حالیہ پارلیمانی انتخابات میں نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی رامپور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔وہ کسی مسجد کے پہلے امام ہیں جنھیں پارلیمنٹ کی رکنیت ملی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مسجد میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔یہ مسجدپارلیمنٹ کے بہت نزدیک واقع ہے ۔میں تقریباً 42 برسوں سے اس مسجد میں نمازجمعہ ادا کرتا رہا ہوں، اس لیے اس سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں،ملاحظہ فرمائیں۔
ریڈ کراس روڈ کے آخری سرے پر واقع اس مسجد کو عام طورپر پارلیمنٹ کی مسجدکے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن 1940 کے سرکاری گزیٹر میں یہ’مسجد کونسل ہاؤس‘ کے نام سے درج ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کو اس زمانے میں کونسل ہاؤس ہی کہا جاتا تھا۔مسجد کے مغرب میں سابق صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ میں جب1982 میں آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ”آواز“سے وابستہ ہوا تو جمعہ کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتا تھا۔ اس کے بعد جب پارلیمنٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ شروع کی تو اجلاس کے دوران نماز جمعہ پابندی سے ادا کرنے لگا۔عام طور پر یہاں مرکزی حکومت کے مسلم ملازمین جمعہ کی نماز اداکرتے ہیں، لیکن جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو یہاں کی چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ یہاں اکثر مسلم ممبران پارلیمنٹ، وزراء اور دیگر سیاست داں نماز جمعہ ادا کرنے آتے ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے کا ایک مقصد اہم شخصیات سے ملاقات کا شوق بھی ہوتا ہے۔لیکن یہاں میں نے کچھ عبرتناک مناظر بھی دیکھے ہیں، جن کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب کبھی مسلم ملکوں کے سربراہ ہندوستان کے دورے پر آتے ہیں تو وہ بھی یہیں نمازجمعہ ادا کرتے ہیں۔ اندرا گاندھی کے دور میں جب پاکستان کے صدر ضیاء الحق ہندوستان آئے تھے تو انھوں نے بھی جمعہ کی نماز اسی مسجد میں ادا کی تھی۔یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ 1940 میں سنی اوقاف دہلی کے صدر لیاقت علی خاں اور گورنر جنرل کے درمیان معاہدہ کے تحت جن 42 مسجدوں اور قبرستانوں کو مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا، ان میں یہ مسجد بھی شامل تھی۔ یہی لیاقت علی خاں بعد کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔اس مسجد کی تعمیر مغلیہ عہد میں 300 سال پہلے ہوئی تھے۔ جب انگریزوں نے دہلی کو پایہ تخت بنایا اور اس کی توسیع کی تب بھی یہ مسجد موجود تھی۔یہ مسجد 1970 میں گزٹ ہوئی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار افغانستان کے صدر صبغۃ اللہ مجددی یہاں نماز جمعہ پڑھنے آئے تو امام صاحب نے منبر ان کے حوالے کردیا۔ انھوں نے خطبہ پڑھا اور نماز بھی ادا کرائی۔ اس مسجد کے امام قاری محمدادریس مرحوم تھے، جنھوں نے سب سے طویل مدت تک یہاں نماز پڑھائی۔ ان کا تقرر1947 کے بعد ہواتھا اور 16/جنوری 2005کو اپنے انتقال تک وہی امامت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔وہ اپنے ہجرے میں بیماروں اور پریشان حالوں کا روحانی علاج بھی بلا معاوضہ کیاکرتے تھے۔قاری ادریس صاحب مٹیا محل میں ہمارے پڑوسی تھے اور ان کے گھر میں ہمارا آنا جانا تھا۔بہت کم گو اور گوشہ نشین قسم کے انسان تھے۔یہ مسجد دہلی وقف بورڈ کے انتظام ہے، لیکن وقف بورڈ نے اس کے رکھ رکھاؤ پر کبھی توجہ نہیں دی۔ مجھے یاد ہے کہ 1996میں بل کی عدم ادائیگی کے سبب مسجد کی بجلی کاٹ دی گئی تھی اورمسجد میں اندھیرا چھاگیا تھا۔کئی مہینے ایسے ہی بیت گئے۔ بجلی کا بل ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا تھا اور وقف بورڈ اسے ادا کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ایک روز پاس میں ہی واقع گردوارہ سیس گنج سے کچھ سکھ حضرات مغرب کے وقت اپنے ہاتھوں میں پیٹر ومیکس لے کر آئے۔ یہ گیس سے روشن ہونے والی لالٹینیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسجد کو ہدیہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ خدا کے گھر میں اندھیرا اچھا نہیں لگتا۔ مگر قاری صاحب نے انکار کردیا اور وہ اپنے جذبہ صادق سمیت واپس ہوگئے۔ اسی دوران میں نے ایک رپورٹ لکھی، جس میں مسجد کی بجلی بحال نہ ہونے میں وقف بورڈ کی لاپروائی کا تذکرہ تھا۔ قاری صاحب ناراض ہوگئے کہ میں نے اس معاملے کو اخبار میں کیوں اچھالا۔بہرحال اخبار میں تفصیلی خبر شائع ہونے کے بعد ہی وقف بورڈ متحرک ہوا اور بجلی کا بل ادا کیا گیا۔ شاید کسی مخیر شخص نے اس کی ادائیگی کی تھی۔2014میں اس مسجد کی قسمت اس وقت چمکی جب کیرل کے معروف تاجر یوسف علی (مالک لولو مال)نے لاکھوں روپے خرچ کرکے اس مسجد کی شاندار انداز میں تزئین کروائی۔مسجد کی چھتیں، وضو خانہ، اندرونی نقش ونگار، ایئر کنڈیشنڈ سب کچھ نئے انداز میں بنائے گئے۔آج یہ مسجد تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے۔اس سے قبل مسجد کی تجدید جنوری 1946ں بھارت کیمیکل ورکس کلکتہ کے مالک شیخ محمدسعیدوشیخ محمد حنیف کی والدہ کی طرف سے کرائی گئی تھی، جس کا کتبہ بھی مسجد کی دیوار پر نصب ہے۔اب اس مسجدکے امام مولانا محب اللہ ندوی ہیں،جن کا تعلق رامپور سے ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد، سابق صدرڈاکٹر ذاکرحسین اور فخرالدین علی احمد بھی یہیں نمازجمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ آخری شخصیت نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری کی ہے، جو اکثر یہاں نمازجمعہ ادا کرتے ہیں۔اس کے نمازیوں میں غلام محمودبنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ، مرکزی وزیر ضیاالرحمن انصاری،جعفر شریف،عبدالرحمن انتولے، سید شہاب الدین، پروفیسر سیف الدین سوز، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور الیاس اعظمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
پارلیمنٹ کی یہ مسجد بہت سے سیاسی اتارچڑھاؤ کی بھی گواہ بنی ہے۔ میں نے گزشتہ بیالیس سال کے دوران یہاں عروج وزوال کی بہت سی عبرتناک داستانیں دیکھی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سید شہاب الدین جب یہاں نمازپڑھنے آتے تھے تو ان کے مداحوں کا ہجوم انھیں ایسے ہی گھیر لیتا تھا جیسا کہ آج کل اسد الدین اویسی کو گھیر لیتا ہے۔قوم کا ایک عجیب مزاج یہ ہے کہ جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کی خوب پرستش ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوجاتا ہے تواس سے منہ پھیر لیتی ہے۔سید شہاب الدین جب پارلیمنٹ میں نہیں تھے تو ان کا دفتر فیروزشاہ روڈ پر کسی ممبر پارلیمنٹ کی کوٹھی میں تھا، جہاں سے وہ”مسلم انڈیا“شائع کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک پرانی فیئٹ کارتھی جسے وہ خود ہی چلایا کرتے تھے۔ایک روز وہ بغیر گاڑی کے نماز پڑھنے آئے مگر واپسی پر کوئی انھیں لفٹ دینے کو تیار نہیں ہوا۔ انھوں نے وہاں موجود کئی گاڑی والوں سے کہا مگر سب نے انکار کردیا۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔بعد کو میں نے انھیں فیروزشاہ روڈ تک پہنچایا۔
دیوے گوڑا کی حکومت میں سب سے طاقتور وزیر سی ایم ابراہیم تھے جو رنگین چشمہ لگاکر اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ ان کا انداز مافوق البشر جیسا تھا۔ نئے نئے وزیر بنے تھے۔ بلا کی تمکنت تھی۔ شہزادوں کی طرح چلتے تھے، لیکن ان کا عروج دیوے گوڑا کے زوال تک ہی رہا۔ بعد میں وہ جب کبھی اس مسجد میں آئے تو کسی نے ان کی طرف نظر بد بھی نہیں ڈالی۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو عروج وزوال کی کہا نیاں بیان کرتے ہیں، لیکن میں فی الحال ان ہی پر اکتفا کرتا ہوں۔یہ مسجد آزادی کے بعد مسلم قیادت کے عروج وزوال کی گواہ رہی ہے۔
پارلیمنٹ کی مسجد : ایک تعارف معصوم مرادآبادی
