از : ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
عربى زبان وادب كے ايك موقر عالم ومدرس نے سوال كيا: عربى زبان وادب كا مطالعه كس طرح كريں؟ نيز اس موضوع پر كار آمد بنيادى كتابوں كى نشاندہى كر ديں ۔
يه ايك اہم سوال ہے، اس طرح كے سوال سے خوشى ہوتى ہے كه مدرسوں ابهى وه لوگ موجود ہيں جن كا ذوق علمى ہے، اور جنہيں علوم وفنون ميں كمال پيدا كرنے كا حوصله ہے، خدا كرے كه ايسے طالبان فضائل كى تعداد بڑهتى رہے، مذكوره استفسار كے جواب سے عربى زبان وادب كے طلبه اور مدرسين كو ان شاء الله فائده ہوگا، اسى لئے ان كے معيار كو مد نظر ركهتے ہوئے جواب دينے كى كوشش كى جائے گى ۔
زبان عام ہے اور ادب خاص، دونوں ميں عموم خصوص مطلق كى نسبت ہے، يہى نسبت انسان اور طالبعلم ميں ہے، ہر طالبعلم انسان ہے، مگر ہر انسان طالبعلم نہيں، اسى طرح ہر ادب زبان ہے، پر ہر زبان ادب نہيں ۔
زبان كے دو بنيادى كام ہيں، سوچنا اور پيغام پہنچانا، يعنى زبان سوچنے كا ذريعه ہے، اگر زبان نه ہو تو سوچنا ممكن نہيں، جن لوگوں كى زبان زياده وسيع اور ترقى يافته ہوتى ہے ان كى قوت فكر بهى اسى كے بقدر اعلى ہوتى ہے، اسى طرح زبان ترسيل كا واسطه ہے، بالعموم زبان كے اس ثانوى مقصد كو اصل مقصد سمجها جاتا ہے، جو ايك غلط خيال ہے، اس كى وضاحت ميں نے ايك دوسرے مضمون ميں كى ہے، اسے ضرور پڑهيں ۔
يه دونوں مقاصد كسى نه كسى طرح معمولى زبان سے بهى پورے ہو جاتے ہيں، زياده تر لوگ اسى سطح ادنى پر قانع رہتے ہيں، معمولى زبان كى مثال فقه، منطق، فلسفه وغيره كے موضوع پر لكهى گئى عام كتابيں ہيں، يه كتابيں اپنے اپنے موضوع پر مفيد ہو سكتى ہيں ليكن انہيں ادب نہيں كہا جا سكتا، عقيدت كے غلو ميں بعض احناف كو يه كہتے سنا گيا ہے كه ہدايه عربى ادب كا بہترين نمونه ہے، اسى طرح ايك عالم كو ميں نے سنا وه ايك مشہور بزرگ كے ملفوظات پر ادب كا حكم لگا رہے تهے، اس قسم كى بے تكى باتوں سے كبهى كبهى مايوسى طارى ہونے لگتى ہے، مسلكوں كے انتساب نے صرف دين ہى كو نقصان نہيں پہنچايا ہے، بلكه زبان وادب بهى اس كى تعدى سے محفوظ نه ره سكے، فإلى الله المشتكى ۔
زبان سيكهنے كا طريقه كيا ہو؟ اس پر ميں نے كچه دنوں پہلے ايك مضمون لكها تها اسے حاصل كركے اس كا مطالعه كريں، اس سے آپ كو اپنے سوال كا جواب مل جائے گا، يہاں ميں عربى ادب كے متعلق گفتگو كروں گا، اس موضوع پر مجهے ياد پڑتا ہے كه كه ميں نے عربى ميں دو ايك مضامين لكهے ہيں، اگر وه مل جائيں تو ان كا بهى مطالعه كريں، ہو سكتا ہے كه ان ميں كچه ايسى باتيں آگئى ہوں جو اس مضمون ميں مذكور نہيں ۔
ادب كى خصوصيات:
ادب ترقى يافته زبان كو كہتے ہيں، يه ايك مبہم بات ہے، اسے وضاحت كے ساته سمجهنے كى ضرورت ہے، سر دست يه جان ليں كه عام زبان كے مقابله ميں ادب كى تين بنيادى خصوصيات ہوتى ہيں:
