- از : اسجد حسن ندوی
اسلام ایک معتدل اور متوازن شریعت کا نام ہے ، جو اپنے ماننے والوں کو ہر دور ، ہر خطے ، اور ہر حالت میں قابل عمل اور متوازن شریعت عطا کرتا ہے ، اسی اصول کے تحت اسلامی فقہ نے بھی مختلف مکاتب فکر اور اجتہادی آراء کو جنم دیا ہے ، جو در حقیقت دین کی وسعت ، لچک اور امت پر اللہ کی رحمت کا مظہر ہے ۔
حالات کی پیچیدگی اور نئے مسائل نے مزید یہ تقاضا پیدا کردیا ہے کہ بعض اوقات مختلف مذاہب کی آراء سے استفادہ کیا جائے تاکہ امت کو مشکلات سے نکالا جا سکے اور ان کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کی جائے ، اسی مقصد کے پیشِ نظر بعض دفعہ مخصوص شرائط کے ساتھ مسلک غیر فتویٰ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ، مسلک غیر پر فتویٰ دینے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ‘تلفیق بین المذاھب” کی ان صورتوں سے اجتناب کیا جائے جو درست نہیں ہیں ، اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ ” تتبع رخص” سے کام نہ لیا گیا ہو ، زیر نظر مقالہ انہیں دونوں اصطلاح کی وضاحت پر مشتمل ہے ۔
*تلفیق کی لغوی اور اصطلاحی حقیقت کیا ہے ؟ اور اصولیین تلفیق کا استعمال کس معنی کے لئے کرتے ہیں ؟*
تلفیق کی لغوی معنی:
تلفیق یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، باب تفعیل کا مصدر ہے، جو باب ضرب "لفق” سے مشتق ہے، معنی ہے "ضم شقۃ إلی أخری”ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانا، کہا جاتا ہے: "لفق الثوب” جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا” القاموس الوحید: ( ص: 1486 ) (لغۃ الفقہاء ۱۴۴)
تلفیق کی اصطلاحی معنی (فقہی اصطلاح میں)
"تلفیق بین المذاھب ” یہ ایک فقہی اصطلاح ہے ، اور فقہی اصطلاح کی رو سے تلفیق بین المذاھب کا مطلب ہوتا ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے مختلف اقوال کی روشنی میں ایک ایسی نئی صورت کو اختیار کرنا جو کسی مذہب کے مطابق نہ ہو ، یعنی ایک عمل میں دو یا زیادہ مذاہب کے اقوال کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کا مجموعہ کسی ایک بھی مذہب کے اصول یا ضابطے کے مطابق صحیح نہ ہو۔
"التلفیق ان الاخذ فی الاحکام الفقهیة بقول أکثر من مذهب فی أبواب متفرقة أو باب واحد أو فی أجزاء الحکم الواحد‘‘
(تلفیق یہ ہے کہ احکام فقہیہ میں ایک سے زائد مذاہب کو مختلف ابواب،یا ایک باب ،یا ایک مسئلہ کے مختلف اجزاء میں جمع کر دینا)
(محمد بن عبدالرزاق،التلفیق موقف الاصولیین منہ ( کویت: وزارۃ الاوقاف والشؤوں الاسلامیہ، ۱۴۳۴ ھ)،ص:۱۵۰)
التلفیق: ہو القیام بعمل یجمع فیہ بین عدۃ مذاہب حتی لا یمکن اعتبار ہذا العمل صحیحا في أي مذہب من المذاہب۔ (لغۃ الفقہاء (144)
حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی اپنی کتاب قاموس الفقہ میں تلفیق کے بارے میں لکھتے ہیں: "کہ تلفیق سے مراد ایک ہی عمل میں دو مسئلوں میں دو مختلف فقہاء کی رائے کو اس طرح قبول کرنا ہے کہ بحیثیت مجموعی وہ عمل ان دونوں میں سے کسی کے نزدیک بھی درست قرار نہ پاتا ہو ۔ ( القاموس الفقہ: ج : 2 ج : 532 )
حضرت مولانا مفتی سلمان منصور پوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب فتاویٰ نویسی کے رہنما اصول میں لکھتے ہیں کہ "تلفیق کا حقیقتا اطلاق اس شکل پر ہوگا جس میں ( عمل واحد کی صورت میں) خرق اجماع لازم آرہا ہو اور دو عمل ہونے کی شکل میں ) تتبع بالرخص پائی جارہی ہو ۔ ( فتاویٰ نویسی کے رہنما اصول: 410 )