Related Posts
تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
اسلام ایک معتدل اور متوازن شریعت کا نام ہے ، جو اپنے ماننے والوں کو ہر دور ، ہر خطے ، اور ہر حالت میں قابل عمل اور متوازن شریعت عطا کرتا ہے ، اسی اصول کے تحت اسلامی فقہ نے بھی مختلف مکاتب فکر اور اجتہادی آراء کو جنم دیا ہے ، جو در حقیقت دین کی وسعت ، لچک اور امت پر اللہ کی رحمت کا مظہر ہے ۔ حالات کی پیچیدگی اور نئے مسائل نے مزید یہ تقاضا پیدا کردیا ہے کہ بعض اوقات مختلف مذاہب کی آراء سے استفادہ کیا جائے تاکہ امت کو مشکلات سے نکالا جا سکے اور ان کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کی جائے ، اسی مقصد کے پیشِ نظر بعض دفعہ مخصوص شرائط کے ساتھ مسلک غیر فتویٰ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ، مسلک غیر پر فتویٰ دینے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ‘تلفیق بین المذاھب” کی ان صورتوں سے اجتناب کیا جائے جو درست نہیں ہیں ، اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ ” تتبع رخص” سے کام نہ لیا گیا ہو ، زیر نظر مقالہ انہیں دونوں اصطلاح کی وضاحت پر مشتمل ہے ۔ *تلفیق کی لغوی اور اصطلاحی حقیقت کیا ہے ؟ اور اصولیین تلفیق کا استعمال کس معنی کے لئے کرتے ہیں ؟* تلفیق کی لغوی معنی: تلفیق یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، باب تفعیل کا مصدر ہے، جو باب ضرب "لفق” سے مشتق ہے، معنی ہے "ضم شقۃ إلی أخری”ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانا، کہا جاتا ہے: "لفق الثوب” جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا” القاموس الوحید: ( ص: 1486 ) (لغۃ الفقہاء ۱۴۴) تلفیق کی اصطلاحی معنی (فقہی اصطلاح میں) "تلفیق بین المذاھب ” یہ ایک فقہی اصطلاح ہے ، اور فقہی اصطلاح کی رو سے تلفیق بین المذاھب کا مطلب ہوتا ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے مختلف اقوال کی روشنی میں ایک ایسی نئی صورت کو اختیار کرنا جو کسی مذہب کے مطابق نہ ہو ، یعنی ایک…
Read moreبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
"مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن کو ہم چھوٹا جان کر بسا اوقات ان سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع ابلاغ ان کو سنوارنے سے زیادہ بگاڑتے ہیں… اور پھر ہم حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ہوا کیا ہے؟ وہ اتنے بگڑ کیسے گئے؟ اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹ کیوں گئے؟”….. بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصولڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی اسلامی تعلیمات میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اتنی رہ نمائیاں ہیں کہ ان سے پورا فنِ تربیت ترتیب پاسکتا ہے، ہمارے دینی علمی ورثہ میں اس موضوع پر گفتگو ’والدین پر اولاد کے حقوق‘ کے عنوان کے تحت کی جاتی ہے، خود یہ عنوان اپنے اندر پورا پیغام رکھتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ تربیت بلا منصوبہ اور بے ترتیب انجام دیے جانے والے چند افعال سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت اولاد کے حقوق کی ادائیگی ہے، جن کا حق داروں تک مکمل طور پر پہنچنا لازمی ہے، ورنہ حقوق کی ادائیگی کا مکلف شخص گناہ گار ہوگا۔ والدین کی بڑی تعداد ان حقوق سے مکمل غافل ہے، بہت سے والدین کو تو ان حقوق کی بابت کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اکثر علما بھی ان حقوق کی بابت یاددہانی نہیں کراتے، وہ کچھ اور امور ومسائل کو زیادہ اہم جان کر ان کی ہی بارے میں گفتگو کرتے ہیں، حالاں کہ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی پر ہی قوم وملت کا مستقبل منحصر ہے، اس لیے کہ مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن سے ہم بسا اوقات چھوٹا جان کر صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع…
Read more