جب مولانا سعیدی کی مجلس سے فارغ ہوئے اور ان کے ارشادات سے مستفید ہوگئے تو تقریبا ساڑے گیارہ بج چکے تھے، اب کسی درسگاہ میں بیٹھ کر درسِ حدیث سننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ مظاہر العلوم جدید کی راہ لی، مظاہر کی مسجد میں کچھ دیر آرام کیا۔ مظاہرِ جدید میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے تقریبا تمام ہی سرگرمیاں موقوف ہوگئی تھیں، یہاں ہمارے لئے ایک ہی چیز باعثِ کشش تھی، وہ شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کی لائبریری۔ *شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوریؒ* شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کا نام بچپن ہی سے سن رکھا تھا، کیونکہ جامعہ خلیلیہ ماہی کی وجہ سے پورا علاقہ حضرت شیخ کے قدومِ میمنت لزوم سے مستفید ہوتا رہتا تھا، البتہ کم عمری کی وجہ سے آپ کی زیارت وملاقات کا تو شرف حاصل نہ ہوسکا، لیکن درجۂ عربی سوم میں آپ کی مرگِ ناگہانی کی اندوہ ناک خبر سن کر قلب وذہن پر حزن وغم، رنج وملال اور افسردگی کے نقوش ضرور مرتسم ہوگئے، اس کے باوجود حضرت شیخ کی علمی جلالت ووقار، شخصیت وکردار سے واقفیت براہِ نام تھی۔ مشکوۃ المصابیح کے سال میں ” انوار المشکوۃ ” کی جلدیں برادرِ خُرد کی وجہ سے ہمارے گھر میں پہلی مرتبہ آئیں، تو اس کی مختصر مگر جامع تشریح وتبیین نے اتنا مانوس کردیا کہ یقینا اس کا شارح علمِ حدیث کا نہ صرف شناسا اور دیدہ ور ہے بلکہ اس فن میں گہری بصیرت بھی رکھتا ہے۔ اس کے بعد دورۂ حدیث کے سال میں بخاری کی شرح ” نبراس الساری الی ریاض البخاری ” کے جستہ جستہ مقامات نظر نواز ہوتے گئے، تو علمِ حدیث کی برکت سے آپ سے عقیدت میں اضافہ ہوگیا، رفتہ رفتہ مزید کتب دیکھنے کی خواہش ہوئی تو فراغت کے بعد تو “الیواقیت الغالیہ فی تحقیق وتخریج احادیث العالیہ ” کے نام سے جو احادیث کی تخریج پر مشتمل کتاب ہے ; کے بہت سارے مقامات کا مطالعہ کیا، ان چاروں جلدوں میں ایسے ایسے حدیث کے لعل وجواہر جڑے ہوئے ہیں کہ قاری عش عش کرجاتا ہے، روایات کی وتخریج، حدیث میں منقول الفاظ کی تحقیق، متن کی دلنشین تشریح، سند ومتن کی انتہائی خفیف وباریک علتوں پر گفتگو کی گئی ہے، اگر مجھے طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو اس کے کچھ قیمتی پھول یہاں بھی بکھیر دیتا۔ الغرض جس طالب علم کو علمِ حدیث سے دلچسپی ہو وہ ضرور الیواقیت الغالیہ کا از اول تا آخر مطالعہ فرمائیں تاکہ علمِ حدیث میں گہری بصیرت، فقہی آراء میں وسعت، اسماء الرجال سے واقفیت اور عللِ احادیث سے دلچسپی پیدا ہوں۔حضرت شیخ رحمہ اللہ کے درس کی افادیت اور علمِ حدیث میں درک وبصیرت کو دیکھ کر آپ کے شاگرد مولانا ایوب سورتی نے صحیح البخاری کی آخری کتاب ” کتاب التوحید ” کی تشریح کو شائع کیا، یہ تقریر نہایت علمی نکات سے معمور ہے، صفاتِ الہی پر بڑی نفیس بحثیں فرمائی ہیں، فرقِ باطلہ : معتزلہ، مرجیہ، مجسمہ اور مشبہہ کا دل نشین اور علمی تعاقب کیا ہے، صحیح بخاری کو امام بخاری کے منہج کے مطابق سمجھایا ہے۔ مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کی علمی جلالت وعظمت کا تذکرہ ہو اور فیصل بھٹکلی ندوی صاحب (استاد ندوۃ العلماء لکھنؤ ) کی کتاب ” مجالس محدث العصر ” کا ذکر نہ آئے بڑی ناسپاسی ہوگی، کیونکہ اس کتاب سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، اس کتاب میں حضرت شیخ کی 60 سے زائد مجالس کو قلمبند کیا ہے، علمی نکات، محدثانہ بصیرت، فقہی کمال الغرض ہر پہلو پر روشنی پڑتی ہے، اس کتاب میں حضرت شیخ نے مختلف محدثین ورجال، کتب ومصنفات، اور ناقدین کی آراء پر کھل کر تبصرہ فرمایا ہے، تصوف اور مولانا روم، شمش تبریز اور ابن الفارض وغیرہ کو اپنے سخت تبصروں سے زخمی زخمی کردیا ہے، جابجا حضرت شیخ کے حوالے سے یہ عبارت منقول ہے کہ : ” حدیث کو بطورِ حدیث پڑھاؤ، حدیث کو حنفیاؤ، شافعیاؤ اور مالکیاؤ مت ” ۔ اگرچہ میں نے حضرت مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کو نہیں دیکھا لیکن مجھے ان سے محبت ہے اور کیوں نہ ہو ؟ جسے فرمانِ رسول سے محبت ہے، جس کی پوری زندگی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی خدمت میں گزری ہے، ایک بیان میں حضرت شیخ نے فرمایا ہے : یونس میں کیا ایسی چیز ہے؟ وہ تو محض گوشت پوست کا بنا ہوا ایک انسان ہے، اے یونس ! تُو تو بھیس کے پیچھے دوڑتا تھا، یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی ہے جس نے تجھے اتنا مقبول بنا دیا ہے “۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ جس وقت یہ فرماتے میرا دل مارے خوشی کے جھوم جھوم جاتا ہے : علمِ حدیث میں میری سند تو میرے اساتذۂ مظاہر سے ملتی ہے، لیکن فنِ حدیث جو میں نے سیکھا ہے وہ ایک پارٹی ہے جس کے سرِ خیل شیخ الاسلام امام الأنام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ ہے، ان کے تلامذہ حافظ ذہبی، ابن قیم، ابن کثیر، ابن عبد الہادی، ابن رجب حنبلی ہیں۔ وہ بوڑھا حافظ ابن حجر تو میرا چچا ہے ” ۔ اللہ اکبر کیا حقیقت بیانی ہے، متأخرین میں حضرت شیخ کو جن جن شخصیات سے محبت ہے، اتفاق کی بات یہ کہ حضرت شیخ سے میرا توافق ہونے پر دل باغ باغ ہوگیا، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، اس کے علاوہ جن شخصیات کے بارے میں مجھے پہلے سے محبت تھی ان کے بارے میں حضرت شیخ کے مثبت تبصروں نے دل جیت لیا، ڈاکٹر اقبال، سید مودودی، مولانا تھانوی وغیرہ۔ الغرض حضرت شیخ کی شخصیت میں کسی کے لئے کچھ کشش ہو یا نہ ہو، میرے لئے تو معاصرین میں سب سے زیادہ علمی کشش، فکری وسعت، فقہی توسع جیسے صفات دل کو موہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت شیخ کا اخلاص وتقوی نہایت اعلی درجہ کا ہے، نیز محدثین سے اختلاف میں جن آداب کو ملحوظ رکھتے ہیں یہی آپ کے اخلاص وللہیت کی سب سے بڑی دلیل ہے، مجالس محدث العصر میں مولانا بھٹکلی نے واقعہ نقل کیا ہے کہ : ” حضرت شیخ امام بخاری کی غلطی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : میں نے اس کو حاشیہ پر لکھ دیا ہے، اس موقع کو غنیمت جان کر مفتی زید مظاہری صاحب نے عرض کیا : حضرت ہمیں بھی متنبہ فرما لیجئے۔ بس حضرت شیخ غصہ وجلال میں آگئے اور فرمایا : جس غلطی کو میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ محنت کرکے حاصل کیا ہے، کیا تم اس کو لمحہ بھر میں معلوم کرکے امام بخاری پر نقد چاہتے ہو، جو بھی محنت سے مطالعہ کرے گا میرے حاشیہ میں پالے گا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب نے رقم فرمایا ہے کہ : ایک بار مجلس میں تواضع کے ساتھ فتح الباری میں ابن حجر پر اپنے تعقبات کا ذکر کیا، تو میں نے عرض کیا کہ اگر ابن حجر کی وہ ساری غلطیاں املا کرا دیتے تو ہمارے پاس کتنی اہم دستاویز مہیا ہوجاتی، تو فرمایا : نہیں ! میں نہیں چاہتا کہ لوگ ابن حجر پر تنقید کریں، میں نے ان تعقبات کو اپنی تحریروں میں منتشر کردیا ہے، جو ساری تحریریں پڑھے گا اسے معلومات حاصل ہوجائے گی ” (سفرِ ہند، 36) ۔ اللہ اللہ کیا اخلاص وللہیت ہے، اختلاف میں اس قدر ادب کا لحاظ تو وہ لوگ بھی نہیں رکھتے جنہیں علم کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