🔰حلال ذبیحہ كا مسئلہ
🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
عام تصور یه هے كه اگر چور كو چوكیدار بنا دیا جائے تو وه بھی چوری كرنے سے بچنے کی كوشش كرتا هے؛ مگر بدقسمتی كی بات هے كه وطن عزیز میں جو پارٹی بر سر اقتدار هے، اس كی بنیادی سوچ هی نفرت اور فرقه پرستی هے، اس نے دستور كا حلف اٹھایا هے، دستور نے مساوات، برابری اور تمام طبقه كے لوگوں كے لئے یكساں مذهبی آزادی كی بات كی هے، یه بات ان كے حلق سے اتر نهیں رهی هے، اگر یه صاحبِ عقل ودانش هوتے تو كم از كم ذمه دارانه عهده پر آنے كے بعد نفرت كے بول نهیں بولتے اور اپنی قَسَم كا ظاهری طور پر تو بھرم ركھتے؛
لیكن افسوس كه بی جے پی كے ذمه دار حكمران اور مختلف وزراء اعلیٰ نفرت كے بول بولنے میں ایك دوسرے پر سبقت لے جانے كی كوشش كر رهے هیں، خاص كر اس وقت اتر پردیش اور آسام كے وزیر اعلیٰ كی زبان تو ایسا لگتا هے كه زهر سے بھری هوئی شیشی هے، پارٹی میں اپنا نمبر بڑھانے كے لئے وه كوئی تعمیری كام تو نهیں كرتے هیں؛ مگر نفرت انگیز بول ایك سے بڑھ كر ایك بولتے هیں، اور دن ورات اقلیتوں كے خلاف بغض وعناد كا اظهار كرتے رهتے هیں، اسی كا ایك مظهر یه هے كه ابھی انھوں نے حلال ذبیحه پر نهایت هی ناشائسته بات كی هے، ان كا دعویٰ هے كه حلال سرٹیفیكشن كے ذریعه پچیس هزار كروڑ روپیه كمائے جاتے هیں اور دوسرا دعویٰ یه هے كه یه پیسے دهشت گردی، لَو جهاد اور مذهب كی تبدیلی میں استعمال هوتا هے، یه ایك جھوٹ كی بنیاد پر دوسرے جھوٹ كی تعمیر هے، انھوں نے جس بڑی رقم كے حاصل هونے كا دعویٰ كیا هے، اس كا كوئی ثبوت پیش نهیں كیا هے، مسلمانوں پر دهشت گردی كا الزام سراسر غلط هے، ملك میں اصل دهشت گرد تو سنگھ پریوار كے لوگ هیں، جنھوں نے بابائے قوم مهاتما گاندھی جی كا بے دردانه قتل كیا تھا، انھوں نے ملك بھر میں كتنے هی فسادات كروائے، سینكڑوں لوگوں كے خون سے ان كے هاتھ رنگے هوئے هیں، لَو جهاد ایك افسانه هے، جو آج تك ثابت نهیں كیا جا سكا، یه صرف پروپیگنڈه كا هتھیار هے، باقی كچھ نهیں هے، اور واضح طور پر یه مسلمانوں كی مذهبی آزادی پر حمله هے، مسلمانوں نے كبھی یه مطالبه نهیں كیا كه برادران وطن اس طریقه پر جانور ذبح كریں، جیسا كه هم كرتے هیں؛ بلكه هر قوم كو اپنے عقیده اور اپنے طریقه كے مطابق جانور كے ذبح كرنے كی اجازت هے،پھر بھی اس پر اعتراض كے كوئی معنیٰ نهیں هیں۔غور كیا جائے تو غذا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے ؛
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں غذا کے وافر وسائل پیدا فرمائے ہیں ،غذا کا سب سے بڑا وسیلہ نباتات ہیں ، چاول ، گیہوں ، دال ، تیل اور ترکاریاں ، یہ سب یا تو نباتات ہیں، یا نباتات سے حاصل ہونے والی اشیاء ہیں ، بڑی حد تک انسانی غذا کا انحصار نباتات کی پیداوار ہی پر ہے ، اللہ تعالیٰ نے نباتات میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ ان کی افزائش میں کم محنت اور مدت درکار ہوتی ہے اور پیداوار کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان غذاؤں میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ جسم کو جو وٹامن اور اجزاء مطلوب ہوتے ہیں ، وہ بڑی حد تک ان کے ذریعہ مہیا ہوجاتے ہیں ؛ اسی لئے بہت سے لوگ نباتاتی اشیاء کے ذریعہ ہی اپنی غذا کی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔نباتات کے بعد انسانی خوراک کا دوسرا بڑا وسیلہ حیوانات ہیں ، گذشتہ زمانہ میں جب حمل و نقل کے ذرائع محدود بھی تھے اور سست رفتار بھی ، توصحرائی