*از: شیخ احمد الریسونی*
سابق صدر الاتحاد العالمی لعلماء المسلمين
ترجمانی: اسجد حسن ندوی
چند ہفتوں کے بعد اس سال کی (1445ء) عید الاضحی آنے والی ہے ، عید الاضحی کی ایک اہم عبادت قربانی ہے ، جمہور علماء کے نزدیک قربانی سنت یا سنت مؤکدہ ہے ، صاحب نصاب لوگ اپنی جانب سے اور اپنے اہل و عیال کی جانب سے قربانی کر کے خود بھی کھاتے ہیں ، اور لوگوں کو بھی کھلاتے ہیں اور بطور صدقہ تقسیم بھی کرتے ہیں ۔
*قربانی کرنے، اور اس کی قیمت مسکینوں میں صدقہ کرنے کے سلسلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رہا ہے کہ ان میں سے کون سا عمل افضل ہے ؟*
بعض علماء بالخصوص صحابہ و تابعین نے قربانی پر صدقہ دینے کو ترجیح دی ہے ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے کہ ” مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں مرغ کی قربانی کروں ، لیکن اس کی قیمت کسی یتیم یا بے گھر کو صدقہ کرنا میرے نزدیک اس قربانی سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے” ۔ اسی طرح امام شعبی کا بھی یہ قول ہے کہ ” تین درہم صدقہ کرنا قربانی سے زیادہ عزیز اور پسندیدہ ہے” ۔
البتہ جمہور فقہاء کی رائے اس کے بر خلاف ہے ، ان کے نزدیک قربانی کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے ، کیونکہ صدقہ انسان سال کے بارہ مہینے بھی کر سکتا ہے ، لیکن قربانی شعائر اسلام میں سے ایک خاص شعار ہے ، اور یہ ان چھ چیزوں میں شامل ہے ،جن کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے ۔اور اس کو سال میں ایک بار ہی ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مزید یہ کہ اس میں صدقہ اور غریبوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے ، اور یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہی ہے ۔
اور یہی قول عام حالات میں راجح اور معتمد علیہ بھی ہے ، لیکن ضرورت کے پیش نظر غیر معمولی صورتوں کا جائزہ لینا ، اور خصوصی طور پر ایسے لوگوں کے لیے فتویٰ جاری کرنا بھی ضروری ہے ، جو آزمائش و مصائب سے دو چار ہیں ، غزہ میں بسنے والے مسلمان بھائیوں کا معاملہ ، یروشلم شہر کے لوگوں کی صورت حال اور خاص طور پر مغربی کنارے میں بسے ہوئے لوگوں کے حالات بھی کچھ یوں ہی ہیں، جو ہمیں سوچنے اور جائزہ لینے پر مجبور کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، اس میں تمام تر ضروریات اور تمام صورتیں بیک وقت جمع ہوگئی ہیں ، بلکہ ایسی ضرورتیں بھی پیش آرہی ہیں جن کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
صہیونی دشمن – اور اس کے حلیف امریکہ اور یورپ – غزہ کو تباہ و برباد کررہے ہیں ، اور غزہ میں بسے ہوئے لوگوں کی رزق ، زندگی ، معاش ، تعلیم اور علاج و معالجہ کے تمام تر اسباب کو معطل کر دیا ہے ، اس سے متاثر زیادہ تر وہ حضرات ہیں جو مغربی کنارے میں رہائش پذیر ہیں ، غزہ کے لوگ اسلام ، مسلمان اور مسجد اقصی کے دفاع میں جہاد کررہے ہیں ، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت اصل میں جہاد غزہ کے لوگ ہی کررہے ہیں ، جبکہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہے جب تک فلسطین اور مسجد اقصی آزاد نہ ہو جائے ، لیکن اہل غزہ تن تنہا اس لڑائی کو لڑ رہے ہیں ، اور خود ہی اس کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور وہی اسکے اثرات تنہا جھیل رہے ہیں ،
موجودہ صورت حال کوئی عارضی یا وقتی نہیں ہے، بلکہ ماضی میں بھی یہ صورت حال رہی ہے اور مستقبل میں بھی غیر معینہ طور پر اس میں توسیع ہو سکتی ہے ، اور اب تو مزید اس شدت و سختی میں اضافہ ہو رہا ہے ، ارشاد ربانی ہے کہ *”فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ} [المائدة: 52]*
” کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں) کو فتح عطا فرمائے ، یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر فرمائے”
اسی وجہ سے فلسطینی عوام اور ان کے مجاہدین کو ہر ممکن رعایت ، حمایت ، اور تعاون میں سب سے زیادہ ترجیح ملنی چاہیے ۔
* اس سلسلے میں درج ذیل امور کی رعایت ضروری ہے*
(1) انہیں جہاد کے لیے مال فراہم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے*:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُون} [الحجرات: 15]*
{بے شک مومن وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر کسی شک میں نہیں پڑے ،اور جنہوں نے اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہی لوگ سچے ہیں ،
ایک جگہ اور ارشاد فرمایا:
*انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [التوبة: 41]*
"جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو ، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل ، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے”
چنانچہ وہ حضرات جو خود جہاد نہیں کر سکتے وہ اپنا مال مجاہدین کے حوالے کرکے مالی جہاد یا جہاد کی مالی مدد کریں ،صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ *«من جهز غازيا في سبيل الله فقد غزا. ومن خلفه في أهله بخير فقد غزا».*
"جس نے خدا کے لیے لڑنے والے کو تیار کیا اس نے جنگ کی، اور جس نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ دیا وہ فتح یاب ہوا”
(2) زکوة کے سب سے زیادہ مستحق فلسطینی ہیں ، کیونکہ فلسطین میں اور اہل فلسطین میں زکوٰۃ کے تمام مصارف موجود ہے ، بلکہ بعض صورت مصارف کی وہ بھی ہیں جو فلسطین کے علاؤہ کہیں بھی نہیں پائی جاتیں ، جو شخص مجاہدین اور اہل فلسطین کو اپنی زکوٰۃ یا نصف زکوٰۃ یا کچھ حصہ دے گا وہ اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہے ۔ فرمان نبوی ہے :*ومن يُـردِ الله به خيرا يفقهه في الدين*
"اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے”
(3) قربانی کی قیمت اہل فلسطین کو دینا جائز ہے، قیمت دینے والا قربانی سے برئ الذمہ ہوگا ، وہی قیمت قربانی کے لیے کافی ہوگی ، بلکہ دوہرا ثواب بھی ملے گا ، اور اس میں ایثار و قربانی، اور جہاد بھی شامل ہو گا ، لہذا صاحب نصاب شخص قربانی کی قیمت قربانی کرنے کے بجائے اہل فلسطین کو بھیجے تو یہ زیادہ بہتر اور مناسب ہے ، اور اس سے قربانی کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یہ زیادہ متوازن اور معتدل اور حالات کے پیش نظر مناسب عمل ہوگا