*ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتاویٰ*
*از : اسجد حسن بن محمد حسن ندوی*
علوم اسلامیہ میں فقہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، اور یہ علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اور دقیق علم ہے، یہ جہاں ایک طرف قرآن، حدیث، اقوال صحابہ، اجتہادات فقہاء ، جزئیات و فروع، راجح و مرجوح اور امت کی واقعی ضروریات کے ادراک کے ساتھ زمانے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دین کی روح کو ملحوظ رکھ کر تطبیق دینے کا نام ہے،
وہیں دوسری طرف طہارت و نظافت کے مسائل سے لے کر عبادات، معاملات، معاشرت، آداب و اخلاق اور ان تمام چیزوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جن کا تعلق حلت و حرمت اور اباحت سے ہے،
اور فتاویٰ کا میدان فقہ سے وسیع تر ہے، اس لیے کہ فتاویٰ میں ایمانیات، فرق و ملل، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں،
جہاں ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور سامراجی طاقت کے تسلط کے بعد فقہ و فتاویٰ کا کام دینی مدارس اور ان سے متعلق علماء کرام انجام دیتے رہے وہیں عالم اسلام اور عرب کے علماء نے بھی فتاویٰ مرتب فرمائیں ، ان میں شیخ شلتوت ، شیخ جاد الحق شیخ الازہر، سلفی مکتبہ فکر کے ترجمان عبد اللہ بن زیاد اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتاوی کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اور ڈاکٹر صاحب کے فتاوے کا مجموعہ "فتاویٰ معاصرہ: ایک تعارف” کے نام سے پانچ جلدوں پر مشتمل منظر عام پر آچکی ہے،
▪️ قرضاوی صاحب کی شخصیت پر ایک نظر
داکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت کسی بھی طرح کی محتاج تعارف نہیں ہے ، وہ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے ، علم کے پہاڑ تھے ، وہ صرف ایک مدرس و معلم نہ تھے بلکہ ، فقہ و فتاویٰ کے ماہر ، عظیم داعی ، معروف مصنف و محقق ، نامور قائد و رہنما ، مربی ، مجاہد ، شاعر ، وسعت معلومات ، دقت نظری ، معاصر حالات پر نظر ، نصوص کے استحضار ، ملی شعور ، فکری گہرائی ، اور مجتہدانہ صلاحیت کے حامل تھے، حق گوئی مظلومین کی تائید اور ظلم کے خلاف جد و جہد علامہ کی شخصیت کے بنیادی عناصر ہیں ، علامہ قرضاوی نے جہاں قرآن و سنت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو لگایا وہیں انہوں نے مختلف عالمی مسائل میں بے باکی کے ساتھ اظہار خیال بھی کیا ، شیخ قرضاوی 9 ستمبر 1926 ء کو مصر میں پیدا ہوئے ، اور 26/ ستمبر 2022 ء کو اپنی زندگی کی 97 بہاریں گزار کر مالک حقیقی سے جاملے ،
اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیراں ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا ،
▪️فقہ وفتاوی سے شخصیت کی وابستگی :
ڈاکٹر صاحب کی فقہ و فتاویٰ سے وابستگی زمانہ طالب علمی ہی رہی ہے ، زمانہ طالب علمی ہی سے فقہی سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے ، جس کا تذکرہ خود ڈاکٹر صاحب نے مقدمہ میں کیا ہے ، لکھتے ہیں کہ "طالب علمی کے زمانے ہی سے میں نے خطبہ جمعہ اور تدریس کا کام شروع کردیا تھا ، چونکہ خطبات اور دروس کے بعد بالعموم لوگ مجھ سے مختلف قسم کے فقہی سوالات کیا کرتے تھے اور میں اپنی حیثیت و بساط کے مطابق جوابات دیا کرتا ، اسی وجہ سے اسی زمانہ سے فقہی مسائل سے دلچسپی پیدا ہوگئی”
الغرض ڈاکٹر صاحب کو دعوت و تربیت کے ساتھ ساتھ فقہی میدان سے بھی گہرا ربط اور تعلق تھا ، فقہی میدان میں وہ وسیع تر معنوں میں ایک فقیہ کے طور پر نظر آتے تھے ، انہوں نے فقہ المقاصد ، فقہ الاولویات ، فقہ السنن ، فقہ المعاملات ، فقہ الموازنات ، اور فقہ الاختلاف وغیرہ جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ، اور حق ادا کیا ،