پہلى خصوصيت يه ہے كه ادب ميں معنى اور معنى كے فرق كا لحاظ ہوتا ہے، اور ہر معنى كى ادائيگى كے لئے مناسب تعبير اختيار كى جاتى ہے، كب ماضى كا صيغه استعمال كيا جائے اور كب مضارع كا؟ كب اثبات كا اور كب نفى كا؟ كب خبر كا اور كب انشاء كا؟ كب جمله مؤكد ہو اور كب غير مؤكد؟ كب تعجب كا اظہار ہو اور كب استفہام ہو؟ افسوس ہے كه بالعموم علماء ان معانى كے فروق نہيں سمجهتے، اور جو ان فروق كى رعايت كرتا ہے اسے مطعون كركے اپنى كم علمى كى شہادت پيش كرتے ہيں ۔
دوسرى خصوصيت يه ہے كه ہر معنى كى ادائيگى ميں اس قدر وضاحت ہو كه مخاطب بات اچهى طرح سمجه لے، اس كے لئے تشبيه واستعاره اور تمثيل ومجاز كا بقدر ضرورت استعمال ہو، امرؤ القيس كے معلقه كا مطالعه كريں تو وہاں آپ كو اس كى عمده مثاليں گى، امرؤ القيس كے بعد شايد اس ميں سب سے زياده كامياب بحترى اور معرى ہيں، كچه لوگوں نے تشبيه واستعاره كا مقصد ہى نہيں سمجها، نتيجه يه ہے ان كى بات جو پہلے غير واضح تهى تشبيه واستعاره كے استعمال كے بعد چيستاں يا سر اخفى بن جاتى ہے ۔
تيسرى خصوصيت يه ہے كه معنى كى ادائيگى اور وضاحت كے ساته حسن وجمال كى بهى رعايت ہو، بعض لوگ تشبيه استعمال كرتے ہيں مگر ان كى تشبيه بہت بهونڈى ہوتى ہے، يوں ان كى تحرير ادب كے بجائے بے ادبى كے حدود ميں داخل ہو جاتى ہے، امرؤ القيس نے ہرن كے بچوں كى خشك اور پرانى مينگنيوں كى تشبيه كالى مرچ كے دانوں سے دى ہے، جو بهى يه تشبيه پڑهتا ہے لطف اندوز ہوتا ہے، اب اگر كوئى كالى مرچ كى تشبيه مينگنيوں سے دے تو اسے پهوہڑ پن سمجها جائے گا، افسوس كه يه پهوہڑ پن علماء كے يہاں بہت زياده ہے، بعض ايسى مثاليں نظر سے گزرى ہيں جنہيں بد ذوقى كہنا شايد معمولى لفظ ہو ۔
عربى ادب كے مراجع:
ادب عربى كے مراجع بنيادى طور پر تين ہيں:
ايك نثرى مراجع: اس ميں سر فہرست قرآن كريم ہے، بلكه صحيح بات يه ہے كه قرآن كريم نثر وشعر سے بلند وبالا ہے، دوسرے كلام نبوت، اس كے لئے صحيحيں كا مطالعه مفيد ہوگا، ان دونوں كے بعد خصوصيت كے ساته ان چيزوں كا مطالعه كرين: عہد جاہليت كے خطبات، عہد اسلامى كے خطبات، سيرت ابن ہشام، ابن المقفع، جاحظ، ابن العميد، ابن قتيبه، مبرد، ابن عبد ربه، اصفہانى، ابن حزم، ابن خلكان وغيره كتابيں ۔
عصر حديث كے بلند پايه ادباء ہيں: مصطفى لطفى منفلوطى، طه حسين، مصطفى صادق الرافعى، حسن الزيات، احمد امين، على طنطاوى، ابو الحسن على ندوى وغيره، ان ادباء كى كتابيں حاصل كريں اور انہيں ہميشه اپنے مطالعه ميں ركهيں ۔
دوسرے شعرى مراجع: معلقات سبع، جاہلى شعراء كے شعرى مجموعے، حسان بن ثابت، جرير، فرزدق، اخطل، ابو نواس، ابو تمام، بحترى، ابو فراس، متنبى، ابو العلاء معرى وغيره كے دواوين، اور عصر حديث ميں شوقى كا كلام ۔
تيسرے نحو اور بلاغت كى عمده كتابيں، مثلا زمخشرى كى المفصل، سيبويه كى الكتاب، جرجانى ،باقلانى اور ابن رشيق القيروانى كى كتابيں، ان ميں بعض كتابيں شايد ادب كے معيار پر پورى نه اتريں، تاہم يه كتابيں ادب كى تحصيل كے لئے معاون ضرور ہيں ۔
آخرى بات يه ہے كه آپ كثرت سے مطالعه كريں، كلام كے اچهے نمونوں پر غور كريں اور حسن وقبح كا فرق سمجهيں، ايك وقت آئے گا كه آپ كو ادب كا ملكه حاصل ہو جائے گا اور آپ با ذوق اديب بن جائيں گے ۔