قربانی ایک اہم اور عظیم الشان عبادت ہے ، قربانی حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی سنّت اور اسلام کا شعار ہے ، اس عبادت پر ہمیشہ سے ہر مذہب و ملت کا عمل رہا ہے ، قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے،
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۔ ( الحج)ت
ترجمہ : اور ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کردی ہے ؛ تاکہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے چوپایوں پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا کریں لہٰذا تم لوگوں کا خدا ایک ہی خدا ہے ، اسی کی فرمانبرداری کرو اور ( اے رسول !احکام خداوندی کے سامنے ) گردن جھکادینے والوں کو خوشخبری سنادیجئے ۔
قربانی کا عمل گرچہ ہر امت میں رائج رہا ہے ، لیکن ملت ابراہیمی میں اس کا خاص مقام ہے، اس لیے اس کو سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے،
حدیث میں اس کے بے شمار فضائل وارد ہوتے ہیں، قربانی کا ثواب بہت بڑا ہے،
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ، ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ قربانی تمہارے باپ ( ابراہیمؑ) کی سنت ہے۔ صحابیؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ ‘‘ اُون کے متعلق فرمایا: ’’ اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔‘‘ ( ابن ماجہ)
علاوہ ازیں یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد قربانی کرنے پر ہمیشگی اختیار فرمائی ہے، اور نہ کرنے پر سخت وعید اور تنکیر بیان فرمائی ہے، چناں چہ آپؐ کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں بھی نہ آئے۔‘‘ (الترغیب)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله سپیم نے ارشاد فرمایا :
م”ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم ، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها و أشعارها و أظلافها ، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض ، فطبوابهانفسا” ( ترمذی : 1 باب ما جاء في فضل الأضحية )
ترجمہ : قربانی کے دن کوئی عمل اللہ تعالی کو خون بہانے سے زیادہ پسند ید ہ نہیں ہے ، اورقربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ، بالوں اور گھروں کے ساتھ آئے گا ، اور قربانی میں پایا جانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ، لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو ۔
بندہ مومن نے اس دنیا میں جتنے کام اخلاص کے ساتھ کیے ہوں گے ، وہ سب بارگاہ خداوندی میں ضرور پیش کیے جائیں گے ، اور ان تمام اعمال کا جو بطور خاص اخلاص کے ساتھ کیے گئے ہیں ، پورا پورا اجر ملے گا ،
کلام پاک میں بھی متعدد جگہوں پر اس کا تذکرہ ہے ، کل قیامت کے دن چھوٹے بڑے ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا ، اس وقت دنیا میں اخلاص کے ساتھ کی گئی قربانی کا بدلہ بھی اس کے تمام حصوں ، سینگوں ، بالوں، اور کهروں کے ساتھ ملے گا ، یہ ظاہر سینگوں اور کھروں کی کوئی قیمت نہیں ہے ، کھانے کے بھی کام نہیں آتے ، تاہم اللہ کے یہاں اس کا بھی بدلہ دیا جائے گا ، اس لیے لازم ہے کہ قربانی کا جانور نہایت عمدہ ہو ، عیب سے پاک ہو ،اور دیکھنے میں خوش منظر ہو،
✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️
انتخاب و ترتیب : اسجد حسن بن قاضی محمد حسن ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