فقہ و فتاویٰ ایک اہم اور نازک کام ہوتا ہے ، آج کل عام طور پر نئی سوچ اور فکر کے لوگ اس کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتے رہتے ہیں ، اور فتاویٰ کو رائ سے زیادہ اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں ، گرچہ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، ایسے نازک صورتحال کے باوجود ڈاکٹر نے صاحب نے فقہ و فتاویٰ کو بھی اپنا خاص موضوع بنایا اور اپنے اصول و ضوابط ، اور مزاج کے مطابق اس نازک کام کو بھی ادا کیا ، اور مستقبل مزاجی کے ساتھ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ، اور گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ علم اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی گئی ،
▪️فقہی مزاج و مذاق
ڈاکٹر صاحب کی تعلیم حسبِ روایت حنفی مسلک کی بنیاد پر ہوئی لیکن اس کے باوجود شخصیت پرستی اور مسلکی تعصب کا شکار نا رہے، وہ اصول میں تصلب اور شرعی نصوص و قواعد کے حدود میں رہتے ہوئے فروع میں تیسیر کے قائل تھے ، اور فروعی مسائل میں اجتہاد کو ضروری سمجھتے تھے ، فروعی اختلاف کو وحدتِ امت کے منافی نہیں سمجھتے تھے ، قرضاوی صاحب نے فتاویٰ کے لیے جو منہج اختیار کیا تھا وہ اعتدال و توازن کا تھا، افراط و تفریط سے محفوظ تھا ، خواتین کے حوالے سے شیخ کے فتاویٰ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح افراط و تفریط سے بچتے ہوئے انہوں نے پردہ ، عورت کی ملازمت ، اور مہر وغیرہ موضوعات پر اسلامی شریعت کے متوازن نقطہ نظر کو اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے ، شیخ قرضاوی کے فقہی مزاج و مذاق اور منہج کے بارے میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ لکھتے ہیں ” اس عالم جلیل کی فقہ ، عملی زندگی اور واقعی صورت حال سے مربوط ہے ، جس میں دن اور امت دونوں کے لیے آسانی کی رعایت ہے ، نہ تکلف ، نہ تقشف ، نہ فساد فکر و نظر ، بلکہ ایک ایسی فقہ جس میں دلیل ، علت ، تقوی ، اور اصول پسندی کا غلبہ ہے ، شیخ فقیہ النفس و البدن ہیں ، عام زندگی کے بیشتر پہلووں پر شیخ نے خوب لکھا ہے ،کچھ مسائل میں الگ راہ اپنائی ہے ، مگر وہ ان کے دریائے حسنات کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے شیخ کو سیال قلم ، حاضر ذہن ، زندہ اور تابندہ علم ، حکمت و بصیرت اور قابل قدر اخلاص عطا فرمایا ہے ، ان صلاحیتوں سے شیخ قرضاوی نے بعض متساہل علماء کے شاذ قسم کے فتاویٰ کی تصحیح کی ، علمی مسائل میں کچھ اہل قلم کی کجی درست کی اور صحیح و غلط کا فرق واضح کیا ، جس میں پختہ فکر ادب شناس ، عالم کا ادب اور باتوفیق فقیہ کا علم شامل ہے” ( علامہ یوسف القرضاوی ص: 168)
▪️ فتاویٰ کی خصوصیات
فتاویٰ نویسی کی ذمہ داری لگ بھگ ہر دور کے علماء نے نبھائی ہے ، اور اپنے اپنے اعتبار سے اپنے اسلوب و منہج کے مطابق اس ذمہ داری کو ادا کیا ہے ، شیخ یوسف القرضاوی بھی اپنے عہد کے فقیہ تھے ، ان کے فتاویٰ کا مجموعہ "فتاوی معاصرہ” ہے جو تقریبا پندرہ سو صفحات پر اور پانچ زخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، اس مجموعہ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے ، اور پوری دنیا میں مسلمان استفادہ کررہے ہیں ،
٠ڈاکٹر صاحب اکثر جوابات فقہی متون سے آگے بڑھ کر اصل مراجع و مصادر یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں دینے کی کوشش کرتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے کسی خاص مسلک کی تقلید نہیں کی ہے، جیسے کہ دوسرے تمام جمہور فقہاء کرتے ہیں ، اور ساتھ ہی مسلکی عصبیت سے دوری بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے ، لیکن انہوں نے فقہاء کرام کے احترام کا خیال کیا ہے ، اور ان کا مذاق نہیں اڑایا ہے ،
