*ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں*
*تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے*
اس دنیائے فانی کی کسی چیز کو دوام و قرار نہیں، ہر چیز فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے، جب سے یہ دنیا بنی ہے نہ جانے کتنے آئے اور گئے، کتنی چیزیں وجود میں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فنا ہو گئیں، آمد و رفت کا یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے قائم ہے اور تاقیامت قائم رہیگا،
اس جہان فانی کی خوشی کیا اور غم کیا، جس طرح فرحت و انبساط کے لمحے محدود ہوتے ہیں اسی طرح غم و اندوہ کی گھڑیاں بھی گذر ہی جاتی ہیں، جب اس دنیا کی ہر چیز وقتی اور فانی ٹھہری تو اسے دل سے کیا لگانا،
ذرا سوچئے نا، جب سے ہم نے شعور سنبھالا ہے ہمیں بیشمار لوگوں سے ملنے اور ان سے مستفید ہونے کے گران قدر مواقع ملے ہیں، ہم نے کتنوں سے دل لگایا، محبت و عقیدت کے پھول کھلائے، اور انہیں سینچ سینچ کر پروان چڑھاتے رہے، لیکن انجام کیا ہوا؟ یہی نا کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ ہم سے جدا ہو گئے، اور جو بچے ہیں وہ بھی داغ مفارقت دینے کو تیار بیٹھے ہیں،
*کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں*
**بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں*
کل شام چھے بجے جب تلاوت قرآن پاک سے فارغ ہوکر موبائل کھولا تو واٹسپ یونیورسٹی پر یہ خبر گردش کرتی نظر آئیں، کہ نائب ناظم حضرت مولانا حمزہ حسنی صاحب اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کرگئے،
إنا لله وإنا إليه راجعون
مولانا خانوادہ حسنی کے عظیم فرد تھے، مشہور و معروف قلم کار حضرت مولانا محمد ثانی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند و ارجمند تھے ،
"ولادت”
حضرت مولانا کا اسی خانوادہ علم و عمل میں 1950ء مطابق١٣٧٠ ھ میں ولادت ہوئی،
"ابتدائی تعلیم”
حضرت مولانا نے ابتدائی تعلیم معہد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی جب کے عالمیت و فضیلت کی سند دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے حاصل کی،
آپ کے مشہور و معروف اساتذہ میں مولانا عبد الستار اعظمی قدس سرہ، مولانا سید رابع حسنی ندوی زید مجدہم ،ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی مدظلہ سمیت کئی باکمال شخصیات شامل ہیں ،
اسی طرح دارالعلوم ندوہ العلماء میں قیام کے دوران آپ کو مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کی خصوصی شفقت و توجہ حاصل رہی ،
"تصوف و سلوک”
آپ کی طبیعت بنیادی طور پر تصوف و سلوک کی طرف مائل تھی، اس سلسلہ میں وہ مشہور محدث و بافیض بزرگ مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے میکدہ روحانی کے بادہ خوار تھے ،
اسی طرح ان کو اپنے دور کے دیگر بزرگوں سے بھی بڑی محبت و عقیدت تھی، مولانا احمد پرتابگڑھی قدس سر ، مولانا قاری صدیق باندوی قدس سرہ، اور محی السنہ مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی ، سمیت متعدد بزرگوں سے بھی ربط تھا،
اسی طرح مولانا نے خود کو اپنے سسر اور خاندان کے بڑے و سرپرست اور ناظم دارالعلوم ندوہ العلماء مولانا سید رابع حسنی ندوی زید مجدہم کے تابع رکھا اور ان کی رہبری و رہنمائی میں دینی و انتظامی خدمات انجام دیں ، مولانا رابع حسنی نے بھی ان کو اپنی طرف سے مجاز بیعت بنایا تھا، حمزہ حسنی صاحب نے اس نعمت کو اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے اہل کو عطا کرکے سلسلہ کی اشاعت کا ذریعہ بنے ، یوں اس طرح مولانا نثار الحق ندوی قدس سرہ کو حمزہ حسنی قدس سرہ کی جانب سے خرقہ تصوف و اجازت بیعت حاصل ہوئی.