*تلفیق کی کتنی قسمیں ہیں ؟ کونسی شکل جائز ہے اور کونسی ناجائز ہیں ؟ ان کے دلائل کیا ہیں ؟*
"تلفیق” (یعنی مختلف فقہی مذاہب کی آراء کو جمع کرنا) کی فقہاء نے دو قسمیں ذکر کی ہیں۔ ( تلفیق حقیقی اور تلفیق حکمی)
تلفیق حقیقی:
تلفیق حقیقی یعنی ایسے قول کو اپنایا جائے جس کا قائل کوئی نہ ہو ، مذہب اربعہ سے بھی خارج ہو ، اور کسی ایک پر عمل کی صورت میں خرق اجماع لازم آرہا ہو ،اور دونوں پر عمل کرنے کی صورت میں تتبع رخص پائی جارہی ہو، تلفیق حقیقی کے سلسلے میں شیخ عبد الغنی نابلسی لکھتے ہیں: "متي عمل عبادة او معاملة ملفقة أخذا لهامن كل مذهب قولا لا يقول به صاحب المذهب الآخر فقد خرج عن المذهب الأربعة و أخترع له مذهبا خامسا فعبارته باطلة و معاملته صحيحة و متلاعب في الدين الأخ” ( خلاصة التحقيق : 17)
( یعنی کسی عبادت اور معاملہ کو ملا جلا کر اس طرح انجام دیا جائے کہ ہر مذہب سے ایسا قول لیا جائے جس کا قائل کوئی دوسرا مذہب والا نہ ہو اور وہ معاملہ مذاہبِ اربعہ سے خارج ہو جائے اور ایک پانچواں مذہب ہو جائے تو ایسی عبادت باطل ہے اور ایسا معاملہ صحیح نہیں ہے ، اور ایسا کرنے والا گویا دین سے کھلواڑ کرنے والا ہے )
تلفیق حقیقی کا حکم:
تلفیق حقیقی کسی بھی صورت میں کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے ، خواہ وہ مجتہد ہو یا مقلد محض ۔ شیخ النابلسی لکھتے ہیں:
” إذا كان المجتهد لا يسوغه التلفيق إذا أدي إجتهاده إليه علي حسب ما قدمناه فكيف بلمقلد القاصر” ( خلاصة التحقيق 25)
( جب ایک مجتہد جو اجتہاد کر سکتا ہے اس کے باجود اس کو تلفیق کی اجازت نہیں ہے تو مقلد عاجز کے لیے اس کا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے ؟” )
تلفیق مجازی:
تلفیق کی دوسری قسم تلفیق مجازی ہے ،جس پر محض لغوی معنی کے اعتبار سے تلفیق کا اعتبار کیا جاتا ہے ، در حقیقت وہ تلفیق نہیں ہے ، کیوں کہ اس میں دوسرے مذہب کو اس طرح اختیار کیا جاتا ہے کہ اس سے کوئی امر خرق اجماع لازم نہیں آتا ہے ، جیسے ایک شخص وضو میں چوتھائی سر سے کم پر مسح کیا اور نماز میں قرات فاتحہ خلف الامام چھوڑ دی یعنی وضو شافعیہ کے مطابق کیا اور نماز حنفیہ کے مطابق پڑھی بظاہر اس میں خرق اجماع نظر نہیں آتا ہے مگر چوں کہ یہ تلفیق الگ الگ اعمال ہیں اسی لیے اس تلفیق کو تلفیق حقیقی کی طرح ممنوع نہیں کہینگے ۔ اور تلفیق غیر حقیقی یعنی مجازی اگر مجتہد ضرورت کے پیشِ نظر کرے تو یہ جائز ہے۔
*جو حضرات تلفیق کو مطلقاً جائز اور ناجائز کہتے ہیں ان کے دلائل کیا ہیں ؟*
تلفیق بین المذاھب کے جواز اور عدم جواز کے سلسلے میں مختلف اقوال ہیں ، حافظ ابن حجر اور علامہ شامی نے تلفیق کے ممنوع ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، ” و إن الحكم الملفق باطل بالإجماع” ( كتاب الصلاة/ باب الأذان 55)
اس رائے کے بارے میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں کہ ” یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ اس کو ثابت کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں” ( قاموس الفقہ ( 2/533)
بیش تر علماے کرام کے نزدیک تلفیق سرے سے ممنوع ہے، شیخ علی اجہوری شافعی اور علامہ قرافی مالکی بھی تلفیق کی ممانعت کے قائل ہیں ، کیونکہ تلفیق کی وجہ سے خرق اجماع لازم کی نوبت آتی ہے ۔ ( قاموس الفقہ 2/ 533 / تیسیر التحریر :4/254) ۔
