از : محمد رضی الاسلام ندوی
حج کا موسم آگیا ہے – حج کمیٹی کی طرف سے جن لوگوں کے ناموں کا اعلان کردیا گیا ہے وہ اس کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں – بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں بہت جلد بیت اللہ کی حاضری اور مناسکِ حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہوگی – رفاہی و سماجی کام انجام دینے والے بہت سے لوگ حج کی تیاری کے لیے کیمپس منعقد کرتے ہیں ، جن میں مناسکِ حج کی انجام دہی کا طریقہ عملی طور پر سکھایا جاتا ہے – اس موضوع پر چھوٹے بڑے کتابچے اور کتابیں بھی بہ آسانی دست یاب ہیں –
ذیل میں بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ حاجیوں کو حج کے پانچ دنوں (8 تا 12 ذی الحجہ) میں کیا کیا کام انجام دینے چاہییں؟ اور حج کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
8 ذی الحجہ (يوم التَروِيَه)
1 – یہ حج کا پہلا دن ہے ۔ 7 اور 8 کی درمیانی رات ہی میں اپنی قیام گاہ سے حج کا احرام باندھ لیں ۔ تلبیہ (لبيك ، اللهم لبيك ….) پڑھنے کے بعد احرام کے آداب کی پابندی کریں ۔
2 – فجر کی نماز حرم میں ادا کرکے منیٰ کو روانہ ہونا افضل ہے ۔
3 – صبح منی پہنچیں ، وہاں مسجدِ خیف میں ، یا اپنے خیمے میں ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کریں – ( یہاں نمازیں اپنے اپنے وقت پر ، بغیر جمع کیے ، قصر پڑھی جائیں گی ۔)
9 ذی الحجہ ( یومِ عرفہ )
4 – 9 ذی الحجہ کو فجر کی نماز بھی منی میں ادا کریں –
5 – طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات کے لیے روانہ ہوجائیں ۔ اس دوران میں تلبیہ (لبيك اللهم لبيك…) اور اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، لا اله الا الله ، والله اكبر ، ولله الحمد پڑھتے رہیں ۔
6 – عرفات میں مسجدِ نمرہ میں امام خطبۂ حج دے گا اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں قصر اکٹھیپڑھی جائیں گی ۔
7 – یہاں کثرت سے دعا کریں ۔ نمازِ عصر کے بعد کھڑے ہوکر دعا مانگنا افضل ہے ۔
8 – غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوجائیں ۔ مزدلفہ میں مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دورکعت قصر مع وتر ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ اکٹھی پڑھیں ۔
9 – یہیں سے انچاس (49) کنکریاں جمرات پر مارنے کے لیے چن لیں ۔ (یہ کنکریاں کہیں سے بھی لی جاسکتی ہیں ۔ منی سے کنکریاں لے کر رمی جمار (کنکریاں مارنے) میں بھی کچھ حرج نہیں ۔)
10 – مزدلفہ میں تھوڑا آرام کرلیں –
10 ذی الحجہ (یوم النحر )
11 – مزدلفہ میں نمازِ فجر اوّل وقت میں ادا کرکے منیٰ کی طرف واپس لوٹیں ۔ ضرورتاً نمازِ فجر سے پہلے بھی مزدلفہ سے منی کے لیے روانگی جائز ہے ۔
12 – منی پہنچ کر ظہر سے پہلے جمرۂ عقبہ کو (جو مکہ مکرمہ سے قریب ہے) سات کنکریاں ماریں –
13 – اب تلبیہ (لبيك اللهم لبيك…. ) پڑھنا بند کردیں اور اس کے بجائے اللّه اكبر اللّه اكبر ، لا اله الا اللّه و اللّه اكبر ، اللّه اکبر و لله الحمد پڑھیں ۔
14 – جمرۂ عقبہ پر 7 کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کریں ، یا اس کا ٹوکن حاصل کرلیں ۔
15 – اس کے بعد ‘حلق’ کرائیں ( سر منڈوائیں) یا ‘قصر’ کرائیں (بال ترشوائیں) ۔ [ خواتین کے لیے انگلی کے ایک پور کے برابر بال کاٹ لینا کافی ہے – ]
16 – آج کے تمام کام (رمی ، قربانی اور حلق یا قصر) ترتیب سے کرنا بہتر ہے ، لیکن اگر ترتیب قائم نہ رہ سکے تو کوئی حرج نہیں –
