نشہ ام الخبائث یعنی سارے برائیوں کی جڑ ہے، قرآن کریم میں اسے ناپاک شیطانی عمل قرار دیا ہے، بہار میں شراب بندی قانوناً ہے، لیکن دوسری نشہ آور اشیاء اس پابندی کے دائرے میں نہیں آتیں اور ان کا استعمال دھڑلے سے ہورہا ہے، ان پر کوئی بازپرس نہیں ہے، دوسری ریاستوں میں بھی نشہ آور اشیاء پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے کیا بوڑھے، کیا جوان، سب اس لت کے شکار ہورہے ہیں، جوانوں میں اس کا چلن قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے، مختلف ایجنسیوں کے سروے کے مطابق ہیروئین، براؤن شوگر، کوکین وغیرہ کی لتیں کچھ ریاستوں میں حد سے زیادہ ہیں، ہر دس میں سے چار مرد اور ہر سو میں چار خواتین تمباکو سے بنی کسی نہ کسی چیز کا استعمال کر رہی ہیں، گذشتہ ایک ماہ میں ہر چار میں سے ایک مرد نے شراب کا استعمال نقصان دہ طریقوں سے کیا اور کئی کی جانیں چلی گئیں، بھانگ کا استعمال دو فی صد اور گانجہ کا استعمال آتھ فی صد لوگ کر رہے ہیں، دو اعشار یہ ایک فی صد لوگ ہیروئن، ڈوڈا، کوڈنی پر مشتمل کف سیرپ، افیم اور اس سے بنی دوسری اشیاء سے اپنی اس لت کو پورا کر رہے ہیں، ایک اعشار یہ چودہ فی صد لوگ وہ ہیں جو ہیروئن اور دیگر دواؤں کا استعمال نشے کے لیے کرتے ہیں، صرف نوجوانوں کی بات کریں تو پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں میں یہ لت ہر آٹھ میں سے ایک کے اندر پائی جارہی ہے، ہر آٹھ میں ایک لڑکا کھینی اور گٹکا استعمال کر رہا ہے، انیس سال سے کم عمر کے ایسے بچے ہرسو میں ایک ہیں، جو شراب کے ذریعہ نشہ حاصل کرتے ہیں، گانجہ، بھانگ افیم اور سونگھنے والی چیزوں سے نشہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اسی تناسب میں ہے۔نشہ کی اس بڑھتی لت سے جسمانی اعضاء تو برباد ہوہی رہے ہیں، دل ودماغ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے، کوکن، افیم بھانگ لینے والوں کی حالت اس قدر غیر ہوجاتی ہے کہ وہ پاگلوں کی طرح رہنے لگتے ہیں، نشہ کی وجہ سے کمائی کی ساری رقم اس پر خرچ ہوجاتی ہے اور خانگی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، درہم برہم کا مطلب صرف کھانا خرچہ کی کمی نہیں، بیوی بچے بھی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں، نشہ کی حالت میں مرد اپنی عورتوں کو مارپیٹ کرنے سے باز نہیں آتا، جس سے عورت کے دل میں ایسے مرد سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، طلاق کے بیش تر واقعات نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور خاندان بکھر کر رہ جاتا ہے، سرکار نے اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے بہت سارے مراکز کھول رکھے ہیں، جہاں یہ بُری لت چھوڑنے کے لیے تدبیریں کرائی جاتی ہیں، لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی وہاں سے آزاد ہوا، پھر سے وہ پُرانی روش پر واپس آجاتا ہے۔اس بیماری کو دور کرنے کے لیے مذہبی اقدار اور تعلیمات سے ان کو واقف کرانا ضروری ہے، اس کے مضر اثرات سے واقفیت اور تدریجاً اس کے تدارک کی کوشش بھی، کارگر ہوتی ہے، اہل اللہ کی صحبت بھی اس عادت کو چھڑانے میں معاون اور مؤثر ہوتی ہیں، کہا تو یہ جاتا ہے کہ ”چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“ لیکن دنیا کو معلوم ہے کہ جگر مرادآبادی جیسے بلانوش کو حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی صحبت نے اس قدر شراب سے متنفر کردیا کہ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ نہیں پئیں گے تو مر جائیں گے تو انہوں نے معالجین سے پوچھا کہ پئیں گے تو کتنے دن زندہ رہیں گے، کہا یہی کوئی دس پانچ سال، کہنے لگے جب مرنا ہی ہے تو پانچ سال پہلے اور پانچ سال بعد کیا، میں تو اسے منہ نہیں لگاؤں گا، چاہے مرجاؤں، اس کا مطلب ہے کہ ناممکن کچھ نہیں ہے، ضرورت سخت محنت کی ہے تاکہ نشہ کی یہ لت چھوٹ جائے اور سماج اس بُرائی سے بچ سکے۔
نشہ کی بڑھتی لت ——از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
Related Posts
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_* *ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔ * ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن…
Read moreخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: 24؍جون 2025ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے…
Read more