*کيا مصنوعی استقرارِ حمل (IVF) اور رحمِ مادر کی کرايہ داری (Surrogacy) ناجائز ہے؟*
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
آج کل مصنوعي طريقے سے استقرارِ حمل (IVF) کا رواج ہو رہا ہے ۔ نکاح کے کئی برس کے بعد بھی اگر کسی جوڑے کے يہاں بچّے نہيں ہوتے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے ۔ ڈاکٹر بسا اوقات IVF طريقے کو اختيار کرنے کا مشورہ ديتا ہے ۔ اس طريقے ميں مرد اور عورت کے مادّے لے کر الگ سے انھيں ملايا جاتا ہے ، پھر عورت کے رحم ميں منتقل کيا جاتا ہے ، جس ميں نارمل طريقے سے جنين کي پرورش ہوتی ہے ۔ کبھی عورت کے رحم ميں خرابی ہوتی ہے ، جس کي بنا پر اس ميں جنين کی پرورش نہيں ہو سکتی ۔ اس صورت ميں کسی دوسری عورت کا رحم کرايے پر ليا جاتا ہے ۔ وہ حمل کے مرحلے سے گزرتی ہے ۔ بچہ پيدا ہونے پر اسے طے شدہ اجرت دے دی جاتی ہے اور بچہ لے ليا جاتا ہے ۔
کيا يہ صورتيں اسلامی نقطۂ نظر سے ناجائز ہيں؟ يا ان کے جواز کے کچھ پہلو ہو سکتے ہيں؟ براہ کرم جواب سے نوازیں ۔
جواب :
مرد اور عورت کے جنسی اعضاء (Sexual Organs) کے اتّصال سے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ مرد کے خصيوں ميں مادّۂ منويہ (Sperm) جمع رہتا ہے ، جسے ‘نطفہ’ کہتے ہيں ۔ يہ مباشرت کے وقت اس کے عضوِ مخصوص سے نکل کر عورت کے رحم (Uterus)ميں داخل ہوتا ہے ۔ رحم کے دونوں طرف خصيے (Ovary) ہوتے ہيں ، جن ميں سے ہر ماہ ايک بيضہ (Ovum) نکلتا ہے ۔ ہر خصيہ ايک ٹيوب کے ذريعے رحم سے جڑا ہوتا ہے ، جسے ‘قاذف’ (Fallopian Tube ) کہتے ہيں ۔ نطفہ اور بيضہ کا اتّصال اسی ٹيوب کے باہری ايک تہائی حصے ميں ہوتا ہے ۔ پھر ان سے جو مخلوطہ تيار ہوتا ہے وہ واپس رحم ميں آکر ٹھہرتا ہے ۔ اسے استقرارِ حمل (Fertilization) کہتے ہيں کہ اس طرح رحمِ مادر ميں جنين کی تشکيل ہوتی ہے ۔ وہ پلتا اور بڑھتا ہے ، يہاں تک کہ نو مہينے کے بعد اس کی ولادت ہوتی ہے ۔
يہ استقرارِ حمل اور تشکيلِ جنين کا فطری طريقہ ہے ۔ بسا اوقات کسی سبب سے اس ميں خلل واقع ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر مرد جنسی قوت ميں کمی کے سبب مباشرت پر قادر نہ ہو ، يا اس کے نطفے ميں ‘حيوانات منويہ’ (Spermatozoa) کا تناسب کم يا ان کي حرکت (Motility) کم زور ہو ، يا نطفہ کو خصيوں سے آگے لے جانے والی رگيں مسدود ہو گئی ہوں ، يا عورت کے خصية الرحم ميں کسی نقص کے سبب اس کے بيضہ کا اخراج ممکن نہ ہو ، يا قاذف پيدائشی طور پر موجود نہ ہوں ، يا کسی مرض کے سبب مسدود ہو گئے ہوں ، يا عورت ميں پيدائشی طور پر رحم موجود نہ ہو ، يا اس ميں ٹيومر ہو گيا ہو ، جس کے سبب استقرارِ حمل ممکن نہ ہو ۔ ان صورتوں ميں استقرار کا مصنوعی طريقہ اختيار کيا جاتا ہے ۔ آج کل ميڈيکل سائنس نے غير معمولی ترقى کر لي ہے ۔ چناں چہ مصنوعی استقرارِ حمل کے بہت سے طريقے زيرِ عمل ہيں ۔ شوہر کا نطفہ نہ مل سکے ، يا کارآمد نہ ہو تو کسی دوسرے مرد کا نطفہ استعمال کر ليا جاتا ہے ، بيوی کا بيضہ نہ فراہم ہو سکے تو کسی دوسری عورت کا بيضہ حاصل کر ليا جاتا ہے ۔ اس کے ليے نطفہ اور بيضہ کے بڑے بڑے بينک قائم ہو گئے ہيں ، جن سے ان کی خريداري ممکن ہے ۔
کسی عورت کے رحم ميں کسی خرابی کي وجہ سے اس ميں استقرارِ حمل ممکن نہ ہو تو دوسری عورت کا رحم کرايے پر حاصل کر ليا جاتا ہے ۔ وہ نطفہ اور بيضہ کے مخلوطے کو اپنے رحم ميں پرورش کرتی ہے اور ولادت کے بعد بچے کو اس کے خواہش مند جوڑے کے حوالے کر ديتی ہے اور ان سے منھ مانگی اجرت پاتی ہے ۔ اس چيز نے عالمی سطح پر ايک بہت بڑی انڈسٹری کی شکل اختيار کر لی ہے ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے مصنوعی استقرارِ حمل کے يہ تمام طريقے حرام ہيں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَہُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ (ابو داؤد : 2158، ترمذی : 1131)
’’ کسی شخص کے ليے ، جو اللہ اور روز آخر پر ايمان رکھتا ہو ، جائز نہيں ہے کہ اس کا پانی دوسرے کی کھيتی کو سيراب کرے ۔ (يعني وہ بيوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے جنسی تعلق قائم کرے – ) “
اسلام ميں نسب کی حفاظت پر بہت زيادہ زور ديا گيا ہے ، جب کہ ان طريقوں سے نسب محفوظ نہيں رہتا ۔ مصنوعی استقرارِ حمل اور پرورشِ جنين صرف تين صورتوں ميں جائز ہو سکتي ہے :
