تم رہو زندہ جاوداں ، آمیں از : ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
تم رہو زندہ جاوداں، آمیں!
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
سیاست کی پرپیچ دنیا میں ایسے لمحات کبھی کبھی آتے ہیں جب طاقت کی ترازو میں ہلکی سی جنبش حالات کا پیمانہ بدل دیتی ہے، عسکری قوت، سفارتی دباؤ اور سیاسی جال سب ایک طرف رہ جاتے ہیں، اور صبر، عقل اور موقع شناسی ایک چھوٹی سی جماعت کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں بڑی قومیں صدیوں کی تیاری کے باوجود نہیں پہنچ پاتیں، فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے حالیہ دنوں میں وہی کر دکھایا جس کا تصور اعلیٰ سیاسی دماغ رکھنے والی قوتیں بھی کم ہی کر پاتی ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکہ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایسا اعلان کیا جو دنیا بھر کے حساس دلوں پر بجلی بن کر گرا، ایسا لگا کہ غزہ کا باب بند ہو گیا ہے، قضیۂ فلسطین کی آخری سطر لکھی جا چکی ہے، اور حریت کا چراغ بجھنے کو ہے، نیتن یاہو نے اس کے بعد اپنی وہ ویڈیوز جاری کیں جن میں وہ فتح کے نشے میں سرشار دکھائی دیا، گویا ظالم کے سر پر کامیابی کا سہرا سجا دیا گیا ہو، اور حق کو قدموں تلے روند دیا گیا ہو، ٹرمپ نے اس آتش خاموش کو اپنی دھمکیوں سے اور گرمایا کہ "اگر حماس نے معاہدے پر دستخط نہ کیے تو ہم انہیں جہنم میں جھونک دیں گے”، اس خبر نے فضا میں مایوسی اور بے بسی کی ایسی لہر دوڑائی کہ دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لیے وہ رات بے خواب بن گئی۔
لیکن تاریخ ہمیشہ آخری فیصلہ طاقت کے ایوانوں میں نہیں کرتی، اسی گھڑی جب سب کچھ ختم ہوتا نظر آ رہا تھا، قطر کے دار الحکومت دوحہ میں ایک خاموش مگر فیصلہ کن سرگرمی شروع ہوئی، ترکی، مصر اور قطر کے نمائندے ایک میز پر جمع ہوئے، ترک انٹیلیجنس کے سربراہ، اسلامی اسکالر اور صدر ترکیہ کے خصوصی مشیر ابراہیم کالین، مصری انٹیلیجنس کے سربراہ اور قطری حکام سخت سکیورٹی میں خفیہ مذاکرات میں مصروف عمل تھے، ادھر غزہ میں حماس کے رہنما مختلف مزاحمتی گروہوں کے ساتھ بیٹھے تھے، اندرونِ خانہ طویل گفتگو جاری تھی، سوال ایک ہی تھا: اس سیاسی محاصرے کو کیسے توڑا جائے، اس دباؤ کو کس تدبیر سے پلٹا جائے؟
دو برس کی طویل جنگ، بمباری اور ناکہ بندی نے حماس کے مادی وسائل کو ختم کردیا تھا مگر اس کے ارادے بدستور فولاد کی طرح ٹھوس تھے، حماس کی یہی عزیمت ترکیہ اور قطر کی سفارتی ذہانت سے جا ملی اور ایک نئی حکمت عملی نے جنم لیا، فیصلہ ہوا کہ ٹرمپ کی پیش کردہ تجویز کو نہ مکمل رد کیا جائے گا نہ من وعن قبول، اس درمیانی راہ نے اسرائیلی منصوبے کو الٹ دیا، جس منصوبے کا مقصد حماس کو عالمی سطح پر تنہا اور مطعون کرنا تھا، وہی اب اسرائیل کے گلے کا طوق بن گیا:
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
اسی دوران ایک نہایت اہم موڑ آیا، اسرائیلی قیدیوں کا مسئلہ، جو اب تک حماس کے لیے ایک طاقتور دباؤ کی علامت سمجھا جاتا تھا، بدلتے حالات میں بوجھ بنتا جا رہا تھا، اسرائیل نے ان کی موجودگی کے باوجود غزہ پر قہر برسایا، نیتن یاہو نے ابتدا ہی سے انہیں محض ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا تھا، اس موقع پر سوال اٹھا کہ کیا قیدیوں کو رہا کر دینا زیادہ دانش مندی نہیں ہوگی؟ اس کے نتیجے میں اسرائیل اپنے سب سے بڑے پروپیگنڈے سے محروم ہو جائے گا، دنیا کو یہ احساس ہوگا کہ امن کی راہ میں رکاوٹ حماس نہیں بلکہ اسرائیل ہے؛ چنانچہ حماس نے اس اقدام کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنی شبیہ بدل دی، اب وہ ایک مزاحمتی گروہ نہیں بلکہ امن پسند فریق کے طور پر سامنے آیا۔
