"غنچہ ادب” جناب قمر اعظم صدیقی کی پہلی تصنیف ہے جو مختلف النوع مضامین کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب میں شامل مضامین کی تعداد 15 ہے ۔ مصنف نے غنچہ ادب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ کتاب کی فہرست میں شخصیات , صحافت اور کتابوں کی باتیں عنوان دیے گئے ہیں ۔ شخصیات کے گوشے میں سات مضامین شامل ہیں , صحافت کے حصے میں ایک مضمون شامل ہے اور گوشہ ‘کتابوں کی باتیں میں’ تبصراتی اور تاثراتی نوعیت کے سات مضامین شامل ہوئے ہیں۔ شخصیات کے عنوان سے جو مضامین شامل کتاب ہیں ان کی فہرست ہے ۔
علامہ اقبال : ایک مطالعہ , علامہ ماہر القادری کی شخصیت اور کارنامے , قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ایک بے مثال شخصیت , حضرت مولانا محمد ولی رحمانی میری نظر میں , میرے نانا جان محمد داؤد حسن مرحوم , محبت و اخلاص کے پیکر ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم , ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق : تمہاری نیکیاں زندہ تمہاری خوبیاں باقی ۔
اس طرح ساتوں مضامین مختصر اور سلیس انداز میں تحریر کیے گئے ہیں ۔ نانا جان محمد داؤد حسن مرحوم , ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم کے تعلق سے مصنف نے جو مضامین قلم بند کیے ہیں اس حوالے سے حرف چند میں صفحہ نمبر 11 پر نامور ادیب مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ مصنف نے ان حضرات کے بارے میں اپنے تاثرات مشاہدات تعلقات اور تجربات پر کھل کر گفتگو کی ہے جس میں کہیں کہیں داستان نگاری کا رنگ و آہنگ پیدا ہو گیا ہے ۔ مفتی صاحب کے اس رائے اور خیال سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ قمر اعظم صدیقی کے اندر لکھنے کی صلاحیت اور جنون دونوں موجود ہیں ۔ کتاب میں صحافت کے عنوان سے جو مضمون شامل ہے وہ ایک عام قاری کے معلومات میں اضافہ کرنے کا اہل ہے کیونکہ اس مضمون میں مصنف کی محنت , عرق ریزی اور جانفشانی صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے ۔ اردو میں سرگرم ویب سائٹ اور پورٹل: ایک تجزیاتی مطالعہ ۔
بلا شبہ یہ مضمون تحقیقی رنگ لیے ہوئے ہے ۔ قمر اعظم صدیقی نے بہت محنت اور دلجمعی کے ساتھ اس مضمون کو قلم بند کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ممتاز ادیب و ناقد پروفیسر ڈاکٹر صفدر امام قادری صاحب نے اردو صحافت کے 200 سال پورے ہونے پر اس حوالے سے جو کتاب مرتب کی ہے اس میں قمر اعظم صدیقی کے مذکورہ مضمون کو انہوں نے شامل کیا ہے ۔
مصنف نے غنچہ ءادب کا تیسرا حصہ تبصروں کے لیے وقف کر دیا ہے ۔ جس میں سات تبصرے شامل ہیں جو وقتا فوقتا مختلف کتابوں پر قمر اعظم صدیقی کے ذریعے لکھے گئے ہیں تمام تبصرے عمدہ ہیں اور سلیس انداز میں تحریر کیے گئے ہیں غنچہ ادب کے مشمولات سے یہ بات ظاہر ہے کہ مصنف کی پہلی کاوش محنت , لگن اور ریاضت سے بھرپور ہے۔ قمر اعظم صدیقی کے بارے میں مشہور ادیب حقانی القاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ” ان کا مشغلہ تو تجارت ہے مگر تخلیق ان کا جنون ہے تجارت سے تخلیق کو بہت سے لوگوں نے توانائی عطا کی ہے اور اپنے تجارتی وسائل اور ذرائع سے بھی اردو زبان و ادب کی ثروت اور سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کیا ہے انہی میں ایک نام قمر اعظم صدیقی کا بھی ہے” ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ بھائی قمر اعظم صدیقی تاجر ہوتے ہوئے بھی ادب و صحافت سے اپنا رشتہ استوار کیے ہوئے ہیں صحافت سے دلچسپی کا ہی نتیجہ ایس آر میڈیا ویب پورٹل ہے جس کے وہ بانی اور ایڈمن ہیں ڈیجیٹل صحافت کے دور میں اس طرح کے پورٹلز اور ویب سائٹس کی خدمات کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔ ان کی اردو سے محبت اور بے لوث خدمت کا ہی ثمرہ ہے کہ بہت کم عرصے میں ایس آر میڈیا اردو ویب پورٹل نے اردو دنیا کے بیشتر حصے میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے جس کے قارئین ہند و پاک تک ہی محدود نہیں بلکہ یورپ آسٹریلیا, افریقہ اور امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ بلا شبہ غنچہء ادب ایک محنتی تاجر اور نوجوان قلم کار کی پہلی تصنیف ہے جس کا اجرا آج ہم سب کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ اس کتاب کو دربھنگہ ٹائمز پبلیکیشن در بھنگا نے شائع کیا ہے ۔ کتاب کی طباعت , بائنڈنگ وغیرہ عمدہ ہے ۔ 136 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ کتاب اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ میں قمر اعظم صدیقی صاحب کو ان کی پہلی تصنیف کردہ کتاب غنچہءادب کی اشاعت پر صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والے وقت میں بھی ان کا یہ ادبی سفر اور جوش و خروش اسی آب وتاب کے ساتھ جاری وساری رہے گا ۔۔۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
