
فضل الخلفاء الراشدین(عربی)
مصنف:شیخ الاسلام ابن تیمیہ
50 : صفحات
50 تعارف:معاویہ محب اللہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے پوری زندگی لسان و قلم دونوں اعتبار سے مناظرہ کا فریضہ انجام دیا ہے، روافض و نواصب دونوں کے خلاف بھرپور قلمی مظاہرہ کیا ہے، منھاج السنة النبوية اس کا منھ بولتا ثبوت ہے، نیز فتاویٰ شیخ الاسلام میں اسی سے ملتے جلتے سوال و جواب کی روشنی میں مضامین موجود ہیں، موجودہ رسالہ ” فضل الخلفاء الراشدين “بھی سوال و جواب پر مشتمل ہے۔شیخ سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ ایک شخص تدیّن اور نیکی میں تو متبعِ سنت ہے، لیکن بسا اوقات تفضیل صحابہ کے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہو جاتا ہے، بعض روایات کی بنیاد پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی سیدنا ابوبکر صدیق پر فضیلت کا غالب گمان ہوتا ہے، ایسا کیوں؟ اس پر شیخ نے جواب دینے سے قبل ایک فطری اصول بیان کیا ہے کہ دو افراد اسبابِ فضل میں اگر یکساں ہو تو دونوں فضیلت میں برابر ہیں، لیکن اسبابِ فضل میں دونوں میں کوئی ایک کسی منفرد خصوصیت کا حامل ہے جو دیگر میں نہیں ہے تو وہ افضل ہوگا، اور دوسرا اس سے مفضول۔
اسی اصول کی روشنی میں سیدنا ابو بکر صدیق ک متعلق فضائل و مناقب پر مشتمل ایک ایک روایت کا جائزہ لیا ہے کہ وہ محض سیدنا ابو بکر کی منفرد خصوصیت ہے، پھر اس کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ کے متعلق مروی فضائل و مناقب کا جائزہ لیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ جن الفاظ میں سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل مروی ہیں، وہ دیگر صحابہ یا ابوبکر صدیق کے حق میں بھی ہیں، لہذا سیدنا علی المرتضیٰ اس فضیلت و منقبت میں منفرد نہیں رہے، اسی روشنی میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے افضل ہوں گے۔
بہر حال کتاب نہایت عمدہ اور مفید ہے، استدلال میں قوت ہے، اسلوب میں متانت ہے اور صحابہ کی عظمت سے لبریز تحریر ہے، ہر استدلال پر سر دھنتے رہ جاتے ہیں، جہاں روافض کا رد کیا ہے ساتھ ساتھ نواصب کی بھی اچھی خاصی دھلائی کی ہے، البتہ ترتیب کچھ الٹ گئی ہے، پہلے جن روایات سے سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل ثابت ہوتے ہیں ان پر بحث کی ہے اور اس کے بعد آیات، ترتیب میں آیات مقدم اور روایات مؤخر تو خوبصورت ہوتا۔
معاویہ محب اللہ