے پل کے ذریعہ ملا دیا جائے، لیکن وہ اپنے ارادے کو برُوئے کار لانے سے قبل سنہ 1658ء میں اپنے فرزند ” اورنگ زیب عالمگیر ” کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، اس واقعہ کی صداقت ودروغ گوئی اس کے بیان کرنے والے کی گردن پر ہے۔
تاج محل کے دائیں جانب مسجد کی عمارت ہے، جس کی اسلامی یادگار ان ظالموں اور دین ناآشناؤں کو ہمیشہ دعوتِ نظارہ دیتی رہے گی، خدا کرے وہ جبینِ نیاز جو بُتوں اور پتھروں کے سامنے خَم ہوتی ہے بتوفیقِ الہی خدا کے سامنے جُھک جائیں۔
تاج محل کے بائیں جانب سرخ رنگ کی ایسی ہی عمارت ہے جو تقابل قائم کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں، اسے "تسبیح خانہ” بھی کہا جاتا ہے، اس کے فرش پر تاج محل کے کَلَس (گنبد) کی ڈیزائن بنائی گئی ہے، ممکن ہے اس لئے بھی ایسا کیا گیا ہوکہ جب تاج محل کا کلس ختم ہوجائے تو اس کے مطابق منقش کرلیا جائے۔
درحقیقت تاج محل ایک مقبرہ اور درگاہ ہے، جس کو مُغل حکمران شاہجہاں نے اپنی محبوبہ ممتاز بیگم کی یاد میں تعمیر کرایا تھا، ممتاز شاہجہاں کی محبوب اور انتہائی عزیز بیوی تھی، ممتاز کے بطن سے شاہجہاں کے تیرہ بچے پیدا ہوچکے تھے، جس وقت وہ اپنے چودھویں بچے کے بطن سے تھی تو زچگی اور ولادت کی تکلیف سے جاں بر نہ ہوسکی اور اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی، بعد از مرگ ممتاز کو تاج محل کی اس شاہکار عمارت میں دفن کیا گیا۔
موجودہ سنگھی اور دہشت گرد حکومت کے ذریعہ آئے دن ہندوستان کی اسلامی روایات کو مجروح کیا جاتا ہے، تاریخی مساجد پر مندر کے نام پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، لہذا تاج محل پر بھی ان ظالموں کی زبانیں رال ٹپکانے لگی اور نیت میں فتور پیدا ہوا، اس بد نیتی کی تکمیل کے لئے الہ آباد ہائےکورٹ میں یہ مقدمہ دائر کردیا کہ تاج محل میں بائیس پوشیدہ دروازے ہیں جس میں مورتیاں رکھی ہوئی ہیں، در پردہ اس مقدمہ کا مطلب یہ تھا کہ تاج محل مندر گراکر بنا دیا گیا ہے، لیکن اس اعتراض میں معمولی دم خم ہوتا تو بات بنتی لیکن اس کی فرسودگی کو دیکھ کر ہائےکورٹ کے ججوں نے بھی درخواست کو نامنظور کردیا۔ اب ان نادانوں کو کون سمجھائے کہ تاج محل کو گراکر مندر بنانا اس ملک کے وقار کو مجروح کردینا ہے۔
بہر حال تاج محل کی زیارت وملاقات کے بعد احاطہ میں ہی کچھ دیر رفقاء کے ساتھ فکری و تاریخی گفتگو ومذاکرہ ہوا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑوں کی وجہ سے مئی مہینہ کی شدید گرمی کے باوجود کافی آرام دہ سفر رہا۔
تاج محل سے واپسی
تاج محل کے احاطہ میں تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹہ گزارنے کے بعد روانگی کا راستہ لیا تو صدر دروازے کے پاس موجود دوکانوں سے کچھ چَھلے وَلّے خریدنے کا ارادہ ہوا،اس کے لئے ایک دوکان میں گلاس کے ایک ٹکڑے کو پیپر ویٹ اور کاغذ داب سمجھ کر ہاتھ میں لیا، پتہ نہیں وہ کونسی بدنصیب اور منحوس گھڑی تھی جس میں کاغذ داب اور پیپر ویٹ کے بجائے وہ لعنت میرے ہاتھ لگی جس کے لئے برادرانِ وطن مرتے ہیں، جس کی وہ عبادت کرتے اور پوجتے ہیں، اس پر دودھ بہاتے ہیں، وہ تھا ” شِیو لِنْگ” ۔ ایک طرف استغفراللہ بھی زبان سے جاری ہے، زیرِ لب اپنی حماقت پر مسکراہٹ بھی ہے، احباب ورفقاء میں قہقہے بھی ہورہے ہیں اور دوکان دار کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اس پر شرمندگی وافسردگی کے آثار بھی نمایاں ہے، پورے سفر میں جب بھی یہ واقعہ یاد آتا محفل قہقہہ سے جھوم اٹھتی اور زعفران زار ہوجاتی، بجھتے چہرے پر مسکراہٹ وانبساط کے نشانات نمودار ہوجاتے۔ ہا۔۔۔ہا۔۔ہا۔اس لطفِ طبع پر مزہ آگیا۔ اور اپنی حماقت پر شرمندگی بھی ہوئی۔
(جاری)