۱ ۔ نطفہ شوہر سے حاصل کيا گيا ہو ۔
۲ ۔ بيضہ بيوی کے خصية الرحم سے نکالا گيا ہو ۔
۳ ۔ جنين کی پرورش بيوی کے رحم ميں کی جائے ۔
اسلام ميں رحم مادر کی کرايہ داری (Surrogacy) ، جسے ‘قائم مقام مادريت’ بھی کہتے ہيں ، قطعی حرام ہے ۔ جو جوڑے اولاد سے محروم ہيں اور وہ مذکورہ جائز طريقوں سے بھی صاحبِ اولاد نہيں ہو سکتے ، ان کے ليے اسلام جائز قرار ديتا ہے کہ وہ کسی بچے کو گود لے کر اس کی پرورش کريں ، البتہ اس کا نسب نہ بدليں ۔ اس کي ولديت ميں اس کے حقيقی باپ کا نام لکھوائيں اور اپنا نام اس کے سرپرست (Gradian) کي حيثيت سے درج کروائیں ۔
کیا مصنوعی استقرار حمل اور رحم مادر کی کرایہ نا جایز ہے؟
Related Posts
کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے؟
[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] موجودہ دور میں میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجہ میں آنکھ کا قرنیہ (Cornea) اور قرن بٹن (Corneoscleral Button) دوسرے ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا محفوظ طریقہ پر انجام پذیر ہوتا ہے اور اس عمل میں میت کی کوئی اہانت نہیں سمجھی جاتی ہے اور نہ اس کی وجہ سے شکل میں کوئی بدنمائی پیدا ہوتی ہے ، لہذا اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پاس کی جاتی ہیں : (1) زندگی میں آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینے میں چوں کہ دینے والے کو بڑا ضرر لاحق ہوتا ہے ، نیز یہ چیز طبی اخلاقیات اور قانون کے بھی خلاف ہے ، اس لیے اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔ (2) اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو دے دیا جائے اور ورثہ بھی اس پر راضی ہوں تو اس کی آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینا درست ہے ، اسی طرح میت نے وصیت نہ کی ہو اور ورثہ اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا چاہیں تو اس کی بھی شرعاً اجازت ہے ۔ ( 3) اگر کوئی شخص کسی ایکسیڈنٹ یا حادثہ کا شکار ہوا اور اس کی آنکھ پر ایسی ضرب آئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، یا کسی شدید بیماری کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، اور اس کی آنکھ کا قرنیہ طبّی نقطۂ نظر سے قابلِ استعمال ہو تو ایسی صورت میں اس کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ مولا نا عظمت اللہ میر کشمیری (نوٹ: تجویز 2 کی دونوں شقوں کے ساتھ راقم اتفاق نہیں رکھتا ہے – )
Read moreمائیکرو فائنانس کے شرعی احکام
[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] (1) غیر سودی مائیکرو فائنانس ادارے قائم کرنا وقت کی ضرورت اور شرعاً مستحسن قدم ہے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ سے واقف علماء و اربابِ افتاء کی نگرانی میں کام کرے ۔ (2) مقروض کو قرض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے والے گروپ کی تشکیل میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ؛ البتہ مقروض کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے گروپ کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جو مقروض کے لیے ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سبب ہے ۔ (3) مال جمع کرنے والوں کی رضا مندی سے قرض طلب کرنے والوں کو قرض دینے کی گنجائش ہے ؛ خواہ وہ ادارے کے ممبر ہوں یا نہ ہوں ؛ البتہ اگر قانوناً ممبر بنانا ضروری ہو تو ممبر بنا کر قرض دیا جائے ۔ (4) الف : مائیکرو فائنانس ادارہ قرض کے اندراج اور وصولی کی مناسب اجرت لے سکتا ہے ۔ غیر متعلق اخراجات نہیں لیے جاسکتے ۔ ب : بہتر ہے کہ مائیکرو فائنانس ادارہ دیگر اخراجات کے لیے جائز ذرائع مثلاً اصحاب خیر سے تبرّعات اور جائز سرمایہ کاری کی صورت اختیار کرے ۔ (5) مائیکرو فائنانس ادارہ بھی اسلامی سرمایہ کاری مثلاً مضاربت ، شرکت ، اجارہ اور مرابحہ وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے ۔ (6) وکالت پر مبنی سرمایہ کاری شرعاً جائز ہے ۔ (7) آج کل چھوٹے سودی قرضے کے متعدد ادارے ہیں ، جن میں گروپ بناکر عورتوں کو قرض دیا جاتا ہے ، اس میں قرض کی وصولی کے نام پر استحصال بھی کیا جاتا ہے ؛ اس لیے ایسے سودی قرض سے بچا جائے ۔
Read more