*بڑھاپے میں عبادات میں کمی کی تلافی کيسے کی جائے؟*
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال :
مثل مشہور ہے : ” يک پيری و صد عيب – “ يعنی ستّر اسّی برس کي عمر تک پہنچتے پہچنتے بہت سے ضعيف العمر حضرات طرح طرح کے امراض و مسائل سے دو چار ہوجاتے ہيں ۔ ان ميں نسيان کا مرض بھي نہايت تکليف دہ ہے ۔ بالخصوص نماز پنج گانہ کی ادائیگی کے وقت ايسا ہوتا ہے کہ رکعتوں کا شمار ، قرآنی آيات کی تلاوت اور ديگر اجزائے عبادت کا پورا ادراک نہيں رہ پاتا ۔ بعض اوقات طہارت بھی مشکوک ہو جاتی ہے ۔
ايسی صورت ميں علاج معالجہ کے باوجود اس نامکمل يا ناقص عبادت پر کيسے اس کے مکمل ہونے کي توقع کی جائے؟ عمر کي مختلف منزلوں ميں بعض وجوہ سے کئی وقت کي نمازيں اور روزے چھوٹ جاتے ہيں ۔ ان کے کفارہ يا ادائيگی کي کيا صورت ہوگی ؟ سنا ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے وقت اگر قضاشدہ نمازوں کو يکے بعد ديگرے ادا کيا جائے تو اس طرح تلافی ہو سکتی ہے ۔ کيا يہ بات درست ہے؟ جواب سے سرفراز کرکے ممنون فرمائیں ۔
جواب :
اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اس طرح بنايا ہے اور اس ميں انسان کی تخليق اس طرح کی ہے کہ وہ پيدا ہوتا ہے تو کم زور اور دوسروں کے سہارے کا محتاج رہتا ہے ۔ پلتا بڑھتا ہے تو اس کے قوی مضبوط ہو جاتے ہيں ۔ وہ کڑيل نوجوان بنتا ہے ۔ اس کے بعد ادھيڑ عمر کا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے قوی مضمحل ہونے لگتے ہيں ، چناں چہ وہ دوبارہ اسی طرح نحيف و ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے ، جيسا اپنے بچپن ميں تھا ۔ ہر شخص کے ساتھ يہ دورانيہ لگا ہوا ہے ۔ اللہ تعالي کا ارشاد ہے :
اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ ضُعۡفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُعۡفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّةٍ ضُعۡفًا وَّشَيۡبَةً ، يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ وَهُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡقَدِيۡرُ (الروم: 54)
” اللہ ہي تو ہے جس نے ضعف کي حالت سے تمھاری پيدائش کی ابتدا کی ، پھر اس ضعف کے بعد تمھيں قوت بخشی ، پھر اس قوت کے بعد تمھيں ضعيف اور بوڑھا کر ديا ۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پيدا کرتا ہے ۔ وہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چيز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ “
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡــًٔـا (الحج : 5)
” پھر ہم تم کو ايک بچے کی صورت ميں نکال لاتے ہيں ، پھر (تمھاری پرورش کرتے ہيں) تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم ميں سے کوئي پہلے ہی واپس بلا ليا جاتا ہے اور کوئی بدترين عمر کي طرف پھير ديا جاتا ہے ، تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ۔ “
بڑھاپے کے امراض میں سے ايک بڑا مرض نسيان کا ہے ۔ آدمی پر ذہول اور غفلت طاری ہوجاتی ہے ۔ اسے کچھ ياد نہيں رہتا ۔ اس نے کھانا کھايا ہے يا نہيں؟ دوا لی ہے يا نہيں؟ قرآن کی تلاوت کی ہے يا نہيں؟ نماز پڑھ رہا ہے تو کتنی رکعتيں ہوئی ہے؟ اس طرح کے چھوٹے موٹے کام اور معمولی باتيں بھی ياد نہيں رہتيں ۔ يہ صورت اس کے ليے بہت تکليف دہ ہوتی ہے ۔ چوں کہ يہ مرض کی کيفيت ہے اس ليے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس پر کوئی گرفت نہيں ہوگی ، بلکہ اس کيفيت کے ساتھ انجام ديے گئے تمام اعمال اسی طرح مقبول ہوں گے جيسے آدمي صحت کی حالت ميں انھيں انجام ديتا تھا ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ (ابن ماجہ: 2045)
” اللہ نے ميري امت سے غلطی ، بھول چوک اور بالجبر ليے گئے کام کو معاف کر ديا ہے۔“
نماز پڑھتے ہوئے آدمی کو ياد نہ رہے کہ کتنی رکعتيں ہوئی ہيں ، تو کم کو فرض کرکے نماز مکمل کرے ۔ مثلًا اگر شبہ ہوجائے کہ تين رکعتيں ہوئی ہيں يا چار تو تين رکعتيں مان کر چوتھي رکعت پڑھے ۔ اگر نسيان کا مزيد غلبہ ہو تو ايک تدبير يہ اختيار کي جاسکتی ہے کہ کسی کو اپنے ساتھ بٹھا ليا جائے ، کوئی بھول چوک ہو جائے تو وہ ياد دلاتا رہے ۔
اگر بڑھاپے کي وجہ سے روزہ رکھنا آدمی کے بس ميں نہ ہو تو اجازت دی گئی ہے کہ وہ فديہ ادا کرے ۔ ايک روزہ کا فديہ دو وقت کا کھانا ہے ۔ قرآن ميں ہے : فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ (البقرة: 184) غريبوں کو کھانا کھلايا جاسکتا ہے اور اس کي ماليت کے بہ قدر رقم بھی انھيں دی جاسکتي ہے ۔