علاقوں میں زیادہ تر حیوانی غذاؤں پر لوگوں کا دار و مدار ہوتا تھا ، اسی طرح جنگلات میں ’ جہاں باضابطہ کھیتی نہیں ہوتی‘ تھی ، شکار کے جانور اور پھلوں کے ذریعہ آدمی اپنی ضرورت پوری کرتا تھا ؛ لیکن لحمی غذاؤں کی اہمیت ہر علاقہ میں بسنے والے لوگوں کے لئے رہی ہے ؛ کیوںکہ جسم کی بہت سی ضرورتیں لحمی غذاؤں کے ذریعہ ہی بہتر طورپر پوری ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان میں جو لذت رکھی ہے ، نباتات کے ذریعہ وہ حاصل نہیں ہوپاتی ہیں ؛ اسی لئے دنیا میں ہمیشہ لحمی غذاؤں سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے اور دنیا کے بیشتر مذاہب نے اس کی اجازت دی ہے ، مسلمان ، یہودی ، عیسائی اور بدھسٹ تو اس کو درست سمجھتے ہی ہیں ؛ لیکن ہندو مذہبی کتابوں میں بھی جانوروں کی قربانی اورجانوروں کے گوشت کو بطور غذا استعمال کرنے کا ذکر موجود ہے ۔غور کیا جائے تو قدرت کا اشارہ بھی یہی ہے ، جو جانور چارہ کھاتے ہیں ، ان کے اندر گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، وہ قدرتی طورپر چارہ خور ہوتے ہیں ، جو جانور قدرتی طورپر گوشت خور ہوتے ہیں ، وہ گوشت ہی کو ہضم کرتے ہیں ، طبعی طورپر وہ چارہ نہیں کھاتے ، اسی لئے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ بھینسیں گوشت کھانے لگی ہوں اور شیروں نے گھاس پھوس کھانا شروع کردیا ہو ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے معدہ میں دونوں طرح کی غذاؤں کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ، اسی طرح جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے نوكیلے دانت دیئے ہیں ، جو کھانے والی چیزوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے کام آتے ہیں ، اس طرح ان کو ہضم کرنا آسان ہوجاتا ہے ، چارہ خور جانوروں کو چپٹے دانت دیئے گئے ہیں ، جو نباتاتی چیزوں کو چبانے کے کام آتے ہیں ، انھیں نوک دار دانت نہیں دیئے گئے ، جن کو گوشت وغیرہ کو کاٹنے میں استعمال کیا جاتا ہے ، اس کے برخلاف گوشت خور جانوروں کو نوکدار دانت دیئے گئے ہیں ، جو لحمی غذاؤں کو ٹکڑے کرنے اور کاٹنے کے کام آتے ہیں ، جیسے : کتے اور شیر وغیرہ ، انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کے دانت دیئے ہیں ، یہ سب قدرت کے اشارے ہیں ؛ تاکہ انسان اپنی غذا کے دائرے کو سمجھ لے ۔جب ہم غذاؤں پر شرعی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو جمادات اور نباتات کا مسئلہ آسان اور واضح ہے ؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے کائنات کی تمام چیزوں کو انسان ہی کے لئے پیدا کیا ہے : ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الاَرْضِ جَمِیْعاً (البقرۃ : ۲۹) فقہاء نے اسی حکم ربانی کی روشنی میں یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ چیزوں میں اصل مباح ہونا ہے ، جب تک کہ اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو : الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (البحر المحیط فی أصول الفقہ : ۱؍۲۱۲) لیکن حیوانات کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، حیوانات اصل میں حرام ہیں ، جب تک کہ اس کے حلال ہونے کی شرعی دلیل فراہم نہ ہو ؛ اس لئے لحمی غذاؤں کے حلال ہونے کے لئے تین باتوں کا لحاظ ضروری ہے ، اول یہ کہ جس جانور کا گوشت ہے ، وہ خود حلال ہو ، ایسے جانوروں کی تعداد محدود ہے ، قرآن و حدیث میں اس سلسلہ میں اُصول بھی ذکر کردیئے گئے ہیں اور ان کی جزوی تفصیلات بھی مذکور ہیں ؛ چنانچہ تمام درندہ جانور حرام ہیں ، نیز رینگنے والے جاندار کیڑے مکوڑے وغیرہ بھی حرام کئے گئے ہیں ، اونٹ ، بیل ، بھینس ، بکرے ، ہرن ، مرغ میں نر و مادہ نیز پالتو و جنگلی جانور حلال کئے گئے ہیں ،
