کہا جاتا ہے اور اپنے کانوں نے بھی یہ صدائے بازگشت سنی ہے کہ سفر سے آدمی میں تجربات امنڈ آتے ہیں، مختلف مقامات کی سیر سے دل ودماغ میں فرحت وتازگی دوڑ جاتی ہے، جنونِ بادیہ پیمائی سے علم میں وسعت، فکر میں توازن پیدا ہوجاتا ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ مختلف المزاج، رنگینئ طبع اور فکری شخصیات اور ان کے کارناموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آتا ہے، چنانچہ اسی تفریحِ طبع کے لئے "علمی سفر” کہہ لیجئے یا "علمی مقامات کی سیر” کا عنوان دیجئے ارادہ کرلیا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ 7 مئی 2024 کو پورے ملک میں وزیرِ اعظم کے انتخابات کا دن تھا، ہر شخص کی زبان پر بس ووٹ ووٹ اور دماغ پر انتخابی فکر سوار تھی، چنانچہ ہم نے بھی اسی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ووٹ دیا۔
بہر حال قیل وقال اور حیل وحال کے ساتھ ووٹنگ کی شام ساڑھے سات بجے پالنپور سے چلنے والی ٹرین "سابرمتی گوالیار ایکپریس” کے لئے انتظار کی گھڑیاں کاٹنے میں مشغول ہوگیے،اچانک دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین کا ہارن بجا اور الحمد للہ رفقاء سمیت راقم بھی سوار ہوگیا، چونکہ ٹکٹ اے سی کلاس میں تھا اس لئے انتہائی آسائش وآرام کے ساتھ گزر رہا تھا، لیکن خواہ سفر کتنا ہی آسائش وآرام دہ ہو وہ سفر ہی ہے، مصائب وآلام اس کا جزو لاینفک ہے، اگرچہ سفر میں اعضاء بدنی پر کوئی خراش نہ بھی پہنچے، پیشانی پر پسینہ کا ایک قطرہ نہ بھی بہے، پھر بھی تھکن وتعب تو اس کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود چونکہ سفر مقصود نہیں ہوتا بلکہ مقصود وہ منزل ہوا کرتی ہے جہاں کے لئے سفر کیا جارہا ہے، اس لئے یوں پھسلا کر ان تکالیف کو جھیل لیا جاتا ہے، لہذا ہمارا یہ کارواں بھی جانبِ منزل رواں دواں ہوگیا۔ بالکل ایسے ہی ہماری یہ زندگی بھی ایک چند روزہ سفر ہے بس بہت ہی مختصر حیاتِ مستعار گزار کر اصل منزل(آخرت) کی طرف روانہ ہوجانا ہے، یوں کرکے زندگی کے مصائب وآلام،مشکلات اور حوادثِ ایام کو سہلا پھسلا کر برداشت کرلینا چاہئے۔ چنانچہ پالنپور جنکشن سے ٹرین روانہ ہوگئی، جیسے ہی ٹرین نے اپنی رفتار تیز کرلی تو باہر کے مختلف مناظر نگاہوں میں آتے گئے اور جاتے گئے، مختلف طرح کی آبادیاں، مختلف طرح کے لوگ، ویران جنگلات، دریا، چٹیل میدان وبیابان، لہلہاتے سبزہ زاروں اور جھومتے ہوئے پودوں کی بہاریں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں، کہیں دور دور کسانوں کی کچی پکی جھونپڑیوں کی قطاریں، کہیں جانوروں کے ریوڑ، کہیں لہلہاتی کھیتیاں نگاہوں میں آتی اور برق رفتاری کے ساتھ گزر جاتی، بلند وبانگ اونچی اونچی عمارتیں جو قمقموں سے سج تج کر نئی نویلی دلہن کی طرح تیار نظر آرہی تھی، ہمیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم سکون کے ساتھ کہیں بیٹھے ہوئے ہیں اور باہر کے مناظر متحرک اور رواں دواں پیچھے بھاگتے جارہے ہیں، جبکہ یہ محض تخیل وتصور کی دنیا تھی، اور وہ مناظر تو ایک جگہ جامد وساکن ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہم جانبِ منزل رواں دواں ہیں۔

رفقاء سفر :
