: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
سوال: استاذ محترم جناب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب مدظلہ العالی۔السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ امید ہے مزاج بخیر وعافیت ہونگے ۔ ایک آپکی خدمت میں عرض ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔۔دین کی تفہیم پھر اسکی تعبیر و تشریح کے سلسلہ میں عمومی طور پر تین منہج دیکھنے میں آئے، (سلفی منہج کا یہاں ذکر نہیں)1 صوفی۔2 خالص علمی 3 صوفی اور علمی مناہج کا امتزاج۔خالص صوفی منہج میں گمراہیاں واضح نظر آتی ہیں۔ اور خالص علمی انداز میں عقلانیت اور فلسفہ کا اثر محسوس ہوتا ہے۔
سوال یہ کہ علمی منہج کو ذہن و عقل اپیل کرتے ہیں مگر یہاں روحانیت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس صوفیانہ اور علمی منہج کے امتزاج سے جو تیسری شکل پیدا ہوئی یہ منہج عقل وذہن کے بجائےروح اور دل کو اپروچ کرتا ہےاور اپنے اندر ایک قسم کی جاذبیت رکھتا ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آپکی نظر میں کونسا منہج صحیح ہے اور ہونا چاہئے؟اخیر میں یہ بات بھی تازہ کردوں که غزالی اور سید سلیمان ندوی جیسے لوگ بھی بالآخر تیسرے منہج پر آکر مطمئن ہوئے۔۔والسلام۔ سالم سولنکی ندوی، راجستھان۔
جواب: ايكـ بنيادى بات ذہن ميں ركهيں، اس سے ان شاء الله آپ كو ہر مسئله كى تحقيق ميں فائده ہوگا: دين وحق كى طلب تمام انسانوں پر فرض ہے، الله تعالى كى سنت جاريه ہے كه پيغمبروں كے علاوه كسى پر حق كى وحى نہيں آتى اور نه كسى پر اس كا حتمى الہام ہوتا ہے، نه حق كى معرفت خواب يا كشف سے ہوتى ہے، اور نه ہى غير معصومين كى پسند يا نا پسند حق كى نشانى ہے۔
حق ايكـ قدر (value) ہے، اور سارى قدروں ميں سب سے زياده مہتم بالشان ہے، جس طرح تمام قدروں كى معرفت دلائل وعلامات پر موقوف ہے، اسى طرح وه حق جو صراط مستقيم سے عبارت ہے، اور جس پر چلنا رضائے الہى اور جنت كى ضمانت ہے، اس كى شناخت بهى صرف اسى كے دلائل سے ہوگى۔
الله تعالى رحمان ورحيم ہے، اسے اپنے بندوں سے محبت ہے، وه انہيں پريشانى ميں ڈالنا نہيں چاہتا، يه ہرگز ہرگز ممكن نہيں كه اگر كوئى آسان اور جاذب راسته ہو، وه اسے چهوڑ كر لوگوں كو مشكل اور ناگوار راستوں پر ڈال دے۔ اس نے ہدايت كے لئے ہميشه كتابيں اور صحيفے نازل كئے، ان ميں آخرى اور مكمل كتاب قرآن كريم ہے، حق كى رہنمائى كى كوئى اصل وفرع، اور كوئى كليه وجزئيه ايسا نہيں ہے جسے كتاب الہى ميں وضاحت سے بيان نہيں كيا گيا، الله تعالى نے اسے مختلف اساليب سے واضح كيا ہے تاكه بات اچهى طرح ذہن نشيں ہو جائے، كہيں فطرى دلائل ديئے اور كہيں عقلى دلائل، كبهى آفاق ميں غور كرنے كى تعليم دى اور كہيں انفس كى شہادتوں كى طرف متوجه كيا، كہيں امثال وقصص كا سہارا ليا، اور كہيں تبشير ہے تو كہيں انذار۔ يہى وه علم (فطرت، عقل اور وحى) ہے جسے قرآن كريم ميں حق كى دليل قرار ديا گيا ہے، الله تعالى كا ارشاد ہے "فاعلم أنه لا إله إلا الله”، "إنما يخشى الله من عباده العلماء”، "وما يعقلها إلا العالمون”، "وقالوا لو كنا نسمع أو نعقل ما كنا في أصحاب السعير”، "قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون”، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كو حكم ديا گيا ہے "وقل رب زدني علما”، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا ارشاد ہے "من يرد الله به خيرا يفقہ في الدين”۔