دوسری قابل لحاظ چیز یہ ہے کہ حلال جانور کے بھی بعض اجزاء حرام ہیں ، جس کا ذکر خود حدیث میں ہے اور وہ یہ ہیں : ’’ نر و مادہ کے اعضاء تناسل ، فوطے ، بہتا ہوا خون ، مثانہ ، پتھہ ، جس گوشت میں گرہ پڑ گئی ہو ‘‘ (کتاب الآثار : ۱۱۶) بعض فقہاء نے اِن پر اُس کا بھی اضافہ کیا ہے ، جس کو قصاب حضرات ’’ مغز حرام ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، یہ کل آٹھ ہیں ، تیسری ضروری بات یہ ہے کہ وہ حلال جانور شرعی اُصولوں کے مطابق ذبح کیا گیا ہو ۔شرعی طریقہ پر ذبح کرنے کے سلسلہ میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ، اول یہ کہ جانور کی گردن سے چار نالیاں گزرتی ہیں : ایک غذا کی ، ایک سانس کی اور دو خون کی ، جن کو شہ ِرگ کہا جاتا ہے ، ذبح کے صحیح ہونے کے لئے ان میں سے تین کا اچھی طرح کٹ جانا ضروری ہے ، (الفتاویٰ الہندیہ : ۵؍۲۸۷) اس کا ایک فائدہ تو جانور کی تکلیف کو کم کرنا ہے ؛ کیوںکہ اگر دماغ کی طرف جانے والی خون کی سپلائی لائن کٹ جائے تو چند سکنڈ میں قوت احساس ختم ہوجاتی ہے ، دماغ کی موت ہوجاتی ہے اور تکلیف کا احساس باقی نہیں رہتا ، اس طرح جانور کو تکلیف کا احساس کم ہوتا ہے ، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ رگوں میں گردش کرتا ہوا خون اچھی طرح نکل جاتا ہے ، اس خون کے نکل جانے سے گوشت میں مضرِ صحت اثر باقی نہیں رہتا ، اگر خون اچھی طرح نہ بہہ پائے اور وہ جسم کے اندر ہی جذب ہوجائے تو خون میں صحت کو نقصان پہنچانے والے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور گوشت انسان کے لئے نقصاندہ ہوجاتا ہے ، غالباً مردار کے گوشت کو حرام قرار دینے کی حکمت یہی ہے ۔ذبح کے عمل کے درست ہونے کے لئے دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام لیا جائے ، اللہ تعالیٰ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ وہی جانور حلال ہے ، جو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو اور ایسے جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا گیا ہے ، جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہو : وَلاَ تَأْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہِ(الانعام : ۱۲۱) احادیث میں اس کی اور بھی وضاحت آئی ہے ، یوں تو اصل مقصود جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا ہے ، خواہ کسی بھی طریقہ پر نام لیا جائے ؛
لیکن افضل طریقہ یہ ہے کہ ’’ بسم اللہ اللہ اکبر ‘‘ کہا جائے ، ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کے نام لینے کا یہ حکم ایمان وعقیدہ کے پہلو سے ہے ۔کیوںکہ دنیا کی مختلف مشرک قومیں ذبح اور قربانی کو مشرکانہ نقطۂ نظر سے انجام دیتی آئی ہے ، لوگ دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کو چھوڑتے تھے ، تہواروں میں ان کے نام سے قربانی کیا کرتے تھے ، استھانوں اور بتوں کی عبادت گاہوں پر جانوروں کے نذرانے پیش کیا کرتے تھے اور کھانے کے لئے بھی غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے ، گویا ذبح و قربانی کو وہ اپنے مشرکانہ عقائد کے اظہار کا ذریعہ بناتے تھے ، اس کی واضح مثال خود ہندوستان ہے ، عام طورپر برادران وطن گوشت خوری کو ناپسند کرتے ہیں اور زیادہ تر سبزی خور ہیں ، ان کو نہ صرف گائے کی قربانی پر اعتراض