سید جمشید احمد ندوی
استاذ جامعہ امام شاہ ولی اللہ اسلامیہ ،پھلت
یہ دنیا عجائبات کا گہوارہ ہے، مگر ان سب عجائبات میں اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ گہرائی، سب سے زیادہ اہمیت، اور سب سے زیادہ اثر انگیزی ہے تو وہ "تربیت” ہے، تربیت محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی، فکری اور اخلاقی انقلاب کا نام ہے، جو کسی انسان کی شخصیت کو نکھارتا، سنوارتا، اور قوموں کے مزاج کو تشکیل دیتا ہے۔
تربیت اور تعلیم میں فرق اتنا ہی ہے جتنا جسم اور روح میں، تعلیم دماغ کو روشنی دیتی ہے، تربیت دل کو جِلا بخشتی ہے، تعلیم سے انسان عالم بنتا ہے، تربیت سے انسانیت کی بلندیوں پر متمکن ہوتا ہے، یہی وہ نور ہے جو نسلوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جاتا ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ دو افراد ایک جیسے ماحول میں پلے بڑھے، ایک جیسے مواقع حاصل کیے، مگر ان کی شخصیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک دوسروں کے لیے سایہ دار شجر ہے، اور دوسرا کانٹوں سے بھرپور ایک خشک جھاڑی ہے! وجہ صرف ایک ہے، ایک کی تربیت ہوئی، دوسرے کو محض پالا گیا،پالنا محض جسمانی بقا کی ضمانت ہے، جب کہ تربیت روحانی بقا کی نوید ہے، پالنے سے فقط وجود محفوظ ہوتا ہے، تربیت سے وجود کو معنی و مقصد ملتا ہے،ہر باپ اپنی اولاد کو پال سکتا ہے، مگر ہر باپ اپنی اولاد کو سنوار نہیں سکتا؛ اس کے لیے فکر،توجہ، وقت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تربیت کتابوں سے نہیں، کردار سے منتقل ہوتی ہے، استاد کے نصاب سے نہیں، اس کی سیرت سے پھوٹتی ہے، والدین کی نصیحتوں سے نہیں، ان کے عمل سے جنم لیتی ہے، بچہ جو دیکھتا ہے، وہی سیکھتا ہے،وہ سیکھنے سے پہلے محسوس کرتا ہے، اور محسوسات کی گہرائی میں جا کر ایک مزاج پیدا کرتا ہے۔
آپ کا لہجہ، آپ کی زبان، آپ کی سچائی، آپ کی ایمانداری، آپ کا طرزِ عمل… یہی سب مل کر آپ کی تربیت کے آئینے ہوتے ہیں، ان میں عکس دھندلا ہو تو نسلیں اندھیروں میں بھٹک جاتی ہیں، ان میں وضاحت ہو تو نسلیں روشنی کی طرف بڑھتی ہیں۔
جو بات والدین کی گود سے شروع ہوتی ہے، وہ قوموں کے مزاج تک پہنچتی ہے،حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو باتیں سکھائیں، وہ قرآن کی دائمی تعلیمات بن گئیں،یہ تربیت ہی ہے جس نے اُمت کے معمار پیدا کیے، مفکر، مجاہد اور مصلح پیدا کیے۔
تربیت وہ بیج ہے جو آج بویا جائے توکل شجر سایہ دار بن کر کئی نسلوں کوفائدہ پہنچاتا ہے، یہ صرف ایک فرد کی بہتری نہیں، بلکہ ایک معاشرہ کے اخلاق، عدل، اور فلاح کی بنیاد ہے،یہ صرف نماز روزے کی تلقین نہیں، بلکہ اندر کی روشنی ہے جو انسان کو تنہائی میں بھی خدا کے روبرو محسوس کراتی ہے۔
تربیت کی زبان نہ گرجدار ہوتی ہے، نہ جارح، یہ خاموشی سے دل میں اترتی ہے، ایک ماں کی دعا، ایک باپ کا طرزِ گفتگو، ایک استاد کی آنکھوں کی ملامت، یہ سب وہ آئینے ہیں جن میں بچوں کی شخصیات تشکیل پاتی ہیں۔
تربیت وہ مسکراہٹ ہے جو تلخی میں بھی امید جگادیتی ہے،وہ حکمت ہے جو سختی میں بھی محبت بھردیتی، وہ شعلہ ہے جو سرد مزاج کو بھی حرارت دیتی ہے، تربیت نہ صرف کچھ سکھاتی ہے، بلکہ یہ سیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کرتی ہے۔
آج اگر ہم معاشرہ میں جھوٹ، خیانت، بے حیائی، حرص، لالچ، اور بدتمیزی کی بھرمار دیکھتے ہیں تو اس کی جڑیں تعلیمی اداروں ہی میں نہیں بلکہ گھروں کی تربیتی خلا میں پوشیدہ ہیں،جب بچے صرف کامیابی ہونا سیکھتے ہیں، اخلاق نہیں، تو وہ کامیاب مگر بدعنوان بنتے ہیں،جب ذہن تو تیز ہو جائے مگر دل بے نور، تو قومیں ترقی یافتہ تو ہو جاتی ہیں مگر بے ضمیر ہوتی ہیں۔
آئیے ہم اپنے گھروں کو تربیت گاہ بنائیں، اپنے دلوں کو آئینہ بنائیں، اور اپنی زندگی کو چراغ بنائیں، ہمارے الفاظ میں اثر تب آئے گا جب ہماری زندگی گواہی دے گی کہ ہم نے جو کہا، وہی کیا،تبھی ہماری تربیت اگلی نسلوں کے لیے وراثت بنے گی۔
تربیت محض فرض نہیں، یہ ایک امانت ہے، تربیت محض فن نہیں، یہ ایک عبادت ہے، اور تربیت محض فن کاری نہیں، یہ کردار سازی کا وہ ہنر ہے جو انبیاء کی وراثت ہے۔