جیسے کہ ایک جدید مسئلہ بیوٹی پارلر جانے سے متعلق سوال کے جواب میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام وہ مذہب ہے جو زینت و زیبائش کو پسند کرتا ہے ، بلکہ اس کی ترغیب دیتا ہے ، لیکن اعتدال و توازن کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سخت ناپسند فرماتا ہے جنہوں نے حلال اور جائز زینت و زیبائش کو حرام قرار دیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، ” قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده”
عورتوں کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے زینت کی وہ چیزیں بھی عورتوں کے لیے جائز کردی ہیں جو مردوں کے لیے حرام ہیں ، مثلا سونا ریشم وغیرہ ،
مزید قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں میکپ جائز ہے لیکن حدود کے اندر ، گھر ہی میں رہ کر میکپ کریں ، اپنے شوہر کے لیے، نا کہ راہ چلنے والوں کے لیے ، بہر حال اگر بیوٹی پارلر جانا گزیر ہو تو یہ اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی ساری کی ساری عورتیں ہوں اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو” ( فتاوى
معاصرة: ص ٤٢٦ ج(١ )
٠جوابات میں صرف وجوب ، استحباب ، کراہت ، حرمت اور جواز جیسے حکم شرعی کے بیان پر اکتفاء نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ ان میں غلط فہمیوں کے ازالہ ، حقائق کی وضاحت ، غلط دعووں کی تردید اور شریعت کے اسرار و حکم کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ، جیسا کہ مہر سے متعلق سوال کے جواب میں جہاں ڈاکٹر صاحب نے حکم شرعی کو بیان کیا ہے وہیں مہر کی حکمت و غایت مغرب زدہ لوگوں کی سوچ کی تردید اور عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مہر عورت کے لیے باعث ذلت نہیں بلکہ مہر عورت کے لیے باعث عزت و شرف ہے ، اسی طرح بیوی کو ڈانٹنا اور زور کوب کرنے سے متعلق سوال کا جواب بھی بہت ہی انوکھے انداز میں دیا ہے ، کیوں کہ یہ مرحلہ عورت کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ، اور لوگ قرآن و حدیث کی غلط تشریح کرکے جواز کی صورت نکالتے ہیں ، اور ایسا سلوک کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ایسا کرنے کا حکم اسلام نے دیا ہے، اور اسلام مار پیٹ کو پسند کرتا ہے وغیرہ ، ایسی تمام تر خرافات کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے، اور قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، کہ اسلام میں یہ سب چیزیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرمابردار بیوی کو ستایا جائے ، قرآن مجید میں گرچہ نافرمان بیوی کو سرزنش کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے”و لن يضرب خيركم ” "یعنی شرفاء اپنی بیوی کو پیار و محبت سے سمجھاتے ہیں” اور اس کی بہترین مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی حیات طیبہ ہے آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں ” خيركم خيركم لأهله و أنا خيركم لاهلي ( ترمذي) تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں ، ( فتاویٰ معاصرہ ص : ٤٤١ج : ١)
یہ دو اہم مسائل کے جواب بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ورنہ دونوں جواب بہت ہی طویل ، جامع و مانع ، اور فتوای و ارشاد کی شہکار مثال ہے،
•مسائل کے حل کرنے میں شرعی نصوص و قواعد کی حدود میں رہتے ہوئے تشدد اور سختی کا راستہ چھوڑ کر تخفیف اور نرمی کا راستہ اختیار کیا گیا ، جس کی دو وجہیں ڈاکٹر صاحب نے خود اپنے مقدمہ میں لکھی ہیں ، "إن الشريعة مبنية على التيسير و رفع الحرج عن العبادة” "اسلامی شریعت کا مزاج ہی تخفیف و آسانی ہے”
