مولانا سید سلمان حسینی ندوی ہندوستان کے ایک مشہور عالم دین، ایک شعلہ بیان مقرر، ایک بہترین محدث، ایک عظیم داعی اور ایک مخلص مربی ہیں۔ انجمن شباب اسلام اور جامعہ سید احمد شہید کے بانی و صدر اور بہت سی علمی، دعوتی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ موصوف عالمِ اسلام کے لیے ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں اور ظلم و ستم اور نا انصافی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں مولانا کی آواز اس گھن گرج جیسی ہوتی ہے جس کی بازگشت ہندوستان کی سرحدوں کے باہر سیکڑوں میل دور عرب کے کوہساروں اور ریگزاروں میں بھی سنائی دیتی ہے۔
مولانا کے موافقین اور مخالفین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بلا کی صلاحیت و قابلیت اور ذہانت و فطانت کے ساتھ ساتھ ا ٓپ کو ایسی شیریں بیانی اور شعلہ فشانی کی عدیم المثال قدرت سے نوازا ہے جو آپ کے معاصرین میں عنقاء ہے۔ اردو اور عربی دنوں زبانوں میں یکساں بولنے اور لکھنے کی بے پناہ صلاحیت آپ کو دیگر علماء وقائدین کے درمیان نہ صرف یہ کہ ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے بلکہ اپنے معاصرین کی پہلی صف میں لاکھڑا کردیتی ہے۔
مولانا موصوف کی پیدائش 1954ء میں لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجدکا نام مولانا سید محمد طاہر حسینی تھاجن کا تعلق اترپردیش میں واقع ضلع مظفر نگر کے قصبہ منصورپور کے ایک معزز سادات گھرانے سے تھا۔ آپ علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کے سگے بھائی، سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنیؒ کے نواسے ہیں۔ لہٰذا آپ کی تعلیم و تربیت میں علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کا خاصا اثر رہا ہے۔ مولانا کی والدہ انتہائی نیک صفت خاتون تھیں۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر اور محلہ کے مکتب میں حاصل کی۔ پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے درجہ حفظ میں داخلہ لے لیا اور حفظ کی تکمیل کے بعد اس عظیم دانش گاہ سے 1974ء میں عالمیت پھر1976ء میں فضیلت کی ڈگری لی۔اس کے بعد سعودی عرب کی مشہور یونیورسٹی جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں داخلہ لے لیا جہاں سے 1980ء میں حدیث میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور MA کا اپنا علمی مقالہ اپنے وقت کے مشہور محدث شیخ عبد الفتاح ابوغدہ کی زیرِ نگرانی مکمل کیا، مولانا کا مقالہ مولانا کی علمی صلاحیت و قابلیت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
سعودی عرب سے واپسی کے بعد مولانا ہندوستان کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حدیث کے لیکچرر مقرر ہوئے اور پھر اگلے چالیس سال تک حدیث کا درس دیتے رہے۔ مولانا کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا کے دیگر کارناموں اور خدمات کو چھوڑ دیا جائے تو مولانا کی تدریسی خدمات ہی مولانا کو اپنے زمانہ کے عظیم الشان علماء کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔ مولانا اپنے درس میں کسی خاص مذہب، خاص مسلک اور خاص مکتب فکر نہیں پڑھاتے بلکہ مولانا طلباء کے اندر جستجو اور حق کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں جو طلباء کے اندر ایک علمی و تحقیقی ذوق پیدا کرنے میں مہمیز کا کام کرتا ہے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی خاص مسلک اور مکتبِ فکر کی تبلیغ نہیں کی۔
مولانا سلمان حسینی ندوی نے 1974ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد جمعیت شباب اسلام قائم کی اور لکھنؤ اور اس کے اطراف میں مسلم نوجوانوں کے اندر مختلف دعوتی و سماجی سرگرمیوں کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کو ممکن بنایا جاسکے، آہستہ آہستہ یہ تنظیم ایک سوسائٹی کی شکل میں تبدیل ہوگئی اور اس کے تحت مولانا موصوف نے کئی دینی و عصری تعلیم گاہیں، مدارس اور مکاتب کھولے جو تعلیمی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
