دہلی ہائی کورٹ نے طلاق سے متعلق ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ملک کو یکساں سول کوڈ کی شدید ضرورت ہے،

         ✍️: اسجد حسن بن قاضی محمد حسن ندوی

     یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے سلسلے میں مرکز سے ضروری اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے ، عدالت کا احساس ہے کہ جدید ہندوستانی معاشرہ آہستہ آہستہ “یکساں” ہوتا جارہا ہے ، جس سے مذہب ، برادری اور ذات پات کی ‘روایتی رکاوٹیں’ ختم ہوتی جارہی ہیں ، اور ان بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ، یکساں سول کوڈ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،

   اس کیس کی سماعت کے دوران ، جسٹس سنگھ نے مشاہدہ کیا کہ عدالتوں کو بار بار مختلف مذاہب کے الگ الگ قوانین سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ مختلف برادریوں ، ذاتوں اور مذاہب سے وابستہ افراد ، جو ازدواجی بندھن کو ختم کرنا چاہتے ہیں انھیں ایسے تنازعات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے ،

      ہندوستان کے آئین میں ملک میں یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت، شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین کو بلا تفریق مذہب و ملت یکساں بنانا ہے،

        مسلمان عام طور پر یکساں سول کوڈ کو اپنے مذہبی امور میں مداخلت کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ ان کا موقف ہے کہ دستور ہند میں سب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا حق حاصل ہے۔

_ یکساں سول کوڈ کے نقصانات _

      “حقیقت یہ ہے کہ ’یونیفارم سول کوڈ ‘ مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ،

       دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ،

       تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ، لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ، اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، ہمارے سامنے ناگاؤں اور میزؤوں کی واضح مثال موجود ہے کہ انھوں نے اس کے بغیر عَلَم بغاوت کو نہیں جھکایا کہ ان کو کچھ خصوصی رعایتیں دی جائیں ، جن میں ان کے لئے اپنے قبائلی قانون پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یک جہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا”

 

        ( بحوالہ : شمع فروزاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)