بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین ازدواجی رشتے بن
معاویہ محب الله
تاریخ کی کتابوں میں یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ قریش کے دو بڑے خاندان؛ بنو ہاشم اور بنو امیہ میں قدیم رقابت تھی، اسی رقابت کا نتیجہ تھا کہ دونوں کے مابین عہدِ جاہلیت، عہدِ نبوی، دورِ خلافتِ راشدہ اور خصوصاً خلافتِ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانہ میں یہ رقابت خوب ابھر کر سامنے آئی، اس سلسلے میں بہت سارے مصنفین نے یہ غلطی کی ہے اور چند جزوی واقعات سے استدلال کرکے بہت بڑا نتیجہ اخذ کرلیا کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ میں خاندانی رقابت وعداوت چلی آرہی تھی۔
یہاں تک کہ اردو کے عظیم سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اور قاضی سلیمان منصورپوری نے بھی لکھ دیا کہ خاندان بنو ہاشم اور بنو امیہ برابر کے حریف تھے اور دونوں میں مدت سے رشک و رقابت چلی آرہی تھی، سیاسی اختلافات مستقل الگ مسئلہ ہے اور دیگر معاشرتی امور میں تعلقات مستقل الگ موضوعِ بحث ہیں۔
عبد مناف کی متعدد اولادوں میں سے ہاشم اور عبد شمس؛ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے جد امجد ہیں، گرچہ بنو امیہ کا خاندان عبد شمس کے بڑے بیٹے امیہ بن عبد شمس کے نام سے زیادہ معروف ہوا، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی نے لکھا ہے کہ عبد مناف کی اولادوں کا خاندان متحدہ طور پر عہد نبوی کے بعد تک عموماً بنو عبد مناف ہی کہلاتا رہا، اسی بات کی تائید سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے؛ رسول الله نے خیبر کے غنائم میں سے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو عنایت کیا، اس پر بنو عبد الدار سے جبیر بن مطعم اور بنو عبد شمس سے عثمان بن عفان نے دریافت کیا: "قسمت لاخواننا بنی ھاشم و بنی المطلب، و قرابتنا واحدۃ!”۔(سنن ابن ماجہ، رقم ۲۸۸۱)
ان دونوں خاندانوں میں تجارتی تعلقات بالکل اسی طریقہ پر استوار ہوتے تھے جیسے کسی معاشرہ میں ہوتے ہیں، ایسے ہی ازدواجی تعلقات کسی معاشرہ کی جڑ ہوا کرتے ہیں، دلچسپ بات یہ کہ عہدِ جاہلیت سے لیکر عہد بنو عباس تک دونوں خاندانوں میں ازدواجی تعلقات کا سلسلہ جاری رہا، سیاسی سطح پر کچھ افراد بنو ہاشم اور بنو امیہ میں کشمکش و کشاکش ضرور تھی مگر یہ کوئی خاندانی رقابت و دشمنی کا معاملہ نہ تھا جس میں دونوں قریشی خاندان ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ دو الگ الگ متحارب و متصادم گروہوں میں بٹ گئے ہوں۔
سیرت اور تاریخ کے مصنفین نے دو خاندانوں کے اس حسین پہلو کو موضوعِ بحث بنا کر اجاگر ہی نہیں کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سیاسی افراتفری اور اندرونی کشاکش اتنی بڑھ گئی تھی کہ مؤرخوں نے اپنی ساری توجہ سازشوں، ریشہ دوانیوں اور سیاسی افراتفری پر مبذول رکھی کہ وہی ان کی دلچسپی کا محور تھا اور تاریخ کے تہذیبی، تمدنی اور معاشرتی حسین پہلؤوں کو نظر انداز کر دیا، ڈاکٹر مظہر صدیقی صاحب نے بھی یہی اسباب بیان کئے ہیں۔
بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین تقریبا ۵۱ ازدواجی رشتوں کا ذکر ملتا ہے، پروفیسر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے اپنی تحقیقی کتاب "بنو ہاشم اور بنو امیہ میں ازدواجی تعلقات” میں بالتفصیل بیان کیا ہے، یہ تو صرف وہی رشتے ہیں جن کا تعلق اشراف و سادات اور حکمران طبقہ کے لوگوں سے ہیں، ورنہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عوام بنو ہاشم اور بنو امیہ کے رشتوں کی تعداد تو تاریخ کے صفحات میں دستیاب ہی نہیں ہے، سچی بات تو یہ کہ ہر سطح کے تاریخی صفحات میں بیچارے عوام کو کب جگہ ملتی ہے؟
عبد المطلب بن ہاشم نے اپنے بدنام بیٹے عبد العزی بن عبد المطلب جو ابو لہب کے نام سے معروف تھا؛ کا نکاح مشہور اموی سردار حرب بن امیہ کی بیٹی ام جمیل سے ہوئی تھی، جسے قرآن مجید میں "حمّالة الحطَب” کہا گیا ہے۔
