علمی سیاحت نامہ (12)✍️ معاویہ محب اللہ
مظاہرِ جدید کے سامنے والی عمارت میں داخل ہوئے جہاں درسگاہیں بنی ہوئی ہیں، وہاں داخل ہوتے ہی دیواروں پر اکابرینِ دیوبند کے خطوط، مظاہر العلوم کے مہتمم حضرات کی فہرست، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒ کا خط جس میں ہنگامۂ مظاہر کا تذکرہ ہے، الغرض بہت سارے نایاب ونادر خطوط دیواروں پر آویزا تھے۔ اسی احاطہ میں موجود تخصص فی الحدیث کی درسگاہ میں داخل ہوئے، وہاں الماری میں رکھی کتابوں کی زیارت کر رہے تھے کہ صدرِ شعبہ تشریف لائے، ان کا نام یاد کرنے میں میرا حافظہ ساتھ نہیں دے رہا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ سورت ،گجرات کے رہنے والے ہیں، چنانچہ گجراتی زبان میں رس گھولنے والا انداز سننے کو ملا، مولانا سے مختصر،ہلکی پھلکی گفتگو پر مجلس تمام ہوئی۔ شعبہ تخصص فی الحدیث سالِ دوم کے طالب علم کے ساتھ علمی گفتگو ہوئی، ہم نے ان سے منہجِ تخریجِ حدیث کے سلسلے میں دریافت کیا، ان کے نصاب میں موجود ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی کی کتاب ’’تخریج الحدیث نشأته ومنھجیته‘‘ کا تذکرہ آیا، یہ کتاب تخریجِ حدیث کے سلسلے میں نہایت عمدہ اور نفیس کتابوں میں سے ہے، ڈاکٹر ابوللیث خیرآبادی صاحب ملیشیا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں حدیث کے لکچرر ہیں، اس کتاب کی ڈجیٹل پرنٹ کاپی راقم کے پاس بھی موجود ہے، الحمد للہ راقم نے اس کتاب کو محنت وعرق ریزی سے پڑھنے کے بعد چھوٹے بھائی کو پڑھایا بھی ہے، خود مصنف نے پچھلے سال دار العلوم وقف دیوبند میں دو گھنٹہ کے محاضرہ میں پوری کتاب کا خلاصہ پیش فرمایا ہے، اس محاضرہ سے خواہش مند احباب یوٹیوب پر جاکر ضرور استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہر حال وہ طالب علم اس کتاب سے کافی نالاں و شکوہ کناں نظر آرہےتھے، اس کتاب کے منہج پر اپنے اساتذہ کے تبصروں کا بھی ذکر بھی ہوا۔ ان صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اس قسم کا اندازِ تخریج ہم جیسے ناتواں اور بے بضاعت نہیں کرسکتیں، جس میں فنِ اسماء الرجال کی روشنی میں الفاظِ جرح وتعدیل کے مراتب کا لحاظ کرکے حدیث پر حکم لگایا جائے، بلکہ ان کے نزدیک تخریج کا مطلب صرف یہی تھا کہ روایت کے طرق وسند اور مختلف متن کے الفاظ کو جمع کردیا جائے اور بس !یقینا یہ بھی تخریج کا ایک طریقہ ہے لیکن وہ بنیادی طریقہ اور پہلا لیول ہے، تخریج کا اعلی وارفع، اور اصل طریقہ یہی ہے کہ روایتوں کے اوپر صحت وضعف، رد وقبول کے حکم لگائے جائے، جس طرح اصول فقہ اور مسائلِ فقہیہ میں تخریجِ مناط، تنقیحِ مناط اور تحقیقِ مناط کی روشنی میں اجتہاد کیا جائے، جس کا دروازہ قیامت تک کے لئے کھلا ہوا ہے، بالکل ایسے ہی روایت ودرایت کے رد وقبول میں اجتہاد کا دروازہ بھی قیامت تک کھلا رہے گا، الفاظِ جرح وتعدیل بندہ از خود وضع نہیں کرتا بلکہ ائمہ جرح وتعدیل نقل فرما چکے ہیں، اسماء الرجال کے ذخیرہ میں پانچ لاکھ سے زائد راویوں کے حالات قلمبند کردیے ہیں۔
نیز وہ طالب علم شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تخریجات وتحقیقات کے بارے میں بھی کچھ تحفظات کا شکار تھے، شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات کا جس کسی نے بھی مطالعہ کیا ہے اسے اندازہ ہوگا کہ آپ ؒ نے کس عرق ریزی،جاں فشانی اور انتہائی تحقیق کے بعد روایات پر حکم لگایا ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں نے ’’ الحمام حرام علی نساء أمتی ‘‘ والی روایت پر حکم لگانے میں ایک راوی ’’ یحی ابن ابی اسید‘‘ کی وجہ سے تقریبا چالیس سال توقف کیا ہے(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ،جلد ۷،صفحہ ۱۲۹۷)۔
ایسے ہی شیخ البانی ؒ نے ایک حدیث : ” نحمل ھذا العلم مِن کلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُه یُنفَون عنه تَحرِیفَ الغالینَ وَإنتِحَالَ المُبطِلین وتأوِیلَ الجاھلین‘‘ اس روایت کے سلسلے میں آپ ؒ نے پوری زندگی توقف اختیار فرمایا، حالانکہ اس روایت کےدرجنوں سے زائد طرق ہیں جس کو آپ کے شاگرد ’’ شیخ ابو اسامہ سلیم بن سعید الہلالی‘‘ نے پوری کتاب ’’ ارشاد الفحول الی تحریر النقول فی تصحیح حدیث العدول ‘‘ میں جمع فرمایا ہے، نیز بہت سارے محدثین نے اسے صحیح بھی کہا ہے اور کئی محدثین نے ضعیف کا درجہ بھی دیا ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ سے بار بار اس حدیث کے صحت وضعف کے بارے میں دریافت کیا گیا ، لیکن توقف ہی اختیار فرمایا، یہاں تک کہ آپ کے شاگرد شیخ ابواسامہ نے ان طرق کو جمع کرنے کے بعد فرمایا : میں اسے حسن سمجھتا ہوں۔ شیخ نے جواب دیا : لکم رأیکم۔
اب بتائیں ! کیا جس آدمی نے کسی حدیث پر حکم لگانے میں زندگی بھر توقف کیا ہو وہ جلد باز ہوسکتا ہے؟ افسوس ہوتا ہے کہ معمولی معمولی علم آنےکے باوجود بھی لوگ ان محدثین پر جن کی زندگیاں اس فن کی خدمت میں گزر گئی، تبصرے چھانٹتے پھرتے ہیں اور نقد وتبصرہ میں انتہائی اوچھی اور پست ذہنیت کا ثبوت دیتے ہیں، بعض لوگ تو حضرت شیخ پر اتنے رکیک اور گستاخانہ کلمات استعمال کرتے ہیں کہ اسی سے ان کا چھچھور پن واضح ہوجاتا ہے۔ بہر حال جس کے سینے میں بھی تحقیق وجستجو کا جذبہ ٔ خیرموجزن ہوگا تو وہ ضرور علم ِ حدیث کے لیے کھل جائے گا ان شاء اللہ ، اللہ تعالی ٰ جہاں بھی ہو شاد وآباد رکھے۔