مولانا محمد عارف ندوی
استاذ مدرسۃ العلوم الاسلامیہ
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ۔ (الأعراف/١٦٧)
اور جب آپ کے رب نے آگاہ کیا کہ وہ قیامت تک ان پر ایسے کو ضرور مسلط رکھے گا،جو ان کو سخت اذیتیں دیتا رہے گا۔
قرآن و حدیث اور تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہود دنیا کی وہ ظالم قوم ہے جس کے ہاتھ صرف عام لوگوں کے خون سے ہی نہیں بلکہ روئے زمین کی سب سے مقدس وبابرکت اور پاکیزہ شخصیات انبیاء کرام علیہم السلام کے خون سے بھی رنگے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے یہ اللہ کے دوہرے غضب اور لعنت کے مستحق ٹھہرے۔ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍۢ ۚ۔(البقرۃ/٩٠)ان کی بدکرداریوں اور نافرمانیوں کے سبب انبیاء کرام کی زبانی بھی ان پر لعنت کی گئی۔ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ(المائدۃ/٧٨) ۔کبھی ذلیل بندر بناکر سخت ترین عذاب سے دوچار کیا گیا۔
قرآن پاک میں خصوصی طور پر اس ملعون قوم پر دو سزاؤوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق دنیا ہی سے ہے، سورہ اعراف میں ہے وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ ۗ.(١٦٧) یہود دنیا کی خواہ کتنی ہی مالدار اور طاقت ور قوم کیوں نہ بن جائے مگر اللہ کی لعنت و پھٹکار ان پر دو طرح سے ہمیشہ برستی رہے گی، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کسی نہ کسی شخص کو ان پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت سے سخت سزا دیتا رہے گا اور ذلت و خواری میں مبتلا رکھے گا۔
چنانچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ قوم کسی نہ کسی ایسے حاکم و فرماں روا کے زیر اثر رہی جس نے ان کی سازشوں ،مجرمانہ تدبیروں اور مجرمانہ کردار پر قدغن لگانے کے لیے اور بے لگام عقلوں کو لگام کسنے کے لیے طرح طرح کی سزاؤں سے دوچار کیا ۔سب سے پہلےحضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کی عقلوں کو درست کیا،پھر بخت نصر کو اللہ نے ان پر مسلط کرکے رسوا کن عذاب سے دوچار کیا ۔پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مدینہ سے جلا وطن کرکے دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کیا اور پھر سب سے آخر میں ہٹلر نے ان کا ایسا قتل عام کیا کہ تاریخ رقم کردی ۔
دوسرا عذاب اللہ کا ان پر یہ رہا کہ ان کی آبادی دنیا کے مختلف خطوں میں بکھیر دی گئی، جس کی صراحت سورہ اعراف کی مندرجہ ذیل آیت وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا [ الأعراف: 168] میں موجود ہے لہذا ان کو کبھی اجتماعیت نصیب نہیں ہوئی، جو کہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، دنیا میں اجتماعیت کے ساتھ رہنا اور اپنے دستور اور قانون کے ساتھ زندگی بسر کرنا ایک امتیاز ہے جس سے یہ ملعون قوم یکسر محروم رہی ہے ۔
اسرائیل کی موجودہ حکومت سے بعضوں کے ذہنوں میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ ان کی تو باقاعدہ اپنی حکومت ہے، تو جاننے والے جانتے ہیں کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت امریکہ،برطانیہ اور روس کی مشترکہ چھاؤنی ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اگر امریکہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو اس کا وجود ہی سرے سے ختم ہو جائے ۔