17 – اب احرام اتار دیں اور کپڑے پہن لیں – احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوگئیں ، سوائے بیوی سے مباشرت کے –
18 – طوافِ افاضہ کے لیے مکہ جائیں –
[ اگر حج تمتّع کی نیت کی تھی تو طواف کے بعد سعی بھی کریں – اگر حجِ قِران کی نیت کی تھی اور طوافِ قدوم کے بعد سعی کرچکے تھے تو طوافِ افاضہ کے بعد سعی کرنے کی ضرورت نہیں – ]
19 – طوافِ افاضہ کرنے کے بعد بیوی سے مباشرت کی پابندی بھی ختم ہوجاتی ہے –
20 – طوافِ افاضہ سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ واپس آکر رات وہیں گزاریں ۔
21 – منی میں قیام کے دوران میں نمازیں باجماعت مسجدِخیف میں ادا کرنے کی کوشش کریں – خیمے میں بھی ادا کرسکتے ہیں ۔
[ طوافِ افاضہ کے لیے 10 ذی الحجہ ہی کو مکّہ مکرّمہ چلے جانا افضل ہے ، لیکن چوں کہ منی میں رات گزارنا واجب ہے اور بھیڑ کی وجہ سے رات میں ہی منیٰ واپسی بہت مشکل ہوجاتی ہے ، اس لیے طوافِ افاضہ کے لیے 11 ذی الحجہ کی صبح بھی جا سکتے ہیں – ]
11 ذی الحجہ (یومِ تشریق)
22 – فجر کی نماز مسجدِ خیف یا خیمہ میں ادا کریں ۔
23 – اس کے بعد طوافِ افاضہ (طوافِ زیارت) کے لیے مسجدِ حرام کو روانہ ہوں ۔وہاں خانۂ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی سے فارغ ہوں – (البتہ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں ہوگا ۔)
24 – طوافِ افاضہ (طوافِ زیارت) سے فارغ ہوکر فوراً منیٰ واپس ہوں ۔
25 – منی پہنچ کر نمازِ ظہر کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں ماریں : پہلے جمرۂ صغری کو ، پھر جمرۂ وسطیٰ کو ، پھر جمرہ کبری (جمرۃ عقبہ) کو –
26 – ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہیں ۔
27 – کنکری مارتے وقت مکہ آپ کی دائیں طرف ہوگا اور مسجدِ خیف بائیں طرف ۔
28 – پہلے اور دوسرے جمرہ پر رمی کرنے کے بعد قبلہ روٗ ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر دعا کریں ، البتہ جمرۂ عقبہ پر رمی کے بعد دعا نہ کریں –
12 ذی الحجہ
29 – یہ حج کا آخری دن ہے – اس دن بھی ظہر کے بعد گزشتہ روز کی طرح سات سات کنکریاں چھوٹے ، درمیانی اور بڑے جمرہ کو ماریں ۔
30 – کوئی مجبوری ہو تو کسی دوسرے شخص کو رمیِ جمار ( کنکری مارنے) کے لیے وکیل بنایا جا سکتا ہے ، کہ وہ آپ کی طرف سے کنکریاں مار دے ۔
31 – بہ حالت مجبوری ظہر سے پہلے بھی رمی جمار (کنکریاں مارنا) جائز ہے –
32 – غروبِ آفتاب سے پہلے مکہ مکرمہ واپس چلے جائیں اور طوافِ وداع کریں ۔
[ اگر آپ 12 ذی الحجہ کو منی سے روانہ نہیں ہوئے اور آفتاب غروب ہوگیا تو رات منی ہی میں گزارنی ہوگی اور 13 ذی الحجہ کو بھی زوال کے بعد تینوں جمرات پر کنکریاں مارنی ہوں گی – ]
اب آپ کا حج مکمل ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے –
33 – حج پورا ہونے کے بعد جب اپنے ملک واپس جانا چاہیں تو طوافِ وداع کریں – [ حائضہ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں – ]
حج کے پانچ دن کے اعمال
Related Posts
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_* *ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔ * ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن…
Read moreخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: 24؍جون 2025ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے…
Read more