دوسری وجہ یہ لکھی ہے امتِ مسئلہ جن مشکلات سے دو چار ہیں ایسے حالات میں علماء کرام کو چاہیے کہ عوام کے سامنے دین کی باتوں کو حتی الامکان آسان بناکر پیش کریں ، اور آگے امام سفیان ثوری کا مشہور مقولہ نقل کرتے ہیں،
"إنما العلم الرخصة من الثقة اما التشديد فيحسنه كل أحد” ( فتاویٰ معاصرہ: ص: ١٢)
اس موقف کی وضاحت مزید اس مثال سے بھی ہوتی ہے کہ شرابی کی طلاق ( طلاق سکران) کے سلسلے میں جدید و قدیم فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، ڈاکٹر صاحب نے اس سے متعلق سوال کے جواب میں پوری تفصیل اور دلائل کے ساتھ دونوں گروہ کی آراء کو نقل کرتے ہیں اور آخیر میں انہوں نے جس رائے کو اختیار کیا ہے وہ واقعتاً موجودہ وقت اور حالات کے حساب سے موزوں اور خواتین کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کرتی ہے ،
” بعد هذا كله نطمئن الأخت المسلمة السائلة إلي أن ما صدر عن زوجها من طلاق في حال سكره و نشوته غير معتبر في نظر الشرع” ( فتاوى معاصرة: ١/٥٢٩)
” ان سب دلائل کی روشنی میں یہی بات صحیح تر معلوم ہوتی ہے کہ نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اس لیے میں اپنی دینی بہن سے کہنا چاہونگا کہ مطمئن رہے”
اس ایک مثال سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جن قدیم مسائل میں فقہاء کرام کے اقوال و آراء موجود ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور حالات کے مطابق جو رائ مناسب ہوتی ہے ، اور ان کو جس رائ سے اتفاق ہوتا ہے ، اخیر میں دو ٹوک انداز میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں، اس کے علاؤہ اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ،
• یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کسی معمولی سے معمولی اور سادہ سے سادہ مسئلے کا جواب بھی سرسری انداز و اسلوب میں نہیں دیا ہے ، بلکہ شیخ کا قلم ان مسائل میں بھی اکثر اوقات دسیوں صفحات تک پھیلتا چلا گیا ہے، بعض وہ مسائل جس کا جواب دو لائن میں دیا جا سکتا ہے ، اور عام طور پر بہت سے فقہاء دیتے بھی ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کا قلم ان مسائل میں بھی اکثر اوقات دسیوں صفحات تک پھیلتا جاتا ہے ، اس کا مقصد ظاہر ہے یہ کہ متعلقہ مسئلے کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے، اور یہ الزام دینا آسان نہ ہو کہ شیخ نے تن آسانی سے کام لیا ہے،
جیسا کہ سنتوں کو چھوڑنے کے متعلق جو جواب ڈاکٹر صاحب نے قلم بند کیا ہے وہ پانچ سے چھ لائن میں بھی دیا جاسکتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے پوری تفصیل کے ساتھ تقریباً دو صفحہ میں جواب دینے کی کوشش کی ہے ، اور مزید سنت کے فوائد بھی بتائیں تاکہ لوگ سنت نا چھوڑیں، لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
"یہ سنتیں اللہ تعالیٰ سے قربت کا ذریعہ ہیں ، اور ہمارے نامہ اعمال میں نیکیوں میں اضافہ کا سبب ہیں ، ہر شخص کوشش کرتا ہے کہ اس کا بینک اکاونٹ زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو ، جب دنیوی مال و اسباب کے سلسلے میں حرص کا یہ عالم ہے تو آخرت کے اکاؤنٹ کو بڑھانے اور مظبوط کرنے کی طرف اسے بدرجہ اولیٰ دھیان دینا چاہیے” (فتاوى معاصرة : ٢٠٥ ج ١)
•اسی طرح ایک اہم بات یہ بھی نظر آئی کہ صاحب کتاب نے ایسے مسائل سے گریز کیا ہے، جو نفع بخش نہیں ہیں ، اور اس بات کا اندازہ فتوای کو دیکھنے سے بھی ہوتا ہے، اور صاحب کتاب نے بذات خود مقدمہ میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے ” میں نے جن اصولوں کا لحاظ کیا ہے ان میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ ایسے مسائل جو نہ میرے لیے نفع بخش ہوں نہ دوسروں کے لیے مثلآ ایسے سوالات جن کے مقصد لڑائی جھگڑے کی فضاء قائم کرتی ہو یا دین اسلام میں شک و شبہ پیدا کرتا ہو تو اس قسم کے سوالات کے جواب سے گریز کرتا ہوں کیونکہ میری نظر میں یہ غیر نفع بخش ہے ، جیسا کہ اللہ کے نزدیک ابو بکر افضل ہیں یا علی ؟؛یا ان دونوں میں سے خلافت کا حق دار کون تھا ؟ عائشہ افضل ہیں یا فاطمہ وغیرہ وغیرہ ، ( فتاویٰ معاصرہ: ١٨ ج ١ )
