🔰رسول اللہ ﷺ سے اظہار محبت
#شمع_فروزاں🕯
انسان کی فطرت ہے کہ اس کو اپنے محبوب کا نمائندہ بھی محبوب اور مرکز تقدیس واحترام کا نمائندہ بھی مقدس ومحترم ہوتا ہے، یہ ایک فطری جذبہ ہے، اور ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے، پھر یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جو ہستی انسان پر احسان کرتی ہے،انسان اس کے لئے اپنے دل میں محبت کی حرارت محسوس کرتا ہے؛ اسی لئے عربی زبان کا محاورہ ہے: الانسان عبد الاحسان (انسان احسان کا بند ہ ہے)، اب غور کیجئے تو انسان کا پورا وجود اللہ تعالیٰ کے احسانات اورنعمتوں کا شاہکار ہے، کھانے کے ایک ایک لقمہ سے لے کر جسم کو ڈھانکنے والے کپڑے کے ایک ایک ٹکڑے، جسم میں دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرہ سے لے کر باہر اور اندر جانے والی ایک ایک سانس تک سب کچھ خدائے خالق ومالک کا عطیہ اورخود اس کا وجود اور زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کا صدقہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں اور قوتوں سے نوازا ہے، دیکھنے كی، سننے كی، بولنے اور چلنے پھرنے کی، یہ سب انمول نعمتیں هیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان صلاحیتوں کا استعمال بجا طریقہ پر بھی ہو سکتا ہے اور بے جا طریقہ پر بھی، اس طور پر بھی کہ وہ جسم انسانی کے لئے مفید ہو اور اس طرز پر بھی کہ وه انسان کے لئے نقصان دہ اور مضرت رساں ہو جائیں، انگور ایک عمدہ، مزے کے اعتبار سے لذیذ اور دیکھنے کے اعتبار سے خوبصورت پھل ہے، اس کو کھانا قوت میں اضافہ کا سبب ہے، بہت سی دوائیں انگور کے شیرہ ہی سے حاصل ہوتی ہیں، اسی سے ہمیں مقوی اور لذیذ مشروب ملتے ہیں، اسی کو سُكھا کر کشمش تیار كی جاتی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی سے نشہ آور شراب بھی تیار ہوتی ہے، جو وقتی طور پر انسان کی عقل کو مفلوج کر دیتی ہے، اور جو مختلف پہلوؤں سے انسان کی صحت کو سخت نقصان پہنچاتی ہے؛ اس لئے اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بات بھی ضروری تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں، اور غلط استعمال سے بچنے کی ہدایت سے نوازیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ رحمت اور بے حد وحساب فضل وکرم كرتے هوئے اور اپنے بندوں پر رحم کھاتے ہوئے اپنے نمائندے بھی بھیجے، اور اپنی نمائندگی کے لئے انسانوں ہی میں سے کچھ برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب فرمایا، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو بندوں تک اپنی زبان کے ذریعہ پہنچایا اور اپنے عمل کے ذریعہ بندگانِ خدا کے لئے واضح فرمادیا، جن کو نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔
چوں کہ یہ انسانیت کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس سے آخرت کی نجات ہی متعلق نہیں هے؛ بلکہ دنیا کی کامیابی بھی اس سے مربوط ہے؛ اس لئے اول دن سے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا نظام قائم فرمایا ، سیدنا حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی، انسانی تمدن جوں جوں آگے بڑھتا گیا، الله تعالیٰ كے احكام آتے گئے، اور انسان جب جب راہ حق سے ہٹا ،اور تعلیمات الٰہی کو فراموش کر دیا، اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے نبیوں کو بھیجتے رہے، جیسے سال بھر کا بچہ ایک کپڑا پہنتا ہے، جب وہ دو تین سال کا ہو جاتا ہے تو نئے کپڑے کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی طرح انسانی تمدن کی ترقی کے اعتبار سے شریعت کے نئے لباس کی ضرورت پیش آتی رہی، اور اللہ کی طرف سے نبیوں کے ذریعہ اپنے زمانہ کے احوال کے اعتبار سے ہم آہنگ نیا لباس آتا رہا، اور انبیاء کرام ان کو انسانیت تک پہنچاتے رہے، جب انسانی معاشرہ اپنے فہم اور تمدن کے اعتبار سے کمال کو پہنچ گیا تو پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاج نبوت پہنا کر دنیا کی طرف بھیجا گیا، جیسے انسان جوانی میں جو کپڑا پہنتا ہے، زندگی کے آخری لمحے تک اپنے سائز کے لحاظ سے وہ کپڑا اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے، اسی طرح عقل وتمدن کے شباب کے اس دور میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی شریعت بھیجی گئی جو قیامت تک انسانیت کے لئے کافی ہوگی؛ اسی لئے آپ کے بعد کسی اور نبی کی اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی، اور نبوت کا سلسلہ آپ پر تمام ہوگیا۔
