
آہ دنیا کس قدر فانی ہے،ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے،اپنے ساتھ غم واندوہ کی خبر لیکر آتا ہے،جب شام ڈھلتی ہے تو کتنے جنازے شہر خموشاں کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں،زندگی گویا کسی غریب کی قبا ہو ،جس میں ہر روز پیوند کاری کی جاتی ہے،ہر لمحہ موت کا رقص جاری ہے،ہر گھڑی کوچ کا نقارہ بجتا ہے،جن کا اجل آجاتا ہے،وہ آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں،جن کا وقت موعود ابھی مکمل نہیں ہوا،د نیا کی کوئی طاقت اسے زندگی سے محروم نہیں کر سکتی،جانے والے میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں،جن کی ناگہانی موت سے دل کانپ جاتا ہے،اور دنیا کی بے ثباتی کا منظر آنکھوں کے سامنے گردش کر نے لگتا ہے۔
مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رح کی ناگہانی موت نے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،موت کی ایسی کہانی کہ یقین کرنا مشکل ہے ،بدھ کی شام مولانا اپنے وطن رائے بریلی میں تھے،کسی کام سے شہر گئے تھے،واپسی میں سڑک کنارے کھڑے تھے کہ ایک تیز رفتار کار نے روند دیا اور مولانا جاں بحق ہوگئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کا انتقال ملت اسلامیہ بالخصوص ندوة العلماء کیلئے بڑا خسارہ ہے،وہ اپنے عظیم باپ کے سچے جانشیں تھے،عربی اور اردو کے بہترین ادیب اور قلم کار تھے،خانوادہ حسنی کے گوہر آبدار تھے، فکر اسلامی اور سیرت ان کا خصوصی موضوع تھا،عربی کے انشاء پرداز تھے،قلم وقرطاس کے شہ سوار تھے، ان کے قلم گہر بار سے کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،ندوی فکر اور ثقافت کا حسین امتزاج تھے،ادب اسلامی کے ترجمان تھے،علم وادب کے پاسبان تھے،عربی جریدہ (الرائد) کے رئیس التحریر تھے،جس میں آپ وقیع اداریے تحریر کرتے، تعلم وتربیت ان کا مقصد حیات تھا،چھوٹے چھوٹے جملوں میں گہری نصیحت فرماتے،قرآن کریم سے بہت لگاؤ تھا،ایک عرصہ تک انہوں نے درس قرآن دیا اور پیغام الہی سے لوگوں کو روبرو کرایا،جب بھی کسی مجلس میں گفتگو کرتے ،قرآن کی کسی آیت کو موضوع سخن بناتے اور اسی کے گرد اپنی بات مرکوز رکھتے،طلبہ کی ذہنی اور فکری تربیت کرتے،فکر اسلامی اور تاریخ اسلامی پر وقیع محاضرہ دیتے۔ مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی علم وعمل کے جامع تھے،سادگی میں اپنے عظیم باپ مولانا واضح رشید ندوی رح کا مکمل نمونہ تھے،تواضع اور کسر نفسی کی مثال تھے،اخلاق میں نرمی اور محبت تھی،جب بھی ملتے نہایت اپنائیت اور خلوص کے ساتھ ملتے،مہمانوں کا مسکرا کر استقبال کرتے،ان کی خاطر وتواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑتے،انسانیت نوازی اور غریب پروری میں پیش پیش رہتے،بڑوں کا حد درجہ احترام کرتے،چھوٹوں کے ساتھ نہایت شفقت ومحبت سے پیش آتے،شہرت پسندی سے بالکل دور تھے،خلوص وللہیت کے پیکر تھے،مادیت کی چمک دمک سے کنارہ کش تھے،جاہ ومنصب کی چاہت سے گریزاں تھے،اپنے عظیم خاندان کی روایت کے امین تھے۔
یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے 2017 میں مولانا کے ساتھ حج کی سعادت نصیب ہوئی،اس دوران ایک ساتھ قیام رہا،ہر قدم پر معیت حاصل رہی،اس سفر میں مولانا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،یقینا وہ ایک عظیم انسان تھے،ان کے حسن اخلاق ومعاملات کے نقوش آج بھی میرے ذہن ودماغ پر مرتسم ہیں،بلا شبہ یہ سفر میری زندگی کا سب سے مبارک سفر تھا،اور جو دن مولانا کے ساتھ گزرے ،وہ سب سے حسین اور یادگار دن تھے،رب کریم مولانا کو شہادت کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ نصیب کرے۔