سہ روزہ سمینار میں بعنوان: ‘بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا حصہ(٢)
ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی یے
بڑی مشکل. سے ہوتا چمن میں دیدہ ور پیدا
فقیہ العصر، حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ موفق و مؤید من اللہ شخصيت ہیں، فقہ و فکر کی جامعیت اور دوراندیشی اور دور بینی ان کی فطرت ہے، انہوں نے قلم و قرطاس کے ساتھ میدان عمل میں مسلمانوں کی رہنمائی کا کام انجام دیا ہے، وہ بیک وقت علم کے سپہ سالار اور فکر کے غازی ہیں، حکمت و دانائی ان کے وجود کا حصہ ہے، جرات و ہمت اور دل بری و دل نوازی ان کی شرست ہے، مولانا اس وقت مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ہیں اور اس سے قبل پرسنل لا بورڈ کے علاوہ مختلف تنظیم و تحریک سے وابستگی رہی ہے؛ بلکہ آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہندوستان کی تحریکیں ان کے ساتھ جوان ہوئی ہیں، اس اعتبار سے آپ ہوا کا رخ سمجھتے ہیں، وقت کی نزاکت اور ضرورت سے باخبر رہتے ہیں، بالخصوص فاشزم اور ہندواحیائت کے رگ و ریشہ سے واقف ہیں، مولانا نے کئی مرتبہ یہ احساس دوہرایا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ہندوازم کی متضاد تعلیمات اور ان کے ضال ومضل افکار پر کام کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً طبقہ واریت اور خواتین کے سلسلہ میں ان کی بے اعتدالیاں عام بیانیہ کا حصہ بنانا چاہئے؛ تاکہ حقیقت سے لوگ واقف ہوسکیں، یہ پروپیگنڈہ بھی دور ہو کہ یہ سب کچھ ثانوی درجہ کی چیزیں ہیں، نہیں یہ ان کی مقدس سمجھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے اور ان کا سماجی ڈھانچہ اسی کے تانے بانے سے بنتا ہے، چنانچہ ایک طرف مسلمانوں پر ہورہے فکری یلغار اور دوسری طرف ہندوازم کی کھوکھلی تعلیمات کا غیر ضروری شہرہ کا تقاضہ تھا کہ اس کے خلاف خاکہ سازی کی جائے اور ملت کی رہنمائی میں کوئی فروگذاشت نہ رکھی جائے، بلاشبہ یہ فقیہ العصر کے شایان شان تھا کہ وہ اس پہلو پر پہل کریں اور ملک میں پھیلائے جانے والے زہر آلود بیانیہ کا تریاق پیش کریں، یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ خود مولانا کے اردگرد مضبوط اور منظم ٹیم ہے، المعہد العالی الاسلامی کے وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے اسی میکدہ سے سیرابی حاصل کی ہے اور ساقی کے ہاتھوں جام انڈیل انڈیل کر پیا ہے، بعضوں اپنا سب کچھ جلا کر خود کو مولانا کیلئے وقف کردیا ہے، وہ سبھی صلاحیت اور صالحیت میں یکتا اور نابغہ روزگار ہیں، مولانا کی فکر اور سوچ کو رنگ و روپ دینے والے اور زمینی سطح پر ایک مکمل تصویر اور اسے حقیقت میں بدلنے والے ہیں، الحمداللہ سہ روزہ سمینار کی ترتیب اور تنظیم کا مشاہدہ کرنے والے خوب بتا سکتے ہیں کہ واقعی مولانا کے دست و بازو نہایت طاقت ور اور منظم ہیں؛ بالخصوص نائب ناظم مولانا عمر عابدین قاسمی، مولانا اعظم صاحب ندوی، مولانا مفتی شاہد صاحب قاسمی، مفتی اشرف صاحب قاسمی، مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی، مولانا نور عینی صاحب قاسمی اور ان کے علاوہ شعبہ تحقیق کے متعدد رفقاء جو طالب علم اور استاذ کی حیثیت بیک وقت رکھتے ہیں، وہ سبھی باذوق اور سلیقہ مند ہیں، حسن انتظام اور نظامت اجلاس میں مولانا عمر عابدین قامسی اور مولانا اعظم ندوی اپنی مثال آپ ہیں، ادب، لطافت، نکتہ سنجی؛ ساتھ ہی احباب کے ساتھ ملنساری، اخلاق مندی اور نیک خواہشات کا اظہار عیر معمولی حد تک بڑھا ہوا ہے، ان سب نے فقیہ العصر کی فکری اور انتظامی صلاحیت سے استفادہ کیا ہے اور درحقیقت یہ سارے چشمے ایک ہی سمندر جا گرتے ہیں جنہیں دنیا فقیہ العصر کہتی ہے:
وَلَيسَ اللَهِ بِمُستَنكِرٍ
أَن يَجمَعَ العالَمَ في واحِدِ
یہ سعادت و خوش بختی کی بات ہے کہ راقم الحروف کو اس عظیم تاریخی اور حساس مسئلہ پر قلم اٹھانے کی دعوت دی گئی، مولانا سے جب اس موضوع پر مقالہ لکھنے کی بات ہوئی تو انہوں نے خصوصاً اس پہلو کا اظہار کیا کہ اس وقت اس پر کام کرنے ضرورت ہے اور تم ملک کے دفاع اور دفاعی سائنس میں مسلمانوں کے کردار پر لکھو، میں نے تقریباً 32 صفحات پر مشتمل ایک مقالہ تیار کیا اور پھر خلاصہ بھی مطالبے پر لکھ بھیجا، سمینار کی دعوت موصول ہوئی کہ 21 تا 23 نومبر 2025 معہد حاضر ہونا ہے اور خلاصہ مقالہ پیش کرنا ہے، جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کرناٹک سے 20 نومبر بروز جمعرات حیدر آباد کیلئے روانہ ہوا، یہاں سے ٹرین کے بجائے بَس کا سفر مناسب ہوتا ہے؛ کہ اس میں وقت کم لگتا ہے، مگر اصل تو یہی ہے کہ بَس کا سفر خواہ وہ لگژری ہو ہر کسی کے بس کی بات نہیں، رات بھر اپنے جسم کو گویا ایک جھولے میں ڈال دینا اور اسی میں جھولتے ہوئے سونا اور رات گزارنا ہے، اگر عمر جھولنے کی ہو تو الگ بات ہے ورنہ جوان آدمی کیلئے اس طرح شب گزارنا امتحان ہی ہے، خیر! جمعہ کے دن صبح 9/30 بجے آرام گڑھ پہنچا، عزیزم معاویہ ندوی سلمہ اللہ کے ساتھ معہد پہنچا، اس وقت جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے تین طلباء زیر تعلیم ہیں، مولوی معاویہ ندوی، مولوی حمزہ ندوی اور مولوی یوسف ندوی سلمہم اللہ، تینوں پروگرام کے سلسلہ میں مستقل اپنی خدمات پیش کر رہے تھے، میں نے اپنے بعض اساتذہ اور متعلقین سے بھی ان کی غائبانہ تعریف سنی، دل کو ڈھنڈک پہنچی کہ ماشاء اللہ اپنے بچے تعلیم و تربیت میں ترقی کر رہے ہیں، معہد میں داخل ہوتے ہی مولانا محبوب عالم صاحب سے ملاقات ہوئی، مولانا دیکھتے ہی متوجہ ہوئے اور معانقہ کیا، انہوں نے اس پروگرام کی ترتیب و تنسیق میں اہم کردار ادا کیا ہے، بندہ کو بھی عزیز رکھتے ہیں اور ہر ممکن علمی تعاون پیش کرتے ہیں، میں 34/ ویں فقہی سمینار اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا جمشیدپور میں فقیہ العصر کے ساتھ ایک موقع پر مولانا کی تعریف سن چکا تھا، تقریباً نصف شب ان کا فون آیا تھا اور پروگرام کے تعلق سے دن بھر کی کارگزاری انہوں نے پیش کی تھی، مولانا کا چہرہ کھل اٹھا تھا اور برجستہ فرمایا کہ مولانا محبوب صاحب مستقل لگے ہوئے ہیں ؛ میں نے یہاں دیکھا کہ واقعی سراپا مصروف ہیں، معہد کی مرکزی عمارت میں استقبالیہ کے بعض احباب تشریف فرما تھے، مولانا احسان صاحب مظاہری، مولانا حذیفہ داستان رحمانی بھی تھے، جو ہمارے عزیز دوست اور کرم فرما بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ رہنے سہنے کا نظام اسکول والی عمارت فوقانیہ کمرہ نمبر 5 میں ہے، جمعہ کا دن تھا، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوئے تو پہلا خیال یہی آیا کہ فقیہ العصر کی خدمت نصیب ہوجائے تو لطف دوبالا ہو؛ لیکن اندازے کے مطابق آج ملاقات ممکن نہیں تھی؛ کیونکہ مولانا جمعہ کی نماز شہر کی ایک مسجد میں بیان کرتے ہیں اور معہد تشریف نہیں لاتے، مگر آج معلوم ہوا کہ مولانا معہد کی مسجد میں ہی بیان فرمائیں گے اور معہد جلد ہی پہنچنے والے ہیں.
(جاری)
✍🏻 محمد صابر حسین ندوی
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
25/11/2025