اب خالق کائنات سے محبت اور اس کے احسانات کا لازمی نقاضہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو نمائند ے بھیجے گئے، ہر انسان ان کا احترام کرے، یوں تو یہ ہر انسان کا فریضہ ہے؛ لیکن جب کوئی شخص ایمان لے آئے تو اس پر احترام کے ساتھ ساتھ محبت بھی ضروری ہے، ایسی محبت جو اس کے وجود سے بھی بڑھ کر ہو؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کے لئے نبی کی ذات اس کے وجود سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب ہے: النبی أولی بالمؤمنین من أنفسھم (احزاب: ۶) بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی ہی اللہ تعالیٰ کی محبت وپیروی سے عبارت ہے: قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران: ۳۱) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ جب تک میں تم لوگوں کو اپنے ماں باپ اور اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ، تم مسلمان نہیں ہو سکتے (صحیح البخاری، عن ابی ہریرۃؓ ، باب حب الرسول من الایمان: ۱؍۱۰) آپ کے اس ارشاد میں والد اور اولاد کا ذکر بطور مثال کے ہے؛ کیوں کہ انسان کو سب سے زیادہ اپنے والدین اور اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں؛ لیکن مقصود یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پوری انسانیت سے بڑھ کر ہو؛ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے………. من والدہ وولدہ والناس أجمعین (صحیح مسلم، عن انس ، باب وجوب محبۃ الرسول من الایمان: ۱؍۱۰) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر آپ سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا ہر چیز اورہر شخص سے زیادہ عزیز ہیں، حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو ایمان کے لئے ناکافی قرار دیا، اور فرمایا:جب تک تمہارے دل میں میری محبت تمہاری اپنی ذات سے بھی زیادہ نہ ہو، تم مومن نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا اور انھوں نے عرض کیا: اب آپ مجھ کو اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں: فانہ الآن واللہ لانت أحب الی من نفسی ، آپ نے ارشاد فرمایا: اب تم صاحب ایمان ہوئے: الآن یا عمر (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی : ۸؍ ۱۶۱)
محبت کوئی لفظی اور رسمی چیز نہیں ہے؛ بلکہ گہرے احساس اور جذباتی تعلق کا نام ہے، جس کو انسان محسوس کر سکتا ہے، كما حقه بیان نهیں كر سكتا، جس کی لذت اعلیٰ سے اعلیٰ غذا سے بڑھ کر ہے؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ جس میں تین باتیں ہوں گی، وہ ایمان کی حلاوت کو محسوس کرے گا، اس میں سب سے پہلے آپ نے جس چیز کا ذکر فرمایا ، وہ یہ ہے کہ اللہ ورسول کی محبت اس کے ما سوا سے بڑھی ہوئی ہو (صحیح بخاری، عن انس، باب حلاوۃ الایمان:۱؍۱۰) سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ حضرات کی محبت کس درجہ کی تھی؟ انھوں نے فرمایا: ہمارا مال، ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہمیں آپ کی ذات محبوب تھی (الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ: ۲؍۲۲) یہ ٹھنڈے پانی کی تشبیہ بہت اہم ہے؛ کیوں کہ جب زمین تپ رہی ہو، سورج آگ برسا رہا ہو اور پیاس سے حلق خشک ہو رہا ہو تو ٹھنڈے پانی سے صرف پیاس ہی دور نہیں ہوتی؛ بلکہ ایسے شخص کو بے حد لذت حاصل ہوتی ہے، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت عام چاہتوں کی طرح ایک چاہت نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایک خاص قسم کی لذت ہے۔