جب کہ بعض دیگر فقہا نے اس جائز قرار دیا ہے ، جائز کہنے والے فقہا میں نمایاں نام علامہ شہاب الدینؒ مالکی قرافی، علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ ابن القیمؒ اور عبد الرحمن معلمیؒ ہیں۔(التلفیق فی الاجتھاد والتقلید، ڈاکٹر ناصر المیمان، ص۱۸۱)
موجودہ زمانے میں بین الاقوامی اسلامی فقہی فورم(جدہ، سعودی عرب) نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے ، لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ ، کیونکہ موجودگی حالات میں حرص و ہوس کا جیسا غلبہ ہے اس تقاضا یہی ہے کہ اس کو شرطوں کے ساتھ مشروط کیا جائے کھلی چھوٹ نہ دیا جائے ۔
ذیل میں ان کی تجویز کردہ شرائط کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے:
۱-تلفیق کے نتیجے میں کسی ممنوع وحرام چیز کاجواز برآمد نہ ہوتا ہو۔
۲- تلفیق کی رو سے مسلمان حاکمِ وقت کا کوئی فیصلہ مسترد نہ ہوتا ہو۔
۳- تلفیق سے کسی معمول بہ تقلیدی حکم کا ابطال نہ ہوتا ہو۔
۴- اجماع یا اس کے لوازمات متأثر نہ ہوتے ہوں۔
۵- کوئی ایسا حکم یا حالت ترکیب نہ پاتی ہو جس پرکبھی کسی مجتہد کا عمل نہیں رہا ۔
*فقہی ابواب کے اعتبار سے تلفیق کی تقسیم*
تلفیق بین المذاھب بعض فقہی ابواب میں جائز ہے اور بعض میں جائز نہیں ہے ، اس طرح کی تفصیل ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اپنی کتاب اصول فقہ میں کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پر لکھا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں کہ عقائد ، ایمان اور اخلاق سے متعلق ابواب میں تلفیق کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، اور ان ابواب میں تلفیق سے کام لینا درست نہیں ہے ۔
جہاں تک بات فروعی اور اجتہادی مسائل کی ہے تو اس کو ڈاکٹر صاحب نے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلی قسم : "ما بني في الشريعة على اليسر و التسامح مع إختلافه بإختلاف أحوال المكلفين "
دوسری قسم: "ما بني على الورع و الإحتياط "
تیسری قسم : "ما يكون مناطه مصلحة العباد و سعادتهم "
پہلی قسم جس کا تعلق عبادات سے ہے تو عبادات میں ضرورت کے پیشِ نظر تلفیق جائز ہے ، دوسری قسم جس کا تعلق محظورات یعنی ممنوعات سے ہے تو اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ اس صورت میں شرعی ضرورت کی بنیاد ہی پر تلفیق کی اجازت ہوگی ورنہ نہیں ۔
اور تیسری صورت جن کا تعلق معاملات سے ہے تو اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ اگر ان کی اصل تحریم ہو تو اس میں تلفیق ممنوع ہے ،لیکن اگر ان کی بنیاد انسانی مصلحتوں پر ہو تو اس میں تلفیق کی اجازت ہوگی ۔
*نئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں اجتماعی غور و خوض اور اجتہاد کے موقع پر مسائل کا قابل عمل حل نکالنے کے لیے تلفیق بین المذاھب کا استعمال :*
نئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنا اور امت کی صحیح رہنمائی کرنا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ، لہذا اگر اجتماعی غور و خوض اور اجتہاد کے موقع پر مسائل کا قابل عمل حل نکالنے کے لیے تلفیق بین المذاھب ہر عمل کرنے کی ضرورت آن پڑے تو ضروری شرائط کی رعایت کے ساتھ عمل کر سکتا ہے ، یا نہیں کرسکتا ہے ؟ تو اس سلسلے میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے کہ ” اگر اعتماد فقہاء کرام دور جدید کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور امت سے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے لیے ضروری شرائط کے ساتھ رخصت اور تلفیق اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کریں تو میری رائے میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے” (مباحث فقیہہ: 142)