چنانچہ 1985ء میں جامعہ سید احمد شہید کی بنیاد ڈالی۔ دینی تعلیم کے میدان میں 9سے زائد مدارس اور پچاس سے زائد مکاتب مولانا کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ کلیۃ حفصہ للبنات، مدرسہ سیدنا بلال ڈالی گنج، وغیرہ اوسط درجے کے جہاں مدارس ہیں وہیں عصری تعلیم کے لیے حراء نام سے کئی اسکول بھی موصوف چلاتے ہیں۔ طب کے میدان میں ڈاکٹر عبد العلی یونانی میڈیکل کالج اور ہسپتال کا قیام آپ کی عظیم الشان خدمات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کی تنظیم انجمن شباب اسلام اور جامعہ سید احمد شہید سے کئی مؤقر میگزین اور مجلات بھی شائع ہوتے ہیں۔
مولانا سید سلیمان حسینی ندوی کی اصول حدیث پر بڑی گہری نظر ہے اور حدیث کے شعبہ میں کئی مؤقر تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں:
۱- لمحۃ عن علم الجرح و التعدیل
۲- دروس من الحدیث النبوی الشریف
۳- مفردات القرآن للبخاری
۴- المقدمۃ فی اصول الحدیث
۵- بین اھل الرأی واصل الحدیث
اس کے علاوہ دیگر اسلامی علوم و فنون اور عالم اسلام کے مسائل اور ایشوز پر مولانا کی کئی تصنیفات و تالیفات دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
(۱) ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟
(۲) مذکراتی
(۳) ترتیب و تدوین قرآنی
(۴) آخری وحی
(۵) الامانۃ فی ضوء القرآن
(۶) علماء اورسیاست
(۷) انتخابِ تفاسیر
(۸) قرآن کی ترتیب نزولی
(۹) مختصر تاریخ فلسطین
(۰۱) عالمی سیاسی نظریات اور اسلامی سیاست
کے علاوہ بھی بہت ساری کتابیں اور رسالے ہیں جو آپ کی علمی شان اور تحقیق ذوق کا آئینہ دار ہیں۔
مولانا موصوف کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں جس ہستی نے سب سے بڑا رول ادا کیا اور جس نے مولانا کو عالمِ اسلام میں متعارف کرایا وہ علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کی ذاتِ گرامی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کو علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کا نمائندہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔
مگر مولانا اور ان کے نانا اور مرشد علامہ سید ابوالحسن علی ندویؒ کے فکر و نظر تقریر و تحریر اور اسلامی مسائل و مشکلات کے تئیں رویہ(Approach)میں بہت نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے۔
علامہ سید ابوالحسن علی ندویؒ کی تقریر و تحریر میں جہاں ہوش تھا، وہیں مولانا کے اسلوب میں جوش کا غلبہ پایا جاتا ہے۔ علامہ کے تعلقات اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں سے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ علامہ کا اپروچ مثبت اور پوزیٹو ہوا کرتا تھا جبکہ مولانا کے اپروچ میں جذباتیت غالب ہے۔ مختلف فیہ مسائل اور ایشوز میں علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کی تحریریں اور تقاریر ایسے مثبت انداز میں ہوا کرتی تھیں کہ دل شکنی کی کہیں گنجائش نہ ہوتی مگر مولانا کے طریقہء تخاطب میں جرأت، جوش اور بے باکی غالب ہے۔ جس کی وجہ سے مولانا کے مخالفین کو چہ میگوئیوں کا موقع مل جاتا ہے۔ بہرحال مولانا کے خلوص و للہیت اور ملتِ اسلامیہ کے تئیں درد اور بے چینی و اضطراب پر سبھی کا اتفاق ہے۔
مولانا کے شاگردوں کا خیال ہے کہ مولانا اگر فوکس اور ارتکاز کریں اور مثبت اور پوزیٹیو انداز اختیار کریں تو مولانا کی بے پناہ صلاحیت و قابلیت اور خدا داد فطانت سے نہ صرف یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بلکہ پورا عالم اسلام کو بہت فائدہ پہونچ سکتا ہے
اسفار:
سعودی عرب،قطر، عمان، ترکی، شام، مصر، عراق، ایران، امریکہ، پاکستان، بنگلہ دیش، کویت، انگلستان، امارات، سمرقند، بخارا، انڈونیشیا، ملیشیاء، تھائی لینڈ، جاپان۔
عہدے:
(۱) دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پروفیسر اور کلیہ الدعوۃ و الاعلام کے ڈائرکٹر رہے ہیں۔
(۲) جامعہ الامام احمد بن عرفان الشہید ملیح آباد کٹولی لکھنؤ کے ناظم۔
(۳) جمعیت شباب اسلام کے بانی۔
(۴) فلاح انسانیت، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، عالمی رابطہ ادب اسلامی، عالمی رابطہ ادب اسلامی، اسلامی فقہ اکیڈمی، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین اور دیگر کئی تنظیموں اور اداروں کے رکن ہیں۔
