ائے کعبہ کے مسافر! ذرا آہستہ قدم رکھ
ڈاکٹر مفتی محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

کون ایسا مسلمان ہے جس کے دل میں یہ تمنائیں کروٹیں نہ لیتی ہوں کہ میں احرام کی دو چادروں میں لپٹ کر اللہ کے گھر کی زیارت کروں، سراپا عجز ونیاز، مجسم عشق ووارفتگی، ساری دنیا کو بھلاکر، یاد محبوب دل میں بساکر، سر مۂ عشق آنکھوں میں لگاکر،اور لبوں پر یہ نغمہ سجاکر کہ ؎
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
لیکن پھر وہ ٹھہر کر سوچتا ہے کہ گناہوں کے بوجھ کے ساتھ آخر کس طرح میں خانۂ خدا پر نگاہ ڈالوں گا، اور کس طرح کعبہ کے گرد سات پھیرے لگاؤں گا، زندگی بھر جس شیطان سے دوستی رہی اسے کیوں کر کنکریاں مارسکوں گا، کیسے’’ لبیک‘‘ (میں حاضرہوں) کہنے کا یارا ہو گا، اس ڈر سے کہ کہیں جواب میں ’’لا لبیک‘‘ (تیری حاضری قبول نہیں) تو نہ کہہ دیا جائے گا، اور نہ جانے محرومی اور یاس کے احساسات وخیالات کن کن وادیوں میں سرگرداں رکھتے ہیں، اور کبھی دل سے ایک دبی دبی سی آواز بھی آتی ہے کہ ؎
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایک طرف حرماں نصیبی کا یہ احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف اللہ رب العزت کے فیصلے ہوتے ہیں، فریب خوردہ انسان بدگمانی کا ایسا عادی کہ اپنے رب سے بھی بدگمان ہوجاتا ہے، اور رب ہے کہ جب بلانے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو کون ہے جو اس کے فیصلہ کو ٹال سکے، انتخاب قرعے کے ذریعہ نہیں ہوتا رب البیت کی جانب سے ہوتا ہے، کتنے لوگ دولت کا ڈھیر چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے ان کو بلایا نہ گیا، وہ نہ جاسکے، جہاں بلایا گیا وہاں چلے گئے، اور کتنے ایسے ہیں جو اپنی مادی حالت پر نظر کرتے ہوئے یہ حوصلہ بھی نہیں پاتے کہ حج کا ارادہ کریں لیکن شوق رہ رہ کر ان کے دلوں میں انگڑائیاں لیتا ہے، جذبہ کبھی آنکھوں سے امڈ آتا ہے، کبھی زبان پر بے اختیار چلا آتا ہے، دل میں عشق کی انگیٹھیاں سلگتی رہتی ہیں، بے قراری اور بے تابی کا اظہار صرف مولائے کائنات کے حضور اس وقت ہوتا ہے جب ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں، ایسے بھی عاشق زار ہیں جو خیالوں میں حرم کی سیر کرتے ہیں، نگاہوں میں کعبہ کو سجاتے ہیں، لبوں کو حجر اسود پر رکھتے ہیں، زم زم سے سیر ہوتے ہیں، ملتزم سے چمٹتے ہیں، منی اور عرفات کی وادیوں میں دیوانہ وار دوڑتے بھاگتے ہیں، مزدلفہ سے کنکریاں چنتے ہیں، کبھی صفا ومروہ پر ہانپتے کانپتے تیز قدموں سے چلتے ہیں، کبھی روضۂ انور کی جالیوں کو خود سے قریب پا کر پکار اٹھتے ہیں: "السلام علیک یا رسول اللہ”، کبھی ریاض الجنۃ کی کیاریوں میں سر بسجود ہوتے ہیں، کبھی بقیع کے میدان میں کھڑے ہوکر صدیوں میں گم ہوجاتے ہیں، لیکن یہ سب خواب سے زیادہ کچھ اور نہیں ہوتا کہ جب آنکھ کھلتی ہے تو گرد وپیش کے وہی نظارے سامنے ہوتے ہیں جن میں ان پر کیف خیالوں کے بعد کوئی کشش اور لذت نہیں رہ جاتی، دل رنجور ہوتا ہے کہ وہی زندگی ہے اور وہی زندگی کے ادھورے فسانے، وہی رشتہ وپیوند، وہی متاع غرور کا سودا، وہی مکر وفن اور وہی اجڑی ہوئی انجمن ؎