غنچہء ادب : ایک مطالعہ—–مبصر : مظہرؔ وسطوی
Related Posts
خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق
خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق مصنف: ڈاکٹر حمدی شاہین مصری حفظہ اللهمترجم: حافظ قمر حسننظر ثانی و مراجعت : محمد فہد حارث Mohammad Fahad Harisصفحات: ۶۷۶ تبصرہ و تعارف : معاویہ محب الله در حقیقت یہ کتاب مصری نژاد مصنف د.حمدی شاہین کی ” الدولة الأموية المفترى عليها ” کا اردو ترجمہ ہے، ڈاکٹر صاحب تاریخ اور اسلامی تہذیب کے پروفیسر ہیں، یہ کتاب آج سے تقریباً چالیس سال قبل لکھی گئی تھی، اس ترجمہ کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود مصنف نے مترجِم کی کاوشوں کو سراہا ہے اور مباحث سمجھنے کے لئے مہینوں رابطے میں رہنے کا تذکرہ کیا ہے، کتاب کا آغاز محمد فہد حارث کے پیش لفظ سے ہوتا ہے جو اموی تاریخ کے حوالے سے عصر جدید کے مفکرین ؛ عبید الله سندھی، د. مصطفی سباعی اور پروفیسر عبد القیوم کی آراء اور تاریخی تنقیح کے متعلق اقتباسات سے مزین ہے۔ کتاب کے داخلی مباحث نہایت عمدہ اور تحقیقی ہے، پروفیسر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار فرمایا تھا کہ کاش خلافت بنو امیہ کی سیاسی، علمی، معاشرتی، معاشی اور عسکری حالات پر مثبت تاریخ لکھی جاتیں! مذکورہ کتاب سمجھ لیجئے کہ مظہر صدیقی صاحب کی امیدوں کا چراغ ہے، اموی خلافت کے ہر پہلو پر نہ صرف مفصّل کلام کیا ہے بلکہ اموی خلافت کے چہرہ کو داغدار کرنے والے اعتراضات کا بھرپور جائزہ بھی لیا ہے، منفی اثرات، غیر ضروری اعتراضات اور سیاسی عصبیت کی وجہ سے اموی خلافت کی جو تصویر ہمارے بھولے بھالے قارئین کی نظروں میں ہیں، اس کے بجائے یہ کتاب مثبت تاریخی تہذیب، تعمیری کمالات، دینی و علمی اثرات، معاشی و عسکری ترقیوں کا مطالعہ پیش کرتی ہے، کتاب کے مطالعہ کے بعد قارئین اپنے روشن ماضی پر فخر محسوس کریں گے، نوجوان مستشرقین کی قلابازیوں سے واقف ہوں گے اور اسلامی تاریخ میں پیوستہ شیعی اثرات کو محسوس کریں گے۔ مصنف نے مقدمہ سے آغاز کرنے کے بعد تقریباً ۱۷۰ صفحات تک اموی تاریخ کی تحریف کے دلائل کا جائزہ لیا…
Read moreبھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حج
بھوپال کی نواب نواب سکندر بیگم کا سفرنامۂ حج مستشرقین سے ہزار ہا اختلافات اور مغربی کلاسک مفکرین سے سینکڑوں مواقع پر نا موافقت کے باوجود ان کو اس بات کی داد دینا بنتی ہے، کہ ان کے توسط سے بہت سی کتابیں ہم تک پہونچی ہیں۔ گرچہ کہ یہ بھی ایک حقیقت اور تاریخی سچائی ہے کہ ایک زمانے میں مسلمانوں کے کتب خانوں اور متمدن شہروں سے بھر بھر کر کتابیں مغرب تک پہنچائی گئیں۔ شبلی نے کئی جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلاں کتاب فلاں انگریز مستشرق کے طفیل ہم تک پہونچی ہے۔ ہمارا عام علمی مذاق ایک عرصہ ہوا زنگ کھا چکا۔ اب اس میں فقط اتنی دھار ہے کہ وہ لوگوں کو چوٹ پہونچا سکتا ہے، لطافت نہیں کہ زمانے کو تدبر کی طرف متوجہ کر سکے۔ کتنی ہی ایسی کتابیں ابھی بھی یہاں وہاں کے کتب خانوں میں سڑ رہی اور دیمک کی خوراک بن رہی ہوں گی، جن کے شائع ہو جانے سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہوں۔ نواب سکندر بیگم، ہندوستان کی بیگماتی تاریخ میں سر فہرست ہیں۔ جن دو ایک بیگموں کو ہر سطح پر سراہا جاتا ہے ان میں شاید رضیہ سلطان کے بعد نواب سکندر دوسری ہیں۔ بھوپال کی شاندار تاریخ اور تابناک ماضی کی بنیاد گزار۔ ان کا حج کا سفرنامہ ایک سو پچاس سال تک دھول کھاتا رہا، کسی کو اس کی بھنک تک نہ لگی۔ انگریزی میں ترجمہ ہاتھوں ہاتھ ہو گیا، لیکن اردو میں، کہ جس زبان میں اس کو لکھا گیا اس میں غبار آلود ہوتا گیا۔ حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے زیرِ نظر کتاب "سفرنامۂ حج” نواب سکندر بیگم کے حج کے سفرنامے کی روداد ہے۔ وہ ہندوستان میں دوسری شاہی خاتون تھیں، جو حج کے پر مشقت سفر پر گئیں۔ اس سفر کی صعوبتیں اس سفرنامے میں بھری پڑی ہیں۔ زیف سید نے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کتاب کو ڈھونڈ نکالا، اس پر تقدیم و تحقیق و تحشیہ کیا اور لوگوں کے روبرو کیا۔…
Read more