مولانا سید سلمان حسینی ندوی:ایک ایسی شخصیت جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا از: نقی احمد ندوی
Related Posts
تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
اسلام ایک معتدل اور متوازن شریعت کا نام ہے ، جو اپنے ماننے والوں کو ہر دور ، ہر خطے ، اور ہر حالت میں قابل عمل اور متوازن شریعت عطا کرتا ہے ، اسی اصول کے تحت اسلامی فقہ نے بھی مختلف مکاتب فکر اور اجتہادی آراء کو جنم دیا ہے ، جو در حقیقت دین کی وسعت ، لچک اور امت پر اللہ کی رحمت کا مظہر ہے ۔ حالات کی پیچیدگی اور نئے مسائل نے مزید یہ تقاضا پیدا کردیا ہے کہ بعض اوقات مختلف مذاہب کی آراء سے استفادہ کیا جائے تاکہ امت کو مشکلات سے نکالا جا سکے اور ان کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کی جائے ، اسی مقصد کے پیشِ نظر بعض دفعہ مخصوص شرائط کے ساتھ مسلک غیر فتویٰ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ، مسلک غیر پر فتویٰ دینے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ‘تلفیق بین المذاھب” کی ان صورتوں سے اجتناب کیا جائے جو درست نہیں ہیں ، اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ ” تتبع رخص” سے کام نہ لیا گیا ہو ، زیر نظر مقالہ انہیں دونوں اصطلاح کی وضاحت پر مشتمل ہے ۔ *تلفیق کی لغوی اور اصطلاحی حقیقت کیا ہے ؟ اور اصولیین تلفیق کا استعمال کس معنی کے لئے کرتے ہیں ؟* تلفیق کی لغوی معنی: تلفیق یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، باب تفعیل کا مصدر ہے، جو باب ضرب "لفق” سے مشتق ہے، معنی ہے "ضم شقۃ إلی أخری”ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانا، کہا جاتا ہے: "لفق الثوب” جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا” القاموس الوحید: ( ص: 1486 ) (لغۃ الفقہاء ۱۴۴) تلفیق کی اصطلاحی معنی (فقہی اصطلاح میں) "تلفیق بین المذاھب ” یہ ایک فقہی اصطلاح ہے ، اور فقہی اصطلاح کی رو سے تلفیق بین المذاھب کا مطلب ہوتا ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے مختلف اقوال کی روشنی میں ایک ایسی نئی صورت کو اختیار کرنا جو کسی مذہب کے مطابق نہ ہو ، یعنی ایک…
Read moreبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
"مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن کو ہم چھوٹا جان کر بسا اوقات ان سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع ابلاغ ان کو سنوارنے سے زیادہ بگاڑتے ہیں… اور پھر ہم حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ہوا کیا ہے؟ وہ اتنے بگڑ کیسے گئے؟ اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹ کیوں گئے؟”….. بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصولڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی اسلامی تعلیمات میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اتنی رہ نمائیاں ہیں کہ ان سے پورا فنِ تربیت ترتیب پاسکتا ہے، ہمارے دینی علمی ورثہ میں اس موضوع پر گفتگو ’والدین پر اولاد کے حقوق‘ کے عنوان کے تحت کی جاتی ہے، خود یہ عنوان اپنے اندر پورا پیغام رکھتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ تربیت بلا منصوبہ اور بے ترتیب انجام دیے جانے والے چند افعال سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت اولاد کے حقوق کی ادائیگی ہے، جن کا حق داروں تک مکمل طور پر پہنچنا لازمی ہے، ورنہ حقوق کی ادائیگی کا مکلف شخص گناہ گار ہوگا۔ والدین کی بڑی تعداد ان حقوق سے مکمل غافل ہے، بہت سے والدین کو تو ان حقوق کی بابت کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اکثر علما بھی ان حقوق کی بابت یاددہانی نہیں کراتے، وہ کچھ اور امور ومسائل کو زیادہ اہم جان کر ان کی ہی بارے میں گفتگو کرتے ہیں، حالاں کہ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی پر ہی قوم وملت کا مستقبل منحصر ہے، اس لیے کہ مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن سے ہم بسا اوقات چھوٹا جان کر صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع…
Read more