اس فیصلے کے بعد ایک غیر معمولی بیان تیار کیا گیا، ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان اور ابراہیم کالین نے ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مشیرِ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ (Special Envoy to the Middle East) اسٹیفن چارلس وٹکوف سے رابطہ کیا، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے ٹرمپ سے بات کی، اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی یہی موقف دہرایا، ایک ایسا مسودہ تیار ہوا جس سے نہ ٹرمپ کے غرور کو ٹھیس پہنچتی نہ حماس کی عزت پر حرف آتا، ٹرمپ نے محسوس کیا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اس کے لیے ایک سیاسی کامیابی بن سکتی ہے، اس نے فوراً اس تجویز کو منظور کر لیا۔
جب حماس نے اپنی جانب سے اعلان کیا تو دنیا حیرت میں ڈوب گئی، کسی کو یقین نہ آیا کہ ایک محصور شہر کی قیادت اس سطح پر سیاسی بساط الٹ سکتی ہے، نیتن یاہو کو یقین تھا کہ "شیطان بزرگ” اس تجویز کو رد کر دے گا، مگر ٹرمپ نے اچانک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پیغام جاری کیا: "حماس امن کے لیے تیار ہے، قیدی رہا ہوں گے، اسرائیل کو بمباری روکنی ہوگی”، یہ پیغام اسرائیلی سیاست کے لیے زلزلہ ثابت ہوا، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ خطاب کرنے والے ہیں، لیکن اس خطاب سے قبل وٹکوف، ٹرمپ کے قابل اعتماد داماد جیرڈ کوری کشنر، اور خود نیتن یاہو کی کوششوں کے باوجود ٹرمپ نے اپنی رائے نہ بدلی، نتیجہ یہ ہوا کہ حماس نے ایک ہی چال میں سیاسی محاصرہ توڑ دیا اور غزہ نے سانس لینے کی مہلت حاصل کر لی:
یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
اس اعلان کو حکماء صہیون نے پسند نہیں کیا، چناچہ صہیونی ارب پتی اور وال اسٹریٹ کے سرمایہ کار بل ایکمین، جو اسرائیلی انتہا پسند حکومت کے پُرجوش حامیوں میں سے ہیں، نے ٹرمپ کے اس خوش گمان لہجے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا: "میں امید کرتا ہوں کہ آپ درست ہوں، جنابِ صدر ڈونلڈ ٹرمپ! مگر میرا خیال ہے کہ حماس مذاکرات کی خواہش کو بہانہ بنا کر معاہدے کی مزید شرائط طے کرنے کی کوشش کرے گی، تاکہ وہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کر سکے اور اپنی صفیں دوبارہ منظم کر لے”، اسی طرح امریکہ میں اسرائیلی لابی کی سب سے بڑی اور بااثر تنظیم آئی پیک (AIPAC) نے سماجی پلیٹ فارم "ایکس” پر ایک بیان میں حماس کے ردِعمل پر شکوک ظاہر کیے، آئی پیک نے لکھا: "صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ وہ خاکہ ہے جسے اسرائیل، عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی نے قبول کیا ہے، حماس ہمیشہ پیش کردہ تجاویز پر ’ہاں‘ کہتی ہے، مگر… جیسا کہ آج پھر دیکھنے میں آیا، اب امریکی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ حماس پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ معاہدے کی تمام شرائط قبول کرے — قیدی بنائے گئے 48 افراد کو وطن واپس بھیجے، اقتدار چھوڑ دے، اپنا اسلحہ رکھ دے اور اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرے۔