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں
جو خوش نصیب اس سال عازم حج کے طور پر قبول کئے جاچکے ہیں ان کے سفر حج کی گھڑیاں قریب آچکی ہیں، تربیتی اجتماعات ہورہے ہیں، سفر میں قد م قدم پر کیا صعوبتیں ہیں، تجربہ کاروں سے معلوم کیا جارہا ہے، آپ نہ بھی معلوم کریں اور کسی نے آپ کی پیشانی کو پڑھ لیا کہ یہ عازم حج ہے اور وہ حاجی بن چکا ہو تو بلا طلب بھی دو چار مشورے مفت عنایت کرنے کی سعادت حاصل کرلے گا۔
آپ حج کے تربیتی اجتماعات میں بھی جائیں تو حج کے مادی پہلؤوں پر سوالات زیادہ سنے کو ملیں گے، اس کے بعد کچھ حج کے علمی پہلؤوں پر، حج کے روحانی پہلؤوں پر کم گفتگو ہوگی جب کہ حقیقت میں حج کا سب سے اہم پہلو یہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وسائل واسباب کی اپنی جگہ اہمیت ہے ان سے واقفیت اور ان سے استفادہ ضروری ہے، سفر حج کو سہولت بخش بنانا بھی کوئی گناہ نہیں، اسی طرح حج کے مسائل بھی جاننا ضروری ہے لیکن ان کی تلافی بسا اوقات دم کے ذریعہ اوربعض اعمال میں معافی سے بھی ہو سکتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے والے صحابہ کرامؓ جب آپ سے حج کی بعض تقدیم و تاخیرکے بارے میں دریافت کرتے تو آپ با ر بار یہی جواب عنایت فرماتے: ’’افعل و لا حرج‘‘(بخاری: باب السؤال والفتیا عند رمی الجمار، حدیث نمبر: ۱۲۴) (کئے جاؤ، کوئی گناہ نہیں)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے اکثر اعمال میں غلطی کا امکان ہے اور غلطیوں کی تلافی بھی ہوسکتی ہے؛ لیکن اگر حج کا روحانی پہلو متأثر ہوگیا تو یہ بڑے خسارہ کی بات ہے۔
یہ بھلانے کی چیز نہیں کہ حج کا مقصد اصلی اللہ کی معرفت ہے، اور اس کا ذکر ہی حج کا سب سے بلند ترین مقصد ہے ، قرآن مجید میں سور ۂ حج جو صرف آدھے پارے پر مشتمل ہے اور جس میں صرف ۷۸ آیتیں ہیں، اللہ کا ذکر صاف لفظوں میں یا اشارہ میں اس سورہ کے اندر ایک سو پنچانوے (۱۹۵) مرتبہ آیا ہے، کسی سورہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات قوی وعزیز کا ذکر دو آیتوں میں نہیں آیا ہے، صرف اسی سورہ کے اندر آیا ہے، اسی طرح اس سورہ میں ربکم، اللہ، قدیر، شہید، إلہکم، سمیع، بصیر ، لطیف ، خبیر، المولی ، النصیر اور دوسری صفات بار بار آئی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ منشائے الٰہی یہ ہے کہ انسان اپنے رب سے جڑا رہے، ہر وقت اس کے استحضار کرنے کی مشق کرے، اللہ کے حکم پر عمل کرنے میں لذت اور حلاوت محسوس کرے اور پھر اس مقام کو پہنچ جائے کہ اللہ کی محبت کو ہر چیز پر ترجیح دینے لگے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: ’’وعلامۃ ہذا الإیثار شیئان: أحدہما: فعل ما یحب اللہ إذا کانت النفس تکرہہ وتہرب منہ، والثاني: ترک ما یکرہہ إذا کانت النفس تحبہ وتہواہ، فبہذین الأمرین یصح مقام الإیثار‘‘(اس ایثار کی علامت دو چیزیں ہیں ، پہلی چیز یہ ہے کہ وہ کام کیا جائے جو اللہ کو پسند ہے خواہ اس کو نفس نا پسند کرتا ہو اور اس سے بھاگتا ہو، دوسرے یہ کہ وہ کام چھوڑ دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتے ہیں، اگرچہ نفس اسے پسند کرتا ہو اور اس پر فریفتہ ہو ، انہیں دو باتوں سے مقام ایثار حاصل ہوتا ہے) حج میں یہ کیفیت اور بھی مطلوب اور محبوب ہے۔