وہ ضروری شرائط درج ذیل ہیں:
ذیل ان شرائط کو بھی ذکر کیا جارہا ہے جن کو قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے:
(1) تقلید کے طور پر جو عمل ہوچکا ہو اس رجوع نہ لازم آئے ۔
(2)اس سے لازمی اجماع سے رجوع نہ لازم آتا ہو
(3) علماء کے نادر اور شاذ اقوال کو اختیار نہ کرے
(مباحث فقیہہ:141)
جہاں تک بات ہے انفرادی طور پر فتاویٰ دینے میں ضرورت محسوس کرنے پر تلفیق پر عمل کرنے کی ہے تو اس کی اجازت ضروری شرطوں کے ساتھ بھی نہیں ہوگی ، کیونکہ اس میں تشہی اور خرق اجماع کا امکان زیادہ ہے
*تتبع الرخص کی لغوی اور اصطلاحی معنی: *
عربی زبان میں تتبع کا معنی ہے تلاش کرنا ، اور رخصت کے لغوی معنیٰ تسہیل ،تخفیف ،تیسیر کے آتے ہیں۔ (مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج۲، ص ۵۰۰۔ لسان العرب،ابن منظور، ج۷، ص۴۰)
اصطلاحی تعریف:
تتبع رخص یہ بھی ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسی فقہی رخصتوں کو چن چن کر اختیار کرنا جو مختلف مذاہب کے یہاں موجود ہیں، محض خواہش نفس یا آسانی کے لیے، بغیر شرعی ضرورت یا مجبوری کے۔
قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ اپنی کتاب مباحث فقیہہ میں لکھتے ہیں: ” کہ تتبع رخص کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر مسئلہ میں فقہاء اور مجتہدین کے مذاہب و اقوال میں سے اس قول کو اختیار کرے جو زیادہ آسان ہو ، اور مشہور ائمہ کرام میں سے کسی ایک امام کا پابند نہ رہے ، اور اس انتخاب و اختیار کی بنیاد دلائل کی قوت یا ورع تقوٰی اور احتیاط پر نہ ہو بلکہ فقہاء کے کسی قول اور رائے کے اختیار کرنے کی بنیاد محض تخفیف ، یسر اور سہولت ہو ” ( مباحث فقیہہ: 123 )
*تتبع رخص کی قسمیں اور ان کے احکام و دلائل کیا ہیں ؟*
تتبع رخص کے بارے میں فقہاء اور اصولیین کے یہاں مختلف آراء موجود ہیں ، بعض متقدمین اور متاخرین فقہاء کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر کسی مکلف نے آسان اور سہل قول کو اختیار کیا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے حرج اور تنگی کو دور کیا ہے، آسانی اور سہولت فراہم کیا ہے ۔
دوسرے بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ تتبع رخص قطعاً ممنوع ہے کیونکہ اس کا مقصد تشہی اور خواہش نفس کی پیروی ہے، اور ایسے انسان خواہشات پر چلنا چاہتا ہے ۔
جب کہ تیسری رائے یہ ہے کہ عام حالتوں میں تتبع رخص درست نہیں ہے ہاں اگر ضرورت اور متقاضی ہو تو ایسے قول کو اختیار کرنا جائز ہے جس میں یسر و تیسیر ہو ۔
*تتبع رخص کے جائز کہنے والے اور نا جائز کہنے والوں کے دلائل کتاب و سنت سے کیا ہیں ؟*
وہ حضرات جو عدم جواز کے قائل ہیں یعنی جن کے نزدیک تتبع رخص ناجائز ہے ، ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ انسان تتبع رخص کے ذریعے سے خواہش نفسانی کی پیروی کرتا ہے نہ کہ شریعت کی ، اور شریعت میں خواہش نفسانی کی پیروی جائز ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” فإن تنازعتم في شئ فردوه إلي الله و الرسول” اس سے معلوم ہوا کہ انسان صرف و صرف قرآن و حدیث ہی پیروی کر سکتا ہے اس کے علاوہ انسان کے لیے کسی بھی چیز کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے ، اسی یہ حضرات عدم جواز کے قائل ہیں ۔
