

۔ مرزا ریحان بیگ ندوی
(سابق سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ)
ڈاکٹر منموہن سنگھ، بھارت کے چودھویں وزیرِاعظم، ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی سمت کو نئی جہت عطا کی ہے۔ ان کی قیادت میں بھارت نے اقتصادی میدان میں زبردست ترقی کی، اور عالمی سطح پر ایک اہم اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرا۔ ڈاکٹر سنگھ کا دورِ حکومت (2004-2014) بھارت کی تاریخ کا ایک سنہری دور ثابت ہوا، جس میں معیشت کی اوسط شرح نمو 7.7% رہی اور ملک کی معیشت دو کھرب ڈالر تک پہنچ گئی، جو اسے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بناتا ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا وژن صرف تیز رفتار اقتصادی ترقی تک محدود نہیں تھا، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس ترقی سے ہر طبقہ اور ہر فرد فائدہ اٹھائے، اور ملک کے تمام حصے ایک ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔ ان کی حکومتی پالیسیوں نے ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے بنیادی حقوق کو بھی مستحکم کیا۔ ان کے دور میں جو اہم قوانین نافذ کیے گئے، وہ بھارت کی عوام کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیوں کا سبب بنے، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
حقِ تعلیم قانون (Right to Education Act): اس قانون کے ذریعے ہر بچے کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، جس سے لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے اور بھارت کی تعلیمی شرح میں اضافہ ہوا۔
حقِ خوراک قانون (Right to Food Act): اس قانون کے تحت حکومت نے غریب طبقے کو سستا اور معیاری کھانا فراہم کرنے کی ذمہ داری لی، جس سے ملک کے لاکھوں افراد کی خوراک کی ضروریات پوری ہوئیں اور غریبی کی سطح میں کمی آئی۔
منریگا (MGNREGA): یہ منصوبہ دیہی علاقوں میں روزگار کی ضمانت فراہم کرنے والا تھا، جس کا مقصد دیہی عوام کی معاشی حالت بہتر کرنا اور انہیں بنیادی ضروریات کے لیے روزگار مہیا کرنا تھا۔
حقِ معلومات قانون (Right to Information Act): اس قانون کے ذریعے عوام کو حکومتی اداروں سے معلومات حاصل کرنے کا قانونی حق دیا گیا، جس سے حکومت کی شفافیت اور عوام کی شمولیت میں اضافہ ہوا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر
ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی انہوں نے تعلیم کے اہمیت کو سمجھا اور اپنے والدین کی حمایت سے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1952 میں اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1954 میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔ بعد ازاں، ڈاکٹر سنگھ نے کیمبرج یونیورسٹی سے 1957 میں اکنامکس ٹرائیپوس کی ڈگری حاصل کی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے 1962 میں ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیمی سفر نے ان کی سوچ میں گہرائی اور بصیرت کو بڑھایا، جو بعد میں ان کی حکومتی پالیسیوں اور اقتصادی اصلاحات میں جھلکیں۔
پیشہ ورانہ کیریئر
تعلیمی میدان میں کامیابی کے بعد، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے تدریس کا آغاز کیا اور پنجاب یونیورسٹی اور دہلی اسکول آف اکنامکس میں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے حکومت کے مختلف اہم محکموں میں خدمات انجام دیں۔ 1971 میں وہ کامرس منسٹری میں اقتصادی مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے منتخب ہوئے، اور 1972 میں انہیں چیف اکنامک ایڈوائزر کے طور پر ترقی دی گئی۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور ادارہ جاتی بصیرت کے باعث انہیں ریزرو بینک آف انڈیا کا گورنر، پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین جیسے اہم عہدوں پر فائز ہونے کا موقع ملا۔
اقتصادی اصلاحات کے معمار
1991 میں جب بھارت ایک شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا، ڈاکٹر سنگھ نے وزیرِ خزانہ کے طور پر اہم اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان کے اقتصادی اقدامات نے بھارت کو ایک آزاد معیشت کی سمت میں گامزن کیا اور ملک کو عالمی سطح پر ایک اقتصادی طاقت بننے کی بنیاد فراہم کی۔ ان کی اصلاحات میں کرنسی کی شرحِ تبادلہ کو آزاد کرنا، درآمدات کے لیے قواعد و ضوابط میں نرمی اور نجکاری کے اقدامات شامل تھے۔ ان کی پالیسیوں نے بھارتی معیشت کو بحران سے نکالا اور ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔
ڈاکٹر سنگھ کا مشہور جملہ “No power on earth can stop an idea whose time has come” بھارتی معیشت کے لیے ایک نئی روشنی کا پیغام تھا۔ ان کی اصلاحات نے بھارت کی اقتصادی ترقی کا ایک نیا باب رقم کیا اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔
وزیرِاعظم کی حیثیت
2004 اور 2009 کے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کی کامیابی کے بعد، ڈاکٹر منموہن سنگھ 22 مئی 2004 اور 22 مئی 2009 کو وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ ان کی قیادت میں بھارت عالمی سطح پر ایک اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرا۔ ان کے دور میں بھارت نے عالمی اقتصادی بحران کے باوجود بہترین ترقی کی اور لاکھوں لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہتری آئی۔ ان کی حکومت میں بھارت نے اقتصادی استحکام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر اہم پوزیشن حاصل کی۔
منموہن سنگھ کا دور: بھارت کی ڈپلومیسی کا نیا باب:
منموہن سنگھ (2004- 2014) کی خارجہ پالیسی میں ایک تیز اور معتدل حکمت عملی نظر آئی۔ ان کی قیادت میں بھارت نے عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل کی اور کئی بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کیا۔ تاہم، ان کی پالیسیوں کو بعض چیلنجز کا سامنا بھی رہا، خاص طور پر پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیاں۔
:اہم کامیابیاں
1- بھارت-امریکہ جوہری معاہدہ: 2005 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوئی اور عالمی سطح پر اس کی اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی۔ اس معاہدے کے ذریعے بھارت نے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کا استعمال شروع کیا۔
2- جاپان اور یورپ کے ساتھ تعلقات کا فروغ:
سنگھ نے جاپان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے اور جاپان کو بھارت کی انفراسٹرکچر ترقی میں اہم شراکت دار بنایا۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ بھی بھارت نے دفاعی اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔
3- روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات
روس کے ساتھ بھارت کا اسٹریٹجک شراکت داری کا رشتہ سنگھ کے دور میں مضبوط ہوا۔ روس کے ساتھ دفاعی اور جوہری تعاون میں اضافہ ہوا، اور دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو “خاص اور ممتاز اسٹریٹجک شراکت داری” میں بدل دیا۔
4- برکس BRICS اور G20 میں بھارت کی قیادت:
سنگھ کی قیادت میں بھارت نے BRICS (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ) گروپ کا حصہ بن کر عالمی اقتصادی حکمت عملی میں اپنی موجودگی بڑھائی۔ ساتھ ہی، عالمی اقتصادی فورمز جیسے G20 میں بھارت کی آواز بھی مضبوط ہوئی۔
پالیسیوں پر تنقید
1- پاکستان کے ساتھ تعلقات: سنگھ نے پاکستان کے ساتھ امن کی کوششیں کیں، مگر دہشت گردی کے مسئلے نے ان کے اس اقدام کو پیچیدہ بنا دیا۔ 2008 کے ممبئی حملے کے بعد سنگھ پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے اور ان کی پالیسی زیادہ نرم رہی۔
2- چین کے ساتھ سرحدی تنازعات:
چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوا، مگر سرحدی تنازعات بدستور ایک بڑا مسئلہ تھے۔ سنگھ نے چین کے ساتھ سفارتکاری اور اقتصادی تعلقات کو ترجیح دی، لیکن چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور سرحدی مسائل پر ان کی حکومت پر کافی تنقید کی گئی۔
عالمی اعزازات
ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی عالمی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں پدم وبھوشن (1987)، یورو منی ایوارڈ (1993)، ایشیا منی ایوارڈ (1993 اور 1994) اور دیگر اہم اعزازات شامل ہیں۔ ان کی اقتصادی حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ان کا نام عالمی سطح پر احترام سے لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی میراث
ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان کی انکساری، ایمانداری، اور شفافیت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ان کی سادہ طبیعت، عزم و ہمت، اور عوام کی خدمت کے جذبے نے انہیں ایک منفرد مقام دلایا۔ وہ نہ صرف ایک اقتصادی ماہر تھے بلکہ ایک ایماندار اور اصول پسند رہنما بھی تھے جنہوں نے بھارت کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ڈاکٹر سنگھ کا دورِ حکومت بھارت کے معاشی ترقی کے ایک نئے عہد کی نشاندہی کرتا ہے، اور ان کی میراث ایک مستحکم، خوشحال اور ترقی یافتہ بھارت کے طور پر زندہ رہے گی۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی خدمات نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں ایک مثال ہیں۔ ان کی قیادت نے بھارت کو عالمی اقتصادی منظرنامے پر نمایاں مقام دلایا اور ان کی اصلاحات نے ملک کی معیشت کو مضبوط و مستحکم کیا۔ ان کی کامیاب حکمت عملی اور وژن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کی خدمات کا اثر کئی دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