جب انسان علم كے مقتضيات پر عمل كرنا شروع كرتا ہے تو اسے بعض ايسى دشواريوں كا سامنا ہوتا ہے جن كا حل كرنا آسان نہيں ہوتا، اس دشوار مرحله ميں انسان كس طرح حق كے واضح راسته سے ہٹنے نه پائے اس كے لئے الله تعالى نے اپنے پيغمبر عليہم السلام بهيجے جو معصوم ہيں، اور انہيں ہمه وقت الله تعالى كى دستگيرى حاصل رہتى ہے، الله تعالى نے ان پيغمبروں كے طريقوں كو صراط مستقيم قرار ديا اور حكم ديا كه اس كے بندے انہيں پيغمبروں كى اقتداء ميں اس كى عبادت واطاعت كريں، ان پيغمبروں ميں سب سے آخرى پيغمبر نبى اكرم صلى الله عليه وسلم ہيں، الله تعالى نے يه واضح فرماديا: "قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحپكم الله”۔ قرآن سے ہدايت حاصل كرنے والى اور نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى سنت پر چلنے والى مستند ترين ومنتخب ترين جماعت صحابۂ كرام رضي الله عنہم كى ہے، آسمانوں اور زمينوں نے ايسى برگزيده جماعت كبهى نہيں ديكهى، بعد كے دور كا كوئى اعلى سے اعلى مسلمان بهى كسى ادنى سے ادنى صحابى (صحابه ميں كوئى ادنى نہيں) كے مقام كو نہيں پہنچ سكتا۔ صحابۂ كرام رضي الله عنہم كے بعد جو لوگ قرآن وسنت سے جس قدر قريب ہوں گے وه لوگ اسى قدر حق سے قريب ہوں گے، اور جو لوگ كتاب وسنت سے دور ہوں گے وه حق سے بهى دور ہوں گے۔بعد كے ادوار ميں بہت سے نئے نئے طريقے اختيار كئے گئے، ہر وه طريقه جس پر نه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم تهے اور نه صحابۂ كرام رضي الله عنہم وه بدعت اور احداث في الدين ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے متعدد احاديث ميں اس كى صراحت كى ہے، ان ميں ايكـ حديث كا لفظ ہے "ما أنا عليه وأصحابي”۔
ان طريقوں ميں تصوف بهى ايكـ طريقه ہے، جس ميں حقيقت كا حصه تهوڑا ہے، اور رسوم، عادات، اصطلاحات اور غير ثابت شده احوال ومقامات كى بهرمار ہے، بيعت مشائخ، سلاسل، غير ماثور اوراد واذكار، سماع، رقص، وجد، شوق، قبض، بسط، قطب، غوث، وحدت الوجود اور وحدت الشہود اور بے شمار چيزوں نے تصوف كو ايكـ مبتدعانه راسته بناديا، ان ميں سے كوئى چيز نه قرآن ميں ہے، نه سنت ميں، اور نه صحابۂ كرام رضي الله عنہم كے اقوال وافعال ميں، بلكه تابعين اور ائمۂ كرام سعيد بن المسيب، علقمه، اسود، قاسم بن محمد، سالم بن عبد الله، عطاء بن ابى رباح، حسن بصرى، ابن سيرين، ابراہيم نخعى، ابو حنيفه، مالك، سفيان ثورى، اوزاعى، ليث بن سعد، ابو يوسف، محمد بن الحسن، عبد الرحمن بن مهدى، شافعى، اسحاق بن راهويه، ابو ثور، احمد بن حنبل، بخارى، مسلم، ابو داود، ترمذى، نسائى اور ابن ماجه رحمہم الله سے ان ميں سے كوئى چيز منقول نہيں۔ايكـ غلطى جو ہميشه سے راه حق پر چلنے والوں كى گمراہى كا سپ بنى ہے اس كى نشاندہى ضرورى ہے، يه غلطى ہر دين اور ہر مسلكـ ميں پائى جاتى ہے، وه غلطى ہے نام نہاد روحانيت، جاذبيت، وغيره كے پيچهے پڑنا، لوگوں نے يه سمجهنا شروع كرديا كه دين پر چلنے كے معنى ہيں موڈ كا خوش گوار ہو جانا، روحانى لذتوں سے سرشار ہوجانا، كسى مخصوص كيفيت كا پيدا ہو جانا۔اس كى مثال ايسى ہے كه كوئى شخص كهانا صرف اس لئے كهائے كه اس ميں مزه آتا ہے، لذت ملتى ہے، اور طبيعت خوش ہو جاتى ہے، ظاہر ہے جو لذتوں كے پيچهے دوڑے گا اس كا انجام صرف تباہى ہوگا، كهانے ميں اصل چيز ہے كه اس سے طاقت وصحت حاصل ہو، لذت ايكـ ثانوى چيز ہے، اگر لذت نه ہو تب بهى كهانا مفيد ہوگا، بلكه شايد زياده مفيد ہو، كيونكه لذت كى وجه سے لوگ صحتمند كهانا بهى زياده كهاتے ہيں اور پهر مہلكـ بيماريوں ميں مبتلا ہوتے ہيں۔دين ميں اصل الله كى عبادت اور اطاعت ہے، جو شخص الله كى عبادت بجا لائے اور اس كى اطاعت كرے خواه اس پر كوئى الہام نه ہو، اسے كشف نه ہو، وه كوئى خواب نه ديكهے، اس پر كوئى حال طارى نه ہو، اسے كوئى مقام نظر نه آئے، اسے نام نہاد روحانيت كا مزه نه ملے، وه كامياب ہے اور مقرب بارگاه ايزدى ہے، اور جو شخص عبادت واطاعت كا راسته چوڑ كر نام نہاد روحانيت، جاذبيت، لذت، سرور، وجد اور ديگر كيفيات كا طالب ہوگا، وه گمراه ہوگا، اس طرح كى روحانيت عيسائيوں، ہندوؤں، اور سارے گمراه لوگوں كے يہاں ہے۔
ايكـ بات ياد ركهيں كه جو شخص علم كى روشنى ميں خدا كى بندگى كرتا ہے، سنتوں پر چلتا ہے، اور بدعتوں اور محدثات سے بچتا ہے، وه الله كا محبوب بن جاتا ہے، اور اسے وه حقيقى لذت حاصل ہوتى ہے كه دنيا ہى ميں جنت كا مزه آنے لگتا ہے، شرط ہے كه انسان تقوى اور صبر كا دامن ہاتهـ سے نه چهوڑے، اور خدا كے علاوه كسى لذت وجاذبيت كو مقصود ومطلوب نه بنائے۔الله تعالى ہم سب كو اپنا قرب نصيب كرے، آميں۔