ہندوستانی مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہو ؟
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
وحدت و اجتماعیت میں ہی ہمارے مسائل کا صحیح حل ہے، ہندوستان میں ہم مسلمان اقلیت میں ہیں، یہاں ہم کو کس طرح ملی اجتماعی اور سیاسی زندگی گزارنی ہے، اس مضمون میں اکابر کی تحریروں کی روشنی میں مناسب حل اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے، قارئیکان سے درخواست ہے کہ اس پر مناسب تبصرہ و تجزیہ بھی پیش فرمائیں ، ضروری نہیں ہے کہ مضمون نگار کے سارے آراء سے اتفاق ہی کیا جائے ۔ م ق ن
غیر مسلم ممالک میں آباد مسلم اقلیتوں کی اجتماعی، ملی ،سیاسی اور تنظیمی زندگی کس طرح اور کیسی ہو؟ اس پر گفتگو کرنا، اور اس پہلو سے عوام الناس کی رہنمائی کرنا موجودہ حالات میں بہت زیادہ ضروری ہے ۔
غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب اجتماعی زندگی گزاریں، وحدت و اجتماعیت کو اپنا نصب العین بنائیں اور اس وحدت و اجتماعیت کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ،کسی صاحب علم و بابصیرت شخص کو اپنا مقتدیٰ اور امیر بنا لیں جو ارباب حل و عقد کے مشورے سے زندگی کے تمام میدانوں میں مسلمانوں کے لیے منصوبہ سازی کرے اور لائحہ عمل متعین کرے اور کسی امیر پر متفق نہ ہونے تک اصحاب فہم و فراست ارباب اخلاص و تقویٰ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اجتماعی زندگی اور ملی مسائل میں امت مسلمہ کی رہنمائی کرے اور بدلتے ہوئے حالات میں لائحہ عمل طے کرتی رہے ،اجتماعیت اور اعتصام بحبل اللہ اسلام میں مطلوب ہے ،جماعت اور اجتماعیت کے بغیر مسلمانوں کا زندگی گزارنا اپنے دینی ملی اور قومی تشخص کو خطرے میں ڈالنا ہے، قرآن نے کہا ہے،، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ،(آل عمران)اللہ کی رسی کو یعنی اس کے دین کو مضبوطی سے پکڑوا اور تفریق کا شکار نہ بنو ۔
دوسری جگہ ہے ،، ولا تکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ماجاءھم البینات و اولئیک لھم عذاب عظیم ،، آل عمران/ ان لوگوں کی طرح مت بن جاؤ جو آپس میں فرقے بن گئے اور اختلاف میں پڑ گئے ،اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی ہوئی ہدایتیں آچکی تھیں ۔ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے ۔
امام احمد بن حنبل رح نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، جس طرح بھیڑیا اکیلی ریوڑ سے دور اور کنارے رہ جانی والی بکریوں 🐐 🐐 🐐 کو پکڑ لے جاتا ہے، اسی طرح شیطان ایک بھیڑیا ہے، جو تم میں سے ان لوگوں کو گمراہ کر لینے میں جلد کامیاب ہو جاتا ہے جو جماعت سے الگ تھلگ ہوں ،پس کبھی گروہ بندیوں میں مت پڑنا ۔اور جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رہنا ۔۔
یہ حدیث مسلمانوں کی زندگی میں جماعتی نظام کی ضرورت پر واضح دلیل ہے کہ انفرادیت شیطانی بھیڑیے کا شکار بنا دیتی ہے ۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جماعت سے ایک ذرہ علیحدگی اختیار کی اس نے اسلام کا طوق اور قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا ۔
جہاں تک بات ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کریں یا نہ کریں ؟ ان کے لیے کیا بہتر ہوگا ؟ یا وہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر رہیں اور اپنے حقوق اور دستور کی لڑائی ان پارٹیوں کے ساتھ مل کر لٹتے رہیں اور جمہوری ملک میں جمہوری حقوق کے ساتھ مذہبی آزادی کے ساتھ رہیں، تو اس سلسلہ میں گفتگو کرنے سے پہلے یہاں کی زمینی حقیقت کو جاننا ضروری ہوگا ۔۔