عبد المطلب بن ہاشم نے اپنی بڑی صاحبزادی "بیضاء ام حکیم” کا نکاح ممتاز اموی فرد "کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس” سے کیا تھا، ان کی اولاد میں عامر بن کریز اور ارویٰ بنت کریز پیدا ہوئیں، یہی ارویٰ بنت کریز سیدنا عثمان بن عفان کی والدہ ہیں، اس اعتبار سے عثمان بن عفان اموی ؛ عبد المطلب ہاشمی کے پَر نواسے، ابو طالب، عباس اور حمزہ کے نواسے اور حضور صلی الله علیه وسلم کے بھانجے ہوتے ہیں۔
عبد المطلب ہاشمی کی دوسری بیٹی سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب کا پہلا نکاح باتفاقِ علماء انساب حارث بن حرب بن امیہ سے ہوا تھا، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ پھر سیدہ صفیہ کا دوسرا نکاح عوّام بن خوَیلد اسدی سے ہوا، یہی حضور صلی الله علیه وسلم کی پھوپھی سیدنا زبیر بن العوام کی والدہ تھی۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدۃ زینب کا نکاح "لقیط بن ربیع بن عبد شمس” سے ہوا تھا جو ابو العاص اموی سے زیادہ معروف تھے، اتفاق یہ کہ ابو العاص سیدۃ خدیجہ کے بھانجے بھی ہوتے تھے۔ سیدنا ابو العاص اموی غزوۂ بدر کے قیدیوں میں اسیر بن کر آئے تھے، اور بطور فدیہ سیدہ زینب نے اپنی والدہ دیا ہوا ہار دیا، اس پر حضور کی آنکھیں اشک بار ہوگئی، سیدہ زینب کی اولاد میں بڑی بیٹی امامہ بنت ابی العاص اموی جو رسول الله کی چہیتی نواسی تھی۔
سیدۃ رقیہ بنت رسول الله کا نکاح بعثتِ نبوی کے وقت ہی سیدنا عثمان بن عفان اموی سے ہوگیا تھا، دونوں نے سنه ۵ نبوی میں حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی پھر مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے، غزوۂ بدر کے موقع پر سیدۃ رقیہ کی تیمارداری ہی کی وجہ سے سیدنا عثمان بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے، دونوں نے دس سال سے زیادہ کی رفاقت کے ساتھ زندگی گزاری۔
سیدۃ رقیہ کی وفات کے بعد تیسری صاحبزادی سیدۃ ام کلثوم بنت محمد کا نکاح بھی سیدنا عثمان بن عفان اموی کے ساتھ ہوا، وہ حضرت عثمان کے ساتھ ۶ برس رہیں۔
مشہور اموی سردار سیدنا ابو سفیان بن حرب کی بیٹی ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان کا پہلا نکاح بنو ہاشم کے حلیف سیدنا عبید الله بن جحش سے ہوا، ان کی وفات کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور امہات المؤمنین کا شرف حاصل کیا۔
عہدِ نبوی میں حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب ہاشمی نے ہند بنت ابی سفیان اموی سے نکاح کیا تھا، جو سیدۃ ام حبیبہ کی بہن تھی، اس لحاظ سے حارث بن نوفل حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہم زلف تھے۔
سیدنا علی المرتضیٰ کے بڑے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب ہاشمی کا نکاح مشہور اموی سردار عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی فاطمہ بنت عتبہ سے ہوئی تھی۔
سیدنا علی المرتضیٰ نے ابو العاص اموی کی بیٹی اور رسول اللہ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص اموی سے نکاح کیا تھا اور وہ حضرت علی کے نکاح میں کم و بیش تیس سال تک رہیں۔
اگر ننہالی رشتے کا اعتبار کیا جائے تو سیدنا حسین بن علی بھی سیدنا ابو سفیان اموی کے بنت داماد اور سیدنا معاویہ کے بھتیج داماد تھے، وہ اس طرح کہ سیدنا حسین کا ایک نکاح لیلیٰ بنت ابی مرّہ ثقفی سے ہوا تھا، اور لیلیٰ بنت ی مرّہ ثقفی در اصل سیدۃ میمونہ بنت ابی سفیان اموی کی بیٹی تھی۔
اسی طرح زیاد بن ابی سفیان اموی کی بیٹی جویریہ کا نکاح عبد الرحمٰن بن عباس بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب ہاشمی سے ہوا تھا اور یہ نکاح سیدنا معاویہ کے عہدِ خلافت میں ہوا۔
یہ تو بہت ہی مختصر فہرست پیش کردی ہے، ورنہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین پورے اکیاون رشتے نام بنام لکھے ہوئے موجود ہیں۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے اس موضوع پر تفصیلی مقالات مرتب کئے تھے جو بالترتیب مئی، جون، جولائی اور اگست ۱۹۸۰ ماہنامہ برہان کے شماروں میں شائع ہوچکے ہیں، راقم نے ان تمام اقساط کو مرج کردیا ہے، جن کے مجموعی صفحات ۱۰۰ سے زائد ہیں، جن احباب کو استفادہ کرنا ہو وہ مذکورہ لنک سے ڈاؤنلوڈ کرلیں!