
از: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
یہ دنیا، جسے ہم بڑے شوق سے اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں اور آنکھوں میں سجاتے ہیں، اصل میں ایک دھندلا آئینہ ہے، اس آئینہ میں چمکتی ہوئی چیزوں کا عکس تو نظر آجاتا ہے، مگر وہ شے گم ہو جاتی ہے جو بہ ظاہر مدھم ہوتی ہے لیکن اندر سے اتنی ہی روشن، وہ شے جو انسان کے قلب کو جلا بخشتی تھی، روح کو سکون دیتی تھی، اور اعمال کو وہ مقبولیت عطا کرتی تھی جو زمین کے کناروں سے آسمانوں تک کا سفر طے کرتی تھی، وہ شے خلوص ہے، جو آج کے تیز رفتار دور کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی ہے، ایک زمانہ تھا جب خلوص ایک خوشبو کی مانند ہر عمل میں رچا بسا ہوا تھا، نیتیں بارش کے قطروں کی طرح شفاف اور بے رنگ تھیں، عمل کا مقصد اللہ کی رضا تھا، نہ کہ صرف لوگوں کی داد و تحسین، عبادتوں میں وہ سچائی تھی جو زمین پر قرار پاتی تھی اور آسمانوں کی طرف اڑان بھرتی تھی، مگر آج، اسی خلوص کی راکھ کو شہرت اور نام و نمود کا طوفان اڑائے لئے پھرتا ہے، اور انسان کو مقصد سے کہیں دور لے جارہا ہے، دنیا کی ہر شے سے اگر اس کے اصل جوہر Essence کو نکال دیا جائے تو وہ ڈھانچہ اور تلچھٹ کی صورت اختیار کرلیتی ہے، جیسے شہد سے مٹھاس اور پھول سے خوشبو، یہی حال خلوص کا ہے، یہ اعمال کی روح ہے، جو انہیں معنی اور مقصد عطا کرتی ہے، لیکن آج یہ روح غائب ہے، اور اس کی جگہ ریاکاری اور خود نمائی Ostentation نے لے لی ہے:بہت ہی کم نظر آیا مجھے اخلاص لوگوں میںیہ دولت بٹ گئی شاید بہت ہی خاص لوگوں میںکسی تہذیب کے زوال کی پہلی علامت یہ ہے کہ انسان اپنی نیتوں کے ساتھ دھوکہ کرنے لگے، کچھ ایسا ہی آج ہو رہا ہے، دینی کوششیں، جو کبھی تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں، اب اسٹیج کی مصنوعی روشنی سے چمک پانے کو بے تاب رہتی ہیں، وہ خطبات، جو قلوب کو گرماتے تھے، اب اکثر سماجی میڈیا کے ویوز بڑھانے کا ذریعہ بن گئے ہیں، مطاف، مقامِ ابراہیم اور صفا و مروہ پر ہر مقدس جگہ “لائیو” ہونے کا شوق فراواں ہوتا جا رہا ہے، آج ہم سادگی اور اخلاص سے کوسوں دور ہیں، اجتماعی دعاؤں میں بہ تکلف رونے اور آہ وزاری کا اہتمام معمول بن چکا ہے، یہ جذبات اکثر خشوع کے بجائے دکھاوے کا شکار ہو جاتے ہیں، حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: كان الرجلُ تأتيهِ عَبْرَتُهُ فَيَسْتُرُها، فإذا خَشِيَ أن تَسْبِقَهُ قامَ مِن المجلسِ” (جب کسی شخص کو رونا آتا تو وہ اسے چھپاتا، اور اگر اسے اندیشہ ہوتا کہ آنسو بہہ پڑیں گے تو وہ مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا)، یہ قول اس دور کی روحانی عظمت کی عکاسی کرتا ہے جب عبادات اور قلبی کیفیات کو خالصتاً اللہ کے لیے محفوظ رکھا جاتا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب خشیتِ الٰہی کے جذبات لوگوں کے دلوں میں امانت کی مانند تھے، جنہیں دوسروں پر ظاہر کرنا ریاکاری کے مترادف سمجھا جاتا تھا، خشیت کی حلاوت اخفاء میں پوشیدہ ہے، دل کی رقت آمیز کیفیت کا گواہ صرف اللہ ہو، نہ کہ لوگوں کی نظروں کا ہجوم،
یاد رکھنے کا سبق یہ ہے کہ عمل کی مقبولیت کا راز “سیلفی” selfie میں نہیں، بلکہ “سیلف لیسنس” selflessness یعنی بے نیازی اور بے لوث عبادت میں ہے، یہی چیز انسان کو خوئے دلنوازی اور شان دلآویزی عطا کرتی ہے، اور زمستانی ہواؤں میں شمشیر کی تیزی بھی ہو، اسے آہ سحر گاہی کے لیے بیدار کر دیتی ہے، قیام و قعود اور رکوع و سجود کی بے پناہ لذتوں سے سرشار کئے دیتی ہے، اس وقت جب دنیا نیند کی مے ناب میں غرق ہوتی ہے، اس پر شب ماہتاب کی چادر تنی ہوتی ہے، اور اسے دن کا چمکتا آفتاب بنارہی ہوتی ہے، خلوص کی اصل طاقت وہ سچائی ہے جو انسان کے دل سے نکلتی ہے اور عمل کو ہر زاویہ سے روشن کر دیتی ہے، یہ ایک درخت کی مانند ہے، جس کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں، اور جس کا پھل ہر عمل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے،