حج انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے ، ہر مباح چیز کو اختیار کرنے اور عیش وعشرت کی زندگی گذارنے کی عادت عام ہوتی جارہی ہے، حج ان کو چھوڑنے کی مشق کراتا ہے، مشہور تابعی حضرت مسروق نے حج فرمایا تو حج کے پورے سفر میں سجدہ کی حالت میں ہی نیند پوری کی(صفۃ الصفوۃ:۲؍۱۵)، یعنی جب تک ہمت ہوتی سجدۂ شکر بجا لاتے پھر اسی حال میں سوجاتے تاکہ غفلت نہ ہو اور دوبارہ تازہ دم ہوکر عبادت میں مصروف ہوں، احرام کا پاکیزہ لباس انسان کو اس کے آخری سفر کو نگاہوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے، حج دلوں میں توحید کی عظمت بٹھاتا ہے، اور’میں حاضر ہوں‘ کی پکار زندگی میں حضوری کی کیفیت عطا کرتی ہے، حج انسان کو انبیاء کی مقدس جماعت اور صحابہ کے نورانی کارواں سے ایک خاص لگاؤ اور انس پیدا کرتا ہے، کعبہ پر پڑنے والی پہلی نگاہ رب ذو الجلال والاکرام کی عظمت وجلال، اس کی کبریائی اور بزرگی کا ایک عجیب اور سرشار کردینے والا پرکیف احساس عطا کرتی ہے، اور یہ یقین دل میں بٹھاتی کہ ؎
جسے چاہا اپنا بنالیا جسے چاہا در پہ بلالیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
مدینہ کی حاضری اور روضہ پہ جانا اور سلام شوق پیش کرنا یہ یقین دلاتا ہے کہ:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
(کہ آسمان کے زیر سایہ دربار نبی وہ ادب کامقام ہے جو عرش الٰہی سے بھی نازک تر ہے، یہاں جنید بغدادی اور با یزید بسطامی جیسے اولیا آتے ہیں تو خود کو بھول جاتے ہیں)، اور یہ شعور عطا کرتا ہے کہ حب نبی میں دیوانگی و فرزانگی دونوں کا امتحان ہے، مشہور مقولہ ہے کہ ’’باخدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار‘‘۔
جو خوش نصیب زندگی کے اس سب سے مبارک اور قابل رشک سفر کے لئے پابہ رکاب ہیں ان کو اپنے ذہنوں میں ہر ہر لمحہ پر یہ حقیقت بالکل تازہ رکھنی چاہئے کہ یہ جہاں سعادت کی بات ہے، انتہائی بڑی ذمہ داری ہے ،اورایک نازک کام ہے جس کے لئے ان کوشرف قبولیت سے نوازا گیا ہے، یہاں کی نیکی صد ہزار نیکیوں پر قربان، لیکن یہاں کی ایک لغزش ہزار خطاؤں اور سیاہ کاریوں سے بڑھ کر ہے، دلوں کو عُجب وریا اور کبر وغرور سے پاک رکھنا، نگاہوں کی حفاظت، غصہ پر قابو، غیبت اور بدگمانی سے پرہیز، نفسانی خواہشات پر کنٹرول، کسی کی تحقیر وتذلیل کے ادنیٰ شائبہ سے بچنے کی کوشش، یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عازم حج کے لیے حج مبرور عطا ہونے کی واضح نشانیاں ہیں۔
سفر حج کی تیاریوں کے مراحل میں اور سفر حج کے دوران حضوری کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کیجئے اور عصیاں شعار زندگی میں جس پراگندہ خیالی کی عادت ہوچکی ہے، ذرا ایک لمحہ کے لئے ٹھہر کر اس کی ظلمتوں سے خود کو نکالئے اور نور و سرور کے جلو میں سفر کیجئے، اور خوب حضوری اور یکسوئی کے ساتھ حج کا ایک ایک عمل بجا لایئے، جگر مرادآبادی کی زبان میں کہنے پر مجبور ہوں گے ؎
جگر وہ حُسن یک سوئی کا منظر یاد ہے اب ت نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہوجانا