ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی(قسط: 2)
“فقہ مقاصد” کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
“فقہ مقاصد” مرکب اضافی ہے، یہ دو لفظوں سے مرکب ہے: 1- فقہ 2- مقاصد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دونوں لفظوں کی لغوی تعریف کر دی جائے-“فقہ” کی لغوی تعریف:کسی چیز کے علم و فہم کو “فقہ” کہتے ہیں-“معجم مقاییس اللغہ” میں ہے: “الفاء والقاف والهاء أصل واحد صحيح، يدل على إدراك الشيء والعلم به. تقول: فقهت الحديث أفقهه. و كل علم بشيء فهو فقه. يقولون: لا يفقه ولا ينقه. ثم اختص بذلك علم الشريعة، فقيل: لكل عالم بالحلال والحرام: فقيه. و أفقهتك الشيء، إذا بينته لك”. (ابن فارس، معجم مقاییس اللغہ 4/442، بیروت، دار الفکر، 1399ھ/1979ء، تحقیق: عبد السلام محمد ہارون، ع.أ.:6)- ( فاء، قاف اور ہاء ایک صحیح مادہ ہے جو کسی چیز کے سمجھنے اور اس سے واقف ہونے کو بتاتا ہے- تم بولتے ہو: “فقهت الحديث أفقهه” (میں نے بات سمجھ لی اور میں بات سمجھتا ہوں)- کسی چیز کے علم کو بھی “فقہ” سے تعبیر کرتے ہیں- عرب بولتے ہیں: “لا يفقه ولا ينقه” ( اسے مطلق فہم حاصل نہیں ہے)- بعد میں شریعت کے علم کے ساتھ فقہ مخصوص ہوگئی-
چنانچہ حلال وحرام کے ہر عالم کو فقیہ کہا جانے لگا- “أفقهتك الشيء” کا مطلب ہے کہ میں نے تمہیں فلاں چیز سمجھادی اور تمہارے لیے اسے واضح کردیا)-البتہ “فقہ” کسی چیز کا مطلق فہم نہیں ہے- لہٰذا “فقهت أن الأرض تحتي” ( میں نے سمجھ لیا کہ زمین میرے نیچے ہے) نہیں بولیں گے-لفظ “فقہ” کسی چیز کے دقیق فہم کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی چیز کے اسرار و رموز، حکمت، مواقع اور باطن وتہ میں چھپے ہوئے امور کے ادراک کا نام “فقہ” ہے- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (قالوا: يا شعيب ما نفقه كثيرا مما تقول). (11/ ہود: 91)- ( شعیب -علیہ السلام- کی قوم کے لوگوں نے کہا: اے شعیب! ہم تمہاری کہی ہوئی بہت سی باتوں کو نہیں سمجھتے ہیں)-
یہ امر ظاہر ہے کہ وہ ان کی دعوت کے مفہوم سے واقف تھے، لہٰذا ان کی مراد یہ ہے کہ ہم تمہاری دعوت کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہیں-“فقہ” کی اصطلاحی تعریف:پہلے فقہ کا دائرہ کافی وسیع تھا- اسی وسعت کے پیش نظر امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت زوطی – رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- نے فقہ عام کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی: “معرفة النفس ما لها و ما عليها”. (بخاری، عبد العزیز، کشف الاسرار 1/11، ط: 1، بیروت، العلمیہ، 1418ھ/1997ء، تحقیق: عبد اللہ محمود محمد عمر، ع.أ.:4)- (نفس کا اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو جاننے کا نام “فقہ” ہے)-اس تعریف کے دائرہ میں عقائد، وجدانیات یعنی باطنی اخلاق، نفسانی ملکات اور عملیات یعنی نماز اور روزہ وغیرہ سب داخل ہیں- بعد میں عقائد علم کلام کے ساتھ مخصوص ہوگئے، اور اخلاقیات تصوف کے ساتھ مخصوص ہوگئی- جزئیات و فروعات کے شرعی احکام کے لیے “فقہ” کا استعمال ہونے لگا-اب فقہ کی تعریف یوں کی جاتی ہے:”تفصیلی دلائل کے ساتھ جزئی شرعی احکام کے علم کو “فقہ”کہتے ہیں-“التوضیح” میں ہے: ” العلم بالأحكام الشرعية العملية من أدلتها التفصيلية”. (محبوبی، عبداللہ بن مسعود بخاری حنفی، شرح التلویح علی التوضیح لمتن التنقیح فی اصول الفقہ 1/18، بیروت، العلمیہ، 1416ھ/1996ء، ع.أ.:2)- (تفصیلی دلائل کے ساتھ عملی شرعی احکام جاننے کو فقہ سے تعبیر کرتے ہیں)-