ماشاء سارے ہی احباب خوش مزاج وخوش طبع اور مَرنجا مَرنج شخصیات کے حامل ہیں، بے تکلف دوستی، شوخ مزاجی اور مجلس میں رَل مِل جانے والے احباب کے ساتھ رفاقت کا موقع میسر آیا ہے، برادرم مولانا محمد بن شبیر بگا، برادرم مولانا امین اور مولانا صفوان صاحبان ہیں، ان میں برادرم مولانا سیف اللہ صاحب تو علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے فردِ فرید ہے، ذوق نرالا، اسلوبِ کلام انتہائی اجالا، علمی مجلس جہاں جمائی جم گئی اور بے شمار علمی نکات کو خوانِ علم وتحقیق پر بکھیر دیا، علمی ذوق آشنا اور مجلس میں چھاجانے والی شخصیت ہے، اللہ تعالٰی ہر شخص کو ایسے باذوق احباب نصیب فرمائے۔
علمی گپ شپ، ادبی گفتگو، پر تکلف نوک جھونک اور لطیفوں لطیفوں میں رات ہوگئی، چنانچہ نماز مغرب وعشاء اور کھانے وانے سے فارغ ہوکر ہم بھی آرام کی نیند سوگئے، بہر حال یوں سویرے صبح کی پَو پھوٹنے سے قبل ہی آگرہ سے قریب آگئے تھے لیکن ابھی آگرہ آنے میں تقریبا دو گھنٹہ باقی تھا، حسنِ اتفاق یہ کہ رفقاء کے درمیان بڑی پُر لطف علمی محفل سجی، وہ سجی تو ایسی سجی کہ پتا ہی نہیں چلا کہ دو گھنٹے کا راستہ چند ساعتوں میں ہی پورا ہوگیا، واقعہ یوں ہوا کہ رفیقِ محترم مولانا امین صاحب نے ہندوستان کے ایک مؤقر ادارے کے ناظم کے وڈیو بیان کا ایک کلپ سنایا جو مفسرِ قرآن شیخ عبد الرحمان القماش کی تفسیر ” الحاوی فی التفسیر” کی جلدوں اور صفحات کی تعداد کے متعلق تھا، انہوں نے بیان کیا ہے کہ وہ تفسیر بائیس لاکھ صفحات پر مشتمل ہے، یوں اگر ایک جلد ایک ہزار صفحات کا حجم لیے ہوئے ہو تب بھی بائیس سو جلدوں میں تفسیر بن جاتی ہے، اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے علماء اسلام نے علم وکتاب کی دنیا میں بے پناہ اپنے جواہر لٹائے ہیں اور کئی کئی جلدوں میں علم کو سینوں سے سفینوں تک منتقل کردیا ہے، جب ان علماء کی زندگیوں کو دیکھا جاتا ہے تو بہت مختصر ہے لیکن ان کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں میں کیا جانے والا کام چند سالوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے اور پورے کارواں سے ہونے والی خدمت فرد واحد سے انجام پائی ہے۔ خصوصا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاوی ہی کی صرف سینتیس جلدیں ہیں اور اس کے علاوہ کتب تو مستقل رہی، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو ہر کتاب کو تقریبا جلدوں میں پھیلایا ہے، تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، فتح الباری، الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ، التلخیص الحبیر وغیرہ۔ مولانا عبد الحئی فرنگی محل رحمہ اللہ نے چالیس سال سے بھی کم عمر پائی لیکن تصنیفات کا انبار لگا دیا ہے۔ ایسے ہی یہاں بھی ممکن ہے بیان میں کچھ مبالغہ ہوگیا ہو، لہذا جب ہم نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ کتاب (بائیس لاکھ کے بجائے) تین لاکھ کے قریب صفحات پر مشتمل ہے اور (بائیس سو کے بجائے) اکتالیس جلدوں میں ہے جس کی ہر جلد سات یا آٹھ ہزار اوراق سمیٹے ہوئے ہیں، ہماری معلومات کی حد تک یہ سب سے بڑا مجموعہ ہے جو تفسیری ذخیرہ پر مشتمل ہے۔

(جاری۔۔۔۔۔)