"خدمات”
مولانا کو جہاں رفاہی و اصلاحی سرگرمیوں میں دلچسپی تھی، وہیں دوسری طرف مرحوم نے اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد سے لے کر انتقال تک اردو رسالہ ماہنامہ "رضوان” کے مدیر اور "تعمیر حیات” کے نگران رہے، جس میں ان کی اصلاحی نگارشات تسلسل سے شائع ہوئیں، اور قارئین کو اور پورے امت مسلمہ کو ان کے مضامین سے بہت فائدے ہوا،
طویل عرصے تک دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مرکزی ذمہ داروں میں شامل رہے ، 2000 میں ناظر عام کے عہدہ پر فائز ہوئے ، پھر رئیس الفقہاء حضرت مولانا مفتی ظہور عالم ندوی سابق مفتی اعظم و نائب ناظم دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ کے وصال کے بعد نائب ناظم کے منصب پر فائز ہوئے،
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے، تمام خوبیوں کا تذکرہ تو اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں ہے، اس کیلئے تو طویل فرصت اور تفصیلی مضمون درکار ہے، مولانا کی ذات ستودہ صفات تو مجموعۂ کمالات تھی،
الله تعالیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بال بال مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ، اور ہم سب پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین یارب العالمین ،
زندگی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
Related Posts
تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
اسلام ایک معتدل اور متوازن شریعت کا نام ہے ، جو اپنے ماننے والوں کو ہر دور ، ہر خطے ، اور ہر حالت میں قابل عمل اور متوازن شریعت عطا کرتا ہے ، اسی اصول کے تحت اسلامی فقہ نے بھی مختلف مکاتب فکر اور اجتہادی آراء کو جنم دیا ہے ، جو در حقیقت دین کی وسعت ، لچک اور امت پر اللہ کی رحمت کا مظہر ہے ۔ حالات کی پیچیدگی اور نئے مسائل نے مزید یہ تقاضا پیدا کردیا ہے کہ بعض اوقات مختلف مذاہب کی آراء سے استفادہ کیا جائے تاکہ امت کو مشکلات سے نکالا جا سکے اور ان کے لیے آسانی اور سہولت فراہم کی جائے ، اسی مقصد کے پیشِ نظر بعض دفعہ مخصوص شرائط کے ساتھ مسلک غیر فتویٰ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ، مسلک غیر پر فتویٰ دینے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ‘تلفیق بین المذاھب” کی ان صورتوں سے اجتناب کیا جائے جو درست نہیں ہیں ، اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ ” تتبع رخص” سے کام نہ لیا گیا ہو ، زیر نظر مقالہ انہیں دونوں اصطلاح کی وضاحت پر مشتمل ہے ۔ *تلفیق کی لغوی اور اصطلاحی حقیقت کیا ہے ؟ اور اصولیین تلفیق کا استعمال کس معنی کے لئے کرتے ہیں ؟* تلفیق کی لغوی معنی: تلفیق یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، باب تفعیل کا مصدر ہے، جو باب ضرب "لفق” سے مشتق ہے، معنی ہے "ضم شقۃ إلی أخری”ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانا، کہا جاتا ہے: "لفق الثوب” جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا” القاموس الوحید: ( ص: 1486 ) (لغۃ الفقہاء ۱۴۴) تلفیق کی اصطلاحی معنی (فقہی اصطلاح میں) "تلفیق بین المذاھب ” یہ ایک فقہی اصطلاح ہے ، اور فقہی اصطلاح کی رو سے تلفیق بین المذاھب کا مطلب ہوتا ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے مختلف اقوال کی روشنی میں ایک ایسی نئی صورت کو اختیار کرنا جو کسی مذہب کے مطابق نہ ہو ، یعنی ایک…
Read moreبچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
"مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن کو ہم چھوٹا جان کر بسا اوقات ان سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع ابلاغ ان کو سنوارنے سے زیادہ بگاڑتے ہیں… اور پھر ہم حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ہوا کیا ہے؟ وہ اتنے بگڑ کیسے گئے؟ اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹ کیوں گئے؟”….. بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصولڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی اسلامی تعلیمات میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اتنی رہ نمائیاں ہیں کہ ان سے پورا فنِ تربیت ترتیب پاسکتا ہے، ہمارے دینی علمی ورثہ میں اس موضوع پر گفتگو ’والدین پر اولاد کے حقوق‘ کے عنوان کے تحت کی جاتی ہے، خود یہ عنوان اپنے اندر پورا پیغام رکھتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ تربیت بلا منصوبہ اور بے ترتیب انجام دیے جانے والے چند افعال سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت اولاد کے حقوق کی ادائیگی ہے، جن کا حق داروں تک مکمل طور پر پہنچنا لازمی ہے، ورنہ حقوق کی ادائیگی کا مکلف شخص گناہ گار ہوگا۔ والدین کی بڑی تعداد ان حقوق سے مکمل غافل ہے، بہت سے والدین کو تو ان حقوق کی بابت کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اکثر علما بھی ان حقوق کی بابت یاددہانی نہیں کراتے، وہ کچھ اور امور ومسائل کو زیادہ اہم جان کر ان کی ہی بارے میں گفتگو کرتے ہیں، حالاں کہ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی پر ہی قوم وملت کا مستقبل منحصر ہے، اس لیے کہ مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن سے ہم بسا اوقات چھوٹا جان کر صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع…
Read more