اور یہ کوئی خوش گمانی کی بات نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت ہے کہ اس دور انحطاط میں بھی ہر صاحب ایمان اس کومحسوس کرتا ہے، اس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لینے میں ، آپ کا مبارک ذکر سننے میں ، آپ کے روضۂ مبارک تک پہنچنے میں اور آپ کی اتباع وپیروی میں ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز سے ایسی لذت حاصل نہیں ہو سکتی، محبت کی جس کیفیت کا احادیث میں ذکر آیا ہے، یہ کوئی فرضی بات اور مبالغہ نہیں ہے، آپ کے رفقاء عالی مقام کی زندگی میں ہمیں اس کے بہترین نمونے ملتے ہیں، یہ آپ کے رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ هیں، اہل مکہ کے انکار اور ایذا رسانیوں کے پس منظر میں حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہوئے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، اور سفر کی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا، پہلی منزل حراء کی تھی، آپ غار حراء کی طرف چلے، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ چلتے ہوئے کبھی آپ سے آگے بڑھ جاتے اور کبھی آپ كے پیچھے هو جاتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس طرح کبھی آگے چلنے اور کبھی پیچھے آجانے کا سبب دریافت کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ جب مجھے پیچھے کی طرف سے کسی کے حملہ آور ہونے کا اندیشه ہوتا ہے تو میں آپ کے پیچھے ہو جاتا ہوں، اور آگے سے کسی چھپے ہوئے شخص کے وار کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو آپ سے آگے ہو جاتا ہوں، یعنی ہر صورت میں چاہتا ہوں کہ میں اس وار کا شکار ہو جاؤں اور آپ محفوظ رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میرے بدلے تمہاری جان چلی جائے؟ انھوں نے کہا: بے شک، پھر جب غار تک پہنچے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا : آپ ابھی باہر ہی رہیں، یہاں تک کہ ہم غار کو صاف کر دیں، یعنی یہ اندیشہ تھا کہ اگر کچھ سانپ، کیڑے وغیرہ ہوں تو آپ کو ان سے تکلیف نہ پہنچے (دلائل النبوۃ: ۲؍۴۷۲)
محبت کا یہ نشہ صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی میں نہیں تھا؛ بلکہ ایک ایک مرد اور خاتون صحابی اس نشۂ محبت سے سرشار تھے، غزوہ احد کے موقع سے بنو دینار کی ایک خاتون کے شوہر، بھائی اور باپ تینوںشہید ہوگئے، جب جب اُن کو اِن میں سے کسی کی موت کی اطلاع دی گئی، انھوں نے دریافت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ جواب ملا: وہ بحمد اللہ عافیت کے ساتھ ہیں، انھوں نے عرض کیا: تو مجھے آپ کی ایک جھلک دکھا دیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے تو ان خاتون کو دکھایا گیا، آپ کو دیکھتے ہی کہنے لگیں، آپ کے رہتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے: کل مصیبۃ بعدک جلل (سیرت ابن ہشام: ۲؍ ۹۸) یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج بھی مسلمانوں کے سینے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے معمور ہیں، ان کے لئے ہر مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اور آپ کی شان اقدس میں ادنیٰ گستاخی ناقابل برداشت ہے، اگر اس راہ میں ان کی جان بھی چلی گئی تو وہ اس کو ہنسی خوشی گوارا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
محبت کرنا ہر ایک کا حق ہے؛ مگر افسوس كه اس وقت حضور صلی الله علیه وآله وسلم سے محبت كے نعرے پر مسلمانوں كو ظلم وجور كا نشانه بنایا جا رها هے، ہمارے برادران وطن جے شری رام ، ہر ہر مہادیو کا نعرہ لگاتے ہیں، مسلمانوں نے نہ کبھی اس پر اعتراض کیا اور نہ کرنا چاہئے، یہ اُن کا حق ہے ،یه اُن کی طرف سے اپنے جذبات کا اظہار ہے؛ اس لئے اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار محبت کا کوئی فقرہ کہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس پر اعتراض کیاجائے، یا اس کو ملزم ٹھہرایا جائے، یہ قطعاََ ناقابل قبول ہے، اور یہ ہمارے ملک کے دستور اور یہاں کی تہذیبی روایات کے خلاف ہے؛ البتہ مسلمانوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اظہار محبت کا اصل طریقه عمل ہے نہ کہ پوسٹر اور بینر جو بعض اوقات لوگوں كے قدموں میں آجاتے هیں، ، قرآن مجید نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی تعلیم دی ہے، صحابہ نے جہاں ضرورت پڑی آپ کے لائے ہوئے دین کے لئے قربانیاں دی ہیں، یہ اظہار محبت كا صحیح طریقه ہے اور ہمیں بنیادی طور پر یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
Blog اسلامیات سفر نامہ سیرت النبی ﷺ سیرت و شخصیات فقہ و اصول فقہ فکر و نظر قرآن و علوم القرآن مضامین و مقالات کتابی دنیا گوشہ خواتین