ستم گر نتن یاہو تو تھا اندر سے پریشان وپشیمان، مگر امریکی ویب سائٹ ایکسِیوس کے مطابق، صدر ٹرمپ نے ایک فون کال میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کو سخت الفاظ میں ڈانٹا، کیونکہ نیتن یاہو نے حماس کے "مشروط مثبت جواب” پر مایوسی ظاہر کی تھی، حماس نے قیدیوں کی رہائی کے بدلے مکمل جنگ بندی اور فوجی انخلا کی پیشکش کی تھی، مگر نیتن یاہو نے اسے بے معنی قرار دیا، جس پر ٹرمپ نے برہمی سے کہا: "تم ہمیشہ اتنے مایوس کیوں رہتے ہو؟ یہ ایک کامیابی ہے، اسے قبول کرو!”۔
رد وقبول کے بیچ راہ ہموار ہوگئی، اور ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وانس
نے حماس کے بیان کا مکمل متن اپنے ذاتی اکاؤنٹس پر شائع کر دیا، یہ واقعہ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے غیر متوقع تھا، جس فریق کو برسوں "دہشت گرد” کہا جاتا رہا، اب اسی کے ساتھ برابری کی سطح پر گفتگو ہو رہی تھی، مزید یہ کہ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل کو "فوری طور پر بمباری روکنے” کا حکم نیتن یاہو کے لیے واضح پیغام تھا کہ اب جنگ کی بساط لپیٹو، اگرچہ اسرائیلی فوج نے عارضی طور پر حملے جاری رکھے، مگر ان کے بیانات سے فتح مندی کی جھلک مٹ چکی تھی۔
اسرائیلی میڈیا نے طوفان اٹھا دیا کہ ٹرمپ نے نوبل انعام کے لیے اسرائیل کو بیچ دیا ہے، مگر حقیقت یہ تھی کہ ٹرمپ نے اپنے لیے ایک شاندار سیاسی کامیابی حاصل کر لی تھی، حماس باقی رہی، اور امریکہ کی ساکھ کسی قدر بہتر ہوئی، قطر، ترکی، سعودی عرب، مصر اور اردن نے مل کر ایک ایسا تاثر پیدا کیا جیسے عربی واسلامی موقف کسی حد تک متحد ہو گیا ہو، اس سے عالمی سطح پر فلسطینی موقف کو نئی اخلاقی تقویت ملی۔
یوں حماس نے ایک نیا باب رقم کیا، اس نے ثابت کیا کہ مزاحمت صرف بندوق سے نہیں بلکہ تدبیر اور حوصلے سے بھی کی جاتی ہے، یہ معاہدہ نہ مکمل فتح ہے نہ شکست بلکہ ایک نئے مرحلے کی ابتدا ہے، اس نے اپنے وجود کو برقرار رکھا، اپنے وقار کو سلامت رکھا اور آئندہ کی جدوجہد کے لیے وقت حاصل کر لیا۔
آج فلسطین محض ایک خطہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادی کی علامت بن چکا ہے، غزہ کے بچے جو ملبے کے بیچ مسکراتے ہیں، وہ اس حقیقت کا اعلان ہیں کہ مزاحمت کا چراغ کبھی بجھتا نہیں، وہ کہانی جو ٹرمپ اور نیتن یاہو نے "پیام موت” سے شروع کی تھی، حماس نے اسے "آب حیات” میں بدل دیا، اس کی آواز میں خوف نہیں، یقین کی روشنی ہے۔
اب بھی تا دم تحریر مصر میں جاری مذاکرات میں حماس کے اہم مطالبات یہی ہیں: "مستقل اور جامع جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا غزہ کے تمام علاقوں سے مکمل انخلا ، امدادی سامان کی بلا روک ٹوک فراہمی، بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی، غزہ کی مکمل تعمیر نو کا فوری آغاز، جو ایک فلسطینی قومی ٹیکنو کریٹس کے ادارے کی نگرانی میں ہو اور قیدیوں کے تبادلے کا ایک منصفانہ معاہدہ”۔
تاریخ کے صفحات پر یہ واقعہ ایک بار پھر یہ صداقت ثبت کرتا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والے بھی جب عقل، حوصلے اور تدبیر سے اٹھتے ہیں تو دنیا کی بڑی طاقتیں ان کے آگے راستہ بدل لیتی ہیں، غزہ نے یہ پیغام دیا کہ شکست صرف وہی مانتا ہے جو اپنے دل سے ہار جائے، اور جو یقین سے لڑے وہ کبھی نہیں ہارتا — وہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے:
ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں، آمیں