ہے ؛ بلکہ بڑا جانور بھی ناگوار خاطر ہے ؛ لیکن اس کے باوجود تہواروں میں ان کے یہاں بھی جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ذہن میں عقیدۂ توحید کو راسخ کرنے اور مشرکانہ افکار سے انھیں بچانے کے لئے یہ تدبیر فرمائی کہ جن کاموں کو وہ شرک اور غیر اللہ کی تقدیس کے طورپر کرتے تھے ، ان ہی کو توحید کے سانچے میں ڈھال دیا گیا ، قربانی دینا چوںکہ ایک فطری جذبہ ہے اور گوشت انسان کی ایک فطری غذا ہے ؛ اس لئے آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے قربانی کے طریقہ کو باقی رکھا ، شرعی ذبیحہ کو حلال قرار دیا گیا ؛ لیکن ان کو شرک کی بجائے عقیدۂ توحید کا مظہر بنادیا کہ قربانی کی جائے ، مگر اللہ ہی کے نام پر ، جانور ذبح کیا جائے ؛ لیکن اللہ ہی کے نام سے ، غیر اللہ کے نام پر نہ قربانی جائز ہے اور نہ جانوروں کو چھوڑنا اور ذبح کرنا ، علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی اورکے نام پر جانور ذبح کرے تو اس کا کھانا حرام ہے ؛ کیوںکہ خود قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے ، (المائدۃ : ۳) اس پر بھی قریب قریب اتفاق ہے کہ اگر ذبح کرتے وقت قصداً اللہ کا نام چھوڑ دے تو اس صورت میں بھی ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ۔ (الہدایہ : ۴؍۳۴۷)یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو ، (المائدۃ : ۴) غیر مسلم کا ذبیحہ حلال نہیں ؛ البتہ ایسے یہودی اور عیسائی جو اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل ہوں ، نبوت اور وحی پر ایمان رکھتے ہوں ، آخرت پر ان کا ایمان ہو ، وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان رکھتے ہوں ؛ البتہ رسول اللہ ﷺپر ان کا ایمان نہ ہو ، تو اگرچہ یہ مسلمان نہیں ہیں ؛ لیکن کفر میں ان کا درجہ دوسرے غیر مسلموں کے مقابلہ کمتر ہے ؛ اس لئے عام غیر مسلموں کے مقابلہ ان کے حکم میں نرمی برتی گئی ہے ، ان کی عورتوں سے نکاح جائز قرار دیا گیا ہے اور ان کا ذبیحہ حلال ہے ، (المائدۃ : ۵)
لیکن اس سے صرف نام کے یہودی یا عیسائی مراد نہیں ہیں ، جو ملحد ہوں ، یا جو رسالت و آخرت کا انکار کرتے ہوں؛ مگر اپنے آپ کو برائے نام یہودی یاعیسائی کہتے ہوں ، ایسے نام نہاد یہودی وعیسائی کا نہ ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے ؛ آج کل عام طورپر جو لوگ اپنے آپ کو یہودی یا عیسائی کہتے ہیں ، ان کی صورت ِحال یہی ہے کہ وہ زیادہ تر دہریہ ہیں ، خدا ، نبوت اور آخرت وغیرہ کے قائل نہیں ہیں — ہندوستان میں زیادہ تر جو غیر مسلم بھائی آباد ہیں ، یعنی ہندو ، سکھ ، بودھ وغیرہ ، ان کا ذبیحہ مطلقاً حرام ہے ؛ کیوںکہ وہ بہر حال اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں ، اسی طرح اگر کوئی شخص حقیقت میں یہودی یا عیسائی ہو ، تب بھی جب تک وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لے اور بسم اللہ نہ کہے ، اس وقت تک ذبیحہ حلال نہیں ہوگا : لاتحل ذبیحۃ من تعمد ترک التسمیۃ مسلماً کان أو کتابیاً (ردالمحتار : ۵؍۱۹۰)
ان حالات میں مسلمانوں كو چاهئے كه ایك تو ایسے غیر قانونی حكم كے خلاف بڑے پیمانه پر عدالت سے رجوع كریں، اور اچھے وكلاء كے ذریعه مقدمه كی پیروی كریں، جانوروں كے غذائی استعمال كے لئے طبی نقطهٔ نظر سے حكومت كی طرف سے جو اُصول وضوابط مقرر هیں، اُن كا لحاظ ركھیں، برادران وطن كو شرعی طریقه كی اهمیت سمجھائیں ؛ تاكه لوگوں كی غلط فهمیاں دور هوں اور حكومت كچھ بھی كهے ، شریعت كے حكم پر اپنے آپ كو ثابت قدم رهیں۔= = =