ڈاکٹر صاحب کے یہ فتاوے گرچہ عربی زبان میں ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کا اسلوب کافی آسان، عام اور سہل ہے ، چنانچہ کم پڑھے لکھے عربی داں آدمی بھی اس کو ایک بار پڑھ لیں تو فوراً سمجھ جائیں ، یہ بات آپ کے ہر فتویٰ میں نمایاں ہے ، چناچہ بارش کی حقیقت سے متعلق جو جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن کے نظریات کے درمیان تناقض نظر آتا ہے اس سلسلے میں آپ رقم طراز ہیں
۔۔۔۔۔۔ ” يا أخي السائل… ليس هناك تناقض فالقرآن يقول ( أنزل من السماء ماء) لأن المطر ينزل من جهة السماء فكلمة السماء في اللغة العربية تعني كل ما علاك أي كل ما كان فوقك فهو سماء و هذا صحيح فإن المطر ينزل من السحاب…………………….” (فتاوى معاصرة: ص ٣٦ ج ١)
"میرے محترم بھائی! ان دونوں میں کوئی تناقض نہیں ہے ، قرآن یہ کہتا ہے "أنزل من السماء ماء” خدا نے آسمان سے پانی برسایا ، عربی زبان میں السماء کا مفہوم صرف آسمان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا مفہوم بلندی بھی ہوتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے بلندی کی طرف سے پانی برسایا ، اور حقیقت بھی یہی ہے ، کہ بارش اوپر ہی کی طرف سے نیچے کو آتی ہے ، یہ بارش اس بھاپ کا نتیجہ ہوتی ہے جو سمندروں اور دریاؤں سے اٹھتی ہے ، ہم جس زمین پر رہتے ہیں اس کا دو تہائی حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے ، جب اس پانی پر سورج کی شدید اور طاقت ور کرنیں پڑتی ہیں ، تو پانی کھول اٹھتا ہے ، اور پانی کا ایک حصہ بھاپ بن کر اوپر کی جانب اٹھتا ہے ، اوپر جاکر یہ بھاپ یا تو پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکراتی ہے یا پھر یخ بستہ فضاؤں سے ، ان دونوں صورتوں میں یہ بھاپ بارش کی شکل میں زمین کی طرف اگرتی ہے”
•تحریروں میں اجمال اور اختصار کی جگہ تفصیل اور اطناب ہے ، وہ جس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہیں یا جواب دیتے ہیں بڑی تفصیل سے کرتے ہیں ، بعض موضوعات پر صرف جواب ہی نہیں دیا ہے بلکہ مکمل تفصیلی مقالہ موجود ہے ، جیسے عورت ، خاندان ، اجتماعی غیر مسلموں سے تعلقات ، اور معاشی مسائل وغیرہ اور ان تفصیلی مقالات میں محاکمے اور تحلیل و تجزیہ کرکے بعض مسائل میں بعض قدیم علماء اور فقہاء کے خیالات سے اتفاق بھی کیا ہے، اور اختلاف بھی اور اپنا موقف بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، لیکن اکثر قدیم مسائل میں جہاں قدیم فقہاء کے موقف کو بیان کیا گیا ہے وہاں حوالہ کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ہے ، فقہاء کے متون سے اگر مربوط کردیا جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا ؟؟
▪️خلاصہ کلام
الغرض ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب ” فتاویٰ معاصرہ” فی زماننا بہت ہی مفید ، بالخصوص نئی نسل کے ذہنوں کو مخاطب کرنے والی ایک بہت ہی منفرد ، اطمنان بخش ، اور واضح رہنمائی فراہم کرتی ہے ، اس سے عام و خاص ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے اور غلطی کی اصلاح کر سکتا ہے ، خصوصاً خواص کے لیے فتاویٰ نویسی کا ایک نیا اسلوب موجود ہے جو شاید دوسرے فتاویٰ میں ملنا مشکل ہے ، اور یہ اسلوب موجودہ زمانے کے حساب سے کافی مناسب اور موزوں بھی ہے ،