،”سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم ہیں کون ہیں، ہندوستان میں ہماری اصل حیثیت کیا ھے؟ اور یہاں ہم کس حد تک اپنا پاؤں پسار سکتے ہیں ؟
دستوری طور پر تو ہم بٹوارے کے بعد بھی ہندوستان کی متحدہ قومیت میں ہیں ۔ مگر اصل میں ہیں، ہندوستان کی ایک اقلیت ۔ چونکہ یہاں اب جمہوری نظام قائم ہے اور جمہوریت میں تعداد ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ اس لئے ہمارا مقام و منصب یہاں حکمت اور سوجھ بوجھ سے طے ہوگا ، نہ کہ تعداد سے ۔ تعداد سے اکثریت کا مقام بنتا ہے، اقلیت کا نہیں ۔ یہیں سے وہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی ملک میں اقلیت کا مقام و مرتبہ سیاست کے راستے سے طے نہیں ہوسکتا ۔ سیاست میں اگر ہم پوری طرح متحد بھی ہوجائیں اور ہمارے لیڈر حکومتوں کو للکارتے بھی رہیں، تو بھی اس کا کوئی ٹھوس فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملےگا۔ بلکہ برعکس طور پر یہ اکثریت کیلئے دلیل بنےگی۔ یاد رہے اقلیت کی للکار سے اکثریت جاگتی ہے، اقلیت نہیں ۔ اس تلخ حقیقت کو ملک کی دوسری اقلیتوں نے سمجھ لیا ہے ۔ اس لئے انہوں نے کبھی قومی سطح پر الگ سےکوئی سیاسی پارٹی نہیں بنائی، بلکہ mainstream parties میں رہکر ہی تمام سیاسی معاملوں کو طے کیا۔ مسلمانوں کی بھی کوئی سیاسی پارٹی قومی سطح پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکی، مگر مسلم لیگ، انصاف پارٹی، مجلس اتحاد المسلمین وغیرہ نے اس کوشش میں للکارنے والا انداز اختیار کیا جس کی وجہ سے ہندو رائے عامہ مسلمانوں کے خلاف ہوگئی۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کسی ملک میں اقلیتوں کی طاقت کا راز سیاست میں نہیں بلکہ تعمیری اور فلاحی کاموں ( social contribution) میں ہوتا ہے، جو وہ اپنے ملک میں تمام لوگوں کیلئے انجام دیتی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ جمہوری نظام میں کسی اقلیت کے لئے سیاسی غلبہ حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے ۔ (ویسے اللہ چاہے تو پھر ماضی کی تاریخ قائم ہوسکتی ہے ،وما ذلک علی بعزیز ،، لیکن اس کے لیے وہی دل، گردہ ہمت اور حوصلہ درکار ہے, جو کار جہاں بانی کے لیے شرط ہے)
مسلم قومیت پر سیاست کرنے والے لیڈرز ہمیں بار بار تاکید کرتے ہیں کہ اپنی طاقت پیدا کرو ۔ اپنی قیادت تیار کرو ۔اپنی پارٹی بناؤ وغیرہ ، درآنحالیکہ سیاست کوئی خالی سیٹ نہیں جہاں جاکر آپ براجمان ہو جائیں ۔ دنیا میں کہیں بھی کسی اقلیت کو حسبِ خواہش سیاسی عظمت نہیں مل سکتی ۔ یہ ایکدم نا ممکن سی چیز ہے’ الا یہ کہ ملوکیت قائم ہوجائے ۔
بٹوارے کے بعد اب ہمارے پاس ایک ہی اوپشن رہ گیا ہے کہ ہم صرف king maker بنیں ، king بننے کی خواہش دل سےنکال دیں۔ اس میں قومی سطح پر ہماری عزت بھی رہیگی’ اہمیت بھی اور سیکولر پارٹیاں ہمارے ووٹوں کے محتاج بھی رہیں گی” ۔(ایک صاحب نظر عالم کی تحریر سے مستفاد)
ذیل کی تحریر سے ممکن ہے ہمارے بہت سے قارئین اتفاق نہ کریں اور وہ اس تحریر کو بزدلی بے ہمتی اور بے شعوری قرار دیں اور اس تحریر اور فکر اور نظریہ کو غیر منطقی قرار دیں ۔
لیکن راقم الحروف کا نظریہ تقریباً یہی ہے کہ اب ملک کی تقسیم کے بعد(جب مسلمان یہاں اب پندرہ یا بیس فیصدی ہیں)ہندوستان میں خالص مسلم سیاست اور علیحدہ مسلم پارثی کا قیام کسی طرح بہتر نہیں ہے ، (البتہ بعض صوبوں کے بعض حصے میں یا صوبئہ کشمیر و آسام کے بعض سیٹوں پر اس کی گنجائش ہے، جہاں بعض حصوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور کشمیر میں تو مسلمان ہی وزیر اعلیٰ بنتے ہیں)…….
لیکن پورے ہندوستان میں اس فارمولے پر عمل کرنا اور علیحدہ مسلم پارثی کا قیام یہ کسی طرح دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔ ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے اس ملک کی نوعیت الگ تھی، لیکن اب صورتحال کچھ اور ہے ۔ سیاست میں بہت کچھ تبدیلیاں حالات و واقعات کے الٹ پھیر اور ملکی جغرافیہ اور آبادی کے کم و بیش سے آتی ہیں۔
اگر سارے مسلم کسی ایک مسلم پارٹی کے نام پر متحد ہو جائیں گے تو بتائیے کہ ملک کے ایوان بالا اور ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے کتنے ممبران اور اراکین جیت کر جاسکتے ہیں اور وہاں مسلم مسائل کو اٹھا سکتے ہیں ، ۔۔۔ آپ مثال میں کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں سکھ متحد ہوکر اپنی پارٹی کو جیت دلاتے ہیں تو یاد رہے کہ اس صوبہ میں سکھ اکثریت میں ہیں ،جس طرح کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔
اگر مسلم پارٹی کا قیام ہوگا اور مسلمان سیکولر پارٹیوں سے علیحدہ ہوکر مسلم پارٹی کو صرف ووٹ کریں گے اور برادران وطن وہ متحد ہوکر اپنے نظریے کے حامی پارٹی کو ووٹ کریں گے تو ملکی سیاست کا منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس سے آپ سب واقف ہیں ۔
اس لیے ملک کی زمینی حقیقت اور سیاسی بساط کو سمجھے بغیر صرف جذباتیت کی بنیاد پر علیحدہ مسلم پارٹی کی وکالت کرنا اور اس پر زور دینا یہ کسی طرح مناسب نہیں ہوگا ۔۔۔
ہمیں اس ملک میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے پہلے بحیثیت مسلم ایک سچا پکا مسلمان بننا ہوگا ، تعلیم ، قانون، ،تجارت ،معیشت، دفاع اور دیگر شعبوں میں مضبوط ہونا ہوگا اور جمہوریت نواز اور سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مضبوطی اور حکمت عملی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور بحیثیت ایک مسلم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا اور مسلمانوں کو خود باہم ایک ہونا ہوگا اور ایک پلیٹ فارم پر مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔
ماضی کے سیاسی واقعات اور مشاہدات سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان میں علیحدہ مسلم سیاسیت اور علیحدہ مسلم پارٹی کا قیام موثر اور مفید نہیں رہا اور اس کے مثبت نتائج نہیں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے میری سمجھ میں اس ملک میں جمہوری حکومت کو مضبوط کرنا اور متحدہ قومیت کے نظریہ کو فالو کرنا یہ زیادہ مناسب ہوگا اور اس سے ہی ملک میں امن و شانتی اور استحکام کی فضا قائم ہوگی ۔۔۔۔۔
بہر حال سیاسی میدان میں بھی مسلمانوں کے اندر اجتماعیت اور اتحاد ہونا ضروری ہے اور سیاسی امور میں بصیرت رکھنے والے مخلص مسلمانوں کا اس پر کار بند ہونا از حد ضروری ہے ،مسلمانوں کی کیف مااتفق سیاست میں شرکت ان کے لیے نفع بخش کے بجائے ضرر رساں ہوگی ۔