اگر کسي شخص کي بہت سی نمازيں چھوٹ گئی ہوں تو کيا اس کے ذمے ان کی قضا لازم ہے يا اس کوتاہي کی تلافي محض توبہ سے ہو جائے گي؟ اس سلسلے ميں زيادہ تر فقہاء کہتے ہيں کہ چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا لازم ہے ۔ اس کا طريقہ يہ ہے کہ آدمی اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا اندازہ لگائے ، پھر اپنی ہر فرض نماز کے بعد قضا نماز بھی پڑھ ليا کرے ، يہاں تک کہ اسے تمام چھوٹی ہوئی نمازوں کے ادا ہو جانے کا ظن غالب ہو جائے ۔ جب کہ بعض علماء ، جن ميں داود ظاہری ، ابن حزم اور ابن عبد الرحمن الشافعی خصوصيت سے قابل ذکر ہيں ، کی رائے يہ ہے کہ چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا نہيں ہے ۔ اس کوتاہی پر آدمی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور ان کی تلافی کے ليے کثرت سے نوافل پڑھے ،
ٓبڑھاپے میں عبادات میں کمی کی تلافی کيسے کی جائے؟
Related Posts
کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے؟
[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] موجودہ دور میں میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجہ میں آنکھ کا قرنیہ (Cornea) اور قرن بٹن (Corneoscleral Button) دوسرے ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا محفوظ طریقہ پر انجام پذیر ہوتا ہے اور اس عمل میں میت کی کوئی اہانت نہیں سمجھی جاتی ہے اور نہ اس کی وجہ سے شکل میں کوئی بدنمائی پیدا ہوتی ہے ، لہذا اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پاس کی جاتی ہیں : (1) زندگی میں آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینے میں چوں کہ دینے والے کو بڑا ضرر لاحق ہوتا ہے ، نیز یہ چیز طبی اخلاقیات اور قانون کے بھی خلاف ہے ، اس لیے اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔ (2) اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو دے دیا جائے اور ورثہ بھی اس پر راضی ہوں تو اس کی آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینا درست ہے ، اسی طرح میت نے وصیت نہ کی ہو اور ورثہ اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا چاہیں تو اس کی بھی شرعاً اجازت ہے ۔ ( 3) اگر کوئی شخص کسی ایکسیڈنٹ یا حادثہ کا شکار ہوا اور اس کی آنکھ پر ایسی ضرب آئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، یا کسی شدید بیماری کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، اور اس کی آنکھ کا قرنیہ طبّی نقطۂ نظر سے قابلِ استعمال ہو تو ایسی صورت میں اس کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ مولا نا عظمت اللہ میر کشمیری (نوٹ: تجویز 2 کی دونوں شقوں کے ساتھ راقم اتفاق نہیں رکھتا ہے – )
Read moreمائیکرو فائنانس کے شرعی احکام
[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] (1) غیر سودی مائیکرو فائنانس ادارے قائم کرنا وقت کی ضرورت اور شرعاً مستحسن قدم ہے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ سے واقف علماء و اربابِ افتاء کی نگرانی میں کام کرے ۔ (2) مقروض کو قرض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے والے گروپ کی تشکیل میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ؛ البتہ مقروض کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے گروپ کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جو مقروض کے لیے ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سبب ہے ۔ (3) مال جمع کرنے والوں کی رضا مندی سے قرض طلب کرنے والوں کو قرض دینے کی گنجائش ہے ؛ خواہ وہ ادارے کے ممبر ہوں یا نہ ہوں ؛ البتہ اگر قانوناً ممبر بنانا ضروری ہو تو ممبر بنا کر قرض دیا جائے ۔ (4) الف : مائیکرو فائنانس ادارہ قرض کے اندراج اور وصولی کی مناسب اجرت لے سکتا ہے ۔ غیر متعلق اخراجات نہیں لیے جاسکتے ۔ ب : بہتر ہے کہ مائیکرو فائنانس ادارہ دیگر اخراجات کے لیے جائز ذرائع مثلاً اصحاب خیر سے تبرّعات اور جائز سرمایہ کاری کی صورت اختیار کرے ۔ (5) مائیکرو فائنانس ادارہ بھی اسلامی سرمایہ کاری مثلاً مضاربت ، شرکت ، اجارہ اور مرابحہ وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے ۔ (6) وکالت پر مبنی سرمایہ کاری شرعاً جائز ہے ۔ (7) آج کل چھوٹے سودی قرضے کے متعدد ادارے ہیں ، جن میں گروپ بناکر عورتوں کو قرض دیا جاتا ہے ، اس میں قرض کی وصولی کے نام پر استحصال بھی کیا جاتا ہے ؛ اس لیے ایسے سودی قرض سے بچا جائے ۔
Read more