صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی ایوان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر پارلیامنٹ میں بحث کے دوران جس بے باکی کے ساتھ راہل گاندھی نے ملکی مسائل بے روزگاری، مہنگائی، اگنی ویر، کسانوں کی تحریک اور ایجنسیوں کے غلط استعمال پر روشنی ڈالی اور حکمراں جماعت کو گھیرے میں لیا، اس نے پورے ہندوستان کے لوگوں کے دل کو جیت لیا، ان کے مخالفین بھی اس تقریر کی تعریف پر خود کو مجبور پارہے ہیں، حکومت کے خلاف یہ تقریر اس قدر مؤثر اور مواد سے بھر پور تھی کہ ڈیڑھ گھنٹے سے زائد جاری حزب مخالف کے لیڈر کی ایوان کی اس تقریر کے دوران وزیر اعظم کو دو، وزیر داخلہ امیت شاہ کو تین، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور شیو راج سنگھ چوہان کو ایک ایک بار مداخلت کرنی پڑی، حد تو تب ہو گئی، جب اسپیکر اوم برلا کو بھی اپنی صفائی میں راہل گاندھی کی تقریر روک کر بیان دینا پڑا، راہل گاندھی نے جب یہ کہا کہ اسپیکر بھی جانب داری برتتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انتخاب کے دن وزیر اعظم نریندر مودی کو جھک کر آداب کیا اور مجھے کھڑے کھڑے، اس پر اسپیکر ضبط نہیں کر سکے اور کہا کہ ہماری تہذیب ہے کہ بڑوں سے جھک کر ملا جائے، بلکہ ان کے پاؤں بھی چھوئے جائیں، اور برابر والوں سے یا کم عمر والوں سے برابری سے ملا جائے۔ میں نے اس ہندوستانی تہذیب اور سنسکرتی کا پالن کیا، ان کے خاموش ہوتے ہی راہل گاندھی نے یہ کہہ کر سب کی بولتی بند کر دی کہ پارلیامنٹ کے اندر اسپیکر سے بڑا کوئی نہیں ہوتا۔
راہل گاندھی نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ ہندو صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ نہیں ہیں، جو نفرت اور خوف پھیلانے کا کام کرتے ہیں، ہندو اور بھی لوگ ہیں جو شیو کو مانتے ہیں، وہ نفرت کی بات نہیں کرتے، اس پر خوب ہنگامہ ہوا، لیکن راہل گاندھی نے اس پورے ہنگامہ کے بعد پھر اپنی تقریری جاری رکھی، اور حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام مضبوط انداز میں کیا۔ انہوں نے شیو اور گرو گوبند سنگھ کی تصویر بھی دکھائی، جس پر اسپیکر نے اعتراض کیا، راہل نے کہا کہ جب ایوان میں دوسری تصویریں دکھائی جا سکتی ہیں تو شیو اور گروکی تصویر کیوں نہیں دکھائی جا سکتی۔ راہل گاندھی کی پوری تقریر کے دوران پارلیامنٹ کی کاروائی کے ضابطہ کی کاپی بار بار دکھائی گئی، خود اسپیکر نے ضابطوں کا ذکر کیا، گو ان لوگوں کے منہ سے ضابطہ کی پابندی ایک مذاق ہی معلوم ہوتا تھا، جنہوں نے اپنی دس سالہ مدت میں صرف پارلیمانی ضابطہ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں۔
اسپیکر نے رکارڈ سے راہل گاندھی کی تقریر کا بڑا حصہ حذف کر وادیا، اس طرح انہوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ غیر جانب دار نہیں، اقتدار کے طرفدار ہیں، پارلیمانی جمہوریت کے لیے یہ بڑی خطرناک بات ہے۔