وہ حضرات جو جواز کے قائل ہیں ، اور تتبع رخص کو جائز کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت میں اس کی ممانعت پر کوئی واضح دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے ، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ کی سنت مبارکہ سے بھی ہمیں اس کے جواز کا ثبوت ہمیں ملتا ہے ، کیونکہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اللہ رسول نے آسان کو اختیار کیا اور مشکل کو چھوڑ دیا ۔ "ما خير بين شيئين إلا إختار أيسرهما” بخاري
اسی طرح اللہ کے رسول نے ایک موقع پر اور فرمایا: "إن هذا الدين يسر و لم يشاد الدين أحد إلا غلبه ”
*تبع رخص اور تلفیق بین المذاھب دونوں ایک ہیں ؟ یا دونوں میں فرق ہے ؟ اگر فرق ہے تو کیا ہے ؟*
تتبع رخص اور تلفیق بین المذاھب دونوں ایک نہیں ہیں ، دونوں فرق ہے ، نیچے ان فرقوں کو قلم بند کیا جارہا ہے ۔
1-تتبع کے ذریعے سے اختلافی مسائل میں آسان قول پر عمل ہوتا ہے،جب کہ تلفیق کے ذریعے کسی ایک مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ اقوال کو جمع کرکے ان سے کسی شرعی حکم کا استنباط کیا جاتا ہے۔
2-تلفیق کے ذریعے فقہا کے اقوال میں تصرف کر کے ایسا حکم نکالا جا سکتا ہے جو کسی مجتہد نے کبھی مستنبط نہ کیا ہو، جب کہ تتبع میں صرف موجودہ اقوال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنا مطلوب حاصل کیا جاتا ہے۔
3-تلفیق کا عمل بسا اوقات اجماع کی مخالفت کا سبب بن جاتا ہے ،جب کہ تتبع میں نقضِ اجماع کا امکان نہیں ہوتا۔
دور حاضر کے نئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں تتبع رخص سے مدد لی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
یہی سوال تلفیق بین المذاھب سے متعلق بھی تھا تو اس سلسلے میں یہ کہا گیا تھا ، کچھ شرطوں کے ساتھ اجتماعی اجتہاد میں اس کی اجازت ہوگی اسی طرح تتبع رخص کی بھی اجتماعی اجتہاد میں اجازت ہوگی ، جیسا کہ قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے: ” اگر اعتماد فقہاء کرام دور جدید کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور امت سے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے لیے ضروری شرائط کے ساتھ رخصت اور تلفیق اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کریں تو میری رائے میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے” (مباحث فقیہہ: 142)
وہ ضروری شرائط درج ذیل ہیں:
ذیل ان شرائط کو بھی ذکر کیا جارہا ہے جن کو قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے:
(1) تقلید کے طور پر جو عمل ہوچکا ہو اس رجوع نہ لازم آئے ۔
(2)اس سے لازمی اجماع سے رجوع نہ لازم آتا ہو
(3) علماء کے نادر اور شاذ اقوال کو اختیار نہ کرے
(مباحث فقیہہ:141)
جہاں تک بات انفرادی طور پر ضرورت محسوس کرنے پر تتبع رخص پر عمل کی بات ہے تو اس کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ انفرادی طور پر غلطی کا قوی امکان ہے ( واللہ اعلم باالصوا
ی*
استشراق انحرافات غامدی بچوں کی تربیت کیسے کریں بچوں کی تعلیم و تربیت تربیت کے ضروری اصول و ہدایت تعلیم و تربیت جاوید احمد غامدی خواتین کی تعلیم و تربیت/ خواتین کی تعلیم و تربیت/ اسلامی نظام تعلیم رجم رجم اور دلائل رجم رجم کیا ہے ؟ سوانح ابن تیمیہ علامہ انور شاہ کشمیری: حیات و خدمات علامہ انور شاہ کشمیریؒ — برصغیر کے علمی آسمان کا درخشاں ستارہ مستشرقین مستشرقین سے کیا مراد ہے ؟ مستشرقین کون ہیں ؟ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل یکساں سول کوڈ اور ان کے نقصانات