اخلاص وہ جوہرِ حیات ہے جس پر بندگی کی بنیاد قائم ہے، یہ قلب کی وہ کیفیت ہے جو عمل کو معراج اور نقطۂ کمال Pinnacle عطا کرتی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول بناتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ ﴾ [البینہ: 5] (حالاں کہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ ہی کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے بالکل یکسو ہوکر اسی کی عبادت کریں)۔
یہ اخلاص ہی ہے جو نیت کو پاکیزہ اور شفاف بناتا ہے اور بہ ظاہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی عظیم بنا دیتا ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”أفضل الأعمال: أداء ما افترض الله، والورع عما حرم الله، وصدق النية فيما عند الله” (افضل اعمال یہ ہیں کہ فرائض ادا کیے جائیں، حرام چیزوں سے بچا جائے، اور نیت اللہ کے لیے خالص ہو)،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “الإخلاص فهو حقيقة الإسلام؛ إذ الإسلام هو الاستسلام لله لا لغيره” (اخلاص درحقیقت اسلام کی روح ہے؛ کیوں کہ اسلام کا مطلب ہے اللہ کے سامنے کامل سپردگی، نہ کہ کسی اور کے لیے”۔
اخلاص وہ آئینہ ہے جس میں انسان کے اعمال کا اصل جوہر نظر آتا ہے، مگر دشوار طلب ہے، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “ما عالجت شيئًا أشدَّ عليَّ من نيتي، لأنها تتقلب عليَّ” (میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی چیز کو مشکل نہیں پایا، کیوں کہ یہ بار بار پلٹتی ہے)، عمل کی روح اخلاص ہے، بغیر اخلاص کے عمل بے وزن ہو جاتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، حضرت عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: “بسا اوقات کوئی چھوٹا عمل نیت کی وجہ سے بڑا بن جاتا ہے، اور کوئی بڑا عمل نیت کی وجہ سے چھوٹا ہو جاتا ہے”۔
اخلاص کی راہ دشوار ہے، انسان کا نفس بار بار دنیا کی طرف مائل ہوتا ہے اور اخلاص کے ذائقہ کو بد مزگی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے، حضرت سہل بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “نفس پر سب سے زیادہ دشوار چیز اخلاص ہے؛ کیوں کہ اُس میں نفس امارہ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا”، ریاکار کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ لوگوں کے سامنے عمل کرتا ہے تو اُس میں اضافہ کر دیتا ہے، اور جب تنہائی میں ہوتا ہے تو عمل میں کمی کر دیتا ہے۔
اخلاص وہ کنجی ہے جو اللہ کی مدد اور برکت کے دروازوں کو کھولتی ہے، سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “بندہ کو اللہ کی مدد اُس کی نیت کے مطابق نصیب ہوتی ہے، اگر نیت کامل ہو تو مدد بھی مکمل ہوگی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اخلاص کی تاثیر کو اس طرح بیان کیا: ” اخلاص وہ عمل ہے جو انسان کو کینہ، حسد، اور دنیوی لالچ سے آزاد کر دیتا ہے؛ کیوں کہ اُس کی نظریں اللہ کی رضا پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔”آئیے، ہم اس چراغ کو دوبارہ جلائیں، سورۂ “اخلاص” کو وردِ زباں اور معانی اخلاص کو حرز جاں بنائیں، اپنی نیتوں کو خالص کریں، اور اپنے اعمال کو اس معیار پر لے جائیں جو اللہ کو مطلوب ومحبوب ہے، یہی دین کا جوہر، اور ہماری نجات کی شاہ کلید ہے، سچ کہا ہے اقبال نے:
مجھ کو معلوم ہیں پِیرانِ حